تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-02-2019

فرض کریں!

فرض کریں کہ آپ سات افراد کو لے کر کہیں کوہ پیمائی کرنے نکلیں۔ اندھیری سرد رات میں کسی برف سے ڈھکی ہوئی وادی میں گم ہو جائیں۔ گھنٹوں پیدل چلنے کے بعد آپ کو سنسان جنگل میں ایک گھر بنا نظر آئے۔ آپ وہاں داخل ہوں‘ سامنے میز پر سات عدد پلیٹیں پڑی ہوں۔برتنوں میں کھانا موجود ہو۔ سات کرسیاں موجود ہوں۔ سات چمچ‘ سات پانی کے گلاس۔ اس کے بعد ایک بڑے ہال میں آپ کو سات عدد بیڈ اور بستر نظر آئیں ۔ آپ اس کے علاوہ اور کیا سوچیں گے کہ کوئی منصوبہ ساز گھیر کر ہمیں یہاں لایا ہے ‘ جسے ہماری تعداد کا ‘ ہماری ضروریات کا علم تھا ۔
ہاں! البتہ‘ اگر آپ اس گھر میں داخل ہوتے اور وہاں دو تین بندوں کے کھانے اور ٹہرنے کا سامان موجود ہوتا تو پھر اسے ایک اتفاق سمجھا جا سکتا تھا ۔ 
یہی صورتِ حال انسان کی اس سیارے کی بھی ہے ۔لاکھوں سال پہلے ‘ جب انسان نے اس زمین پر شعور کی آنکھ کھولی تو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی یہاں اس کے قیام و طعام کا بندوبست ہو چکا تھا ۔ گندم‘ چاول اور کپاس سمیت تمام ضروریاتِ زندگی یا تو زمین سے اگ رہی تھیں یا پھر انہیں زمین کے نیچے کوئلے ‘ تیل اور لوہے کی شکل میں رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی گئی تھی ۔ ہر طرف درخت ہی درخت اُگے ہوئے تھے ۔درختوں کی لکڑی‘ زمین کے نیچے سے نکلنے والے لوہے سمیت تمام چیزوں کا بندوبست ہو چکا تھا۔ 
انسان دوسرے جانداروں سے مختلف تھا۔ اسے آگ پر کھانا پکانا تھا۔ اس کے علاوہ اسے لباس پہننا تھا۔ یہ سب چیزیں اسے سکھا دی گئی تھیں ۔ انسان کو بے انتہا سوچنے کی صلاحیت دی گئی تھی اور تو اور ا س نے توانائی کو ایک شکل سے دوسری شکل میں بدلنا سیکھا۔ اس دوران انسان نے بجلی پیدا کر لی اور توانائی کی مختلف شکلوں کو استعمال کرتے ہوئے‘ اس بجلی سے مشینوں کو حرکت دینا سیکھ لیا۔ بس‘ پھر کیا تھا‘ انسان لمبا لیٹ کر سستا نے لگا۔ 
لیکن یہاں ایک اور scenarioسوچیں ؛اگر فرض کریں کہ زمین پر اتنی مٹی نہ ہوتی ‘ جتنی کہ اس کے چپّے چپّے پر پائی جاتی ہے‘ تو انسان کیا کرتا؟ وہ مٹی کی اینٹ کیسے بناتا۔ اینٹ نہ بنتی اور اگر کرّہ ٔ ارض پہ اتنے زیادہ پتھر نہ پائے جاتے تو عمارتیں کیسے بنتیں۔ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ انسان زمین کھودتا ‘ نیچے سے کوئی کوئلہ ‘ لوہا اور تیل نہ نکلتا ۔ایسا بھی ایک سیارہ ہے ‘ جو کہ مکمل طور پر ہیرے (کاربن) کا بنا ہواہے ۔ یہ سب ذخائر کس نے کرّہ ٔ ارض میں رکھے ‘اتنی فراخ دلی کے ساتھ کہ انسان آج بھی اپنی ضرورت پوری کرتا جا رہا ہے ۔ گزشتہ ایک دہائی میں امریکہ نے شیل آئل اور گیس خود نکالنا شروع کی اور اس کا سعودی عرب پر انحصار کم ہوا ۔ امریکہ سعودی عرب تعلقات ہی بدل کے رہ گئے ۔ 
اس کے ساتھ ساتھ یہ مٹی‘ اگر زندگی کو sustainکرنے کے قابل نہ ہوتی تو؟ اگر پانی میں رہنے والے جانداروں میں گلپھڑے نہ لگے ہوتے ‘ اگر زمین میں پودے نہ اُگ سکتے‘ اگر پودوں کے پتوں میں ضیائی تالیف( فوٹو سینتھیسز) کے ذریعے پانی اور سورج کی روشنی کو ملا کر آکسیجن نہ بنائی جا رہی ہوتی تو کرّہ ٔ ارض زندگی کے لیے قابلِ رہائش (Habitable)نہ ہوتا۔ چند خلیات پیدا ہو بھی جاتے تو وہ اپنی موت آپ مر جاتے ۔ 
یہ زمین کوئی عام زمین نہیں ‘ جس پر آپ زندگی گزار رہے ہیں ۔ آپ کسی بھی دوسرے سیارے کا جائزہ لیں‘ آپ کی آنکھیں حیرت سے کھل‘ بلکہ پھٹ جائیں گی ۔ آپ مریخ پہ جائیں ‘ چاند پر دیکھیں یا زحل کے چاند ٹائٹن پر ‘ان سب زمینوں پر بیلنس نہیں ہے ۔ کہیں تیل کے سمندر بہہ رہے ہیں ۔کہیں لوہے کے انبار موجود ہیں‘ لیکن جو ایک بیلنس چاہیے ‘ جس میںاس سیارے پر زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے تمام ضروری چیزوں کی ایک ساتھ موجودگی چاہیے ‘ وہ ناپید ہے ۔ کرّہ ٔ ارض پہ‘ چونکہ زندہ مخلوقا ت کو رکھا جانا تھا‘ اس لیے یہاں سب چیزوں کو ایک بیلنس میں رکھا گیا ۔ پہلی بات تو یہ ہے ‘دوسرے سیاروں پر درجہ ٔ حرارت ہی زندگی کے لیے ناقابلِ برداشت ہے ۔ ان سیاروں پر دن اور رات کے درجہ ٔ حرارت میں ہی اتنی بڑی تبدیلی ہوتی ہے کہ زندہ چیزیں مر جائیں ۔ ہماری زمین پر بھاری atmosphere سمندروں کے پانی کی موجودگی ‘ اوزون‘ مقناطیسی میدان اور کئی قسم کی ایسی حفاظتی تہیں موجود ہیں ‘ جو کہ جانداروں کو زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی سب مخلوقات کا پیٹ بھرنے کا بندوبست کیاگیا ہے ‘ورنہ سمندرو ں میں وہیل مچھلیاں اور گلیوں میں کتے بلیاں ‘ گھروں کے اندر چھپکلیاں ‘ ہمارے آس پاس اور ہر طرف زندہ چیزیں کیسے پھل پھول رہی ہوتیں ۔ 
لیکن یہ سب چیزیں ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے نہیں بنیں۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے خلا سے ایک دم دار ستارہ آکر زمین پر گرا تھا اور زمین کے ستر فیصد جاندار مر گئے تھے ‘ اسی طرح مادہ سانپ اگر دس انڈے دیتی ہے تو ا ن میں سے ایک ہی بچہ زندہ رہتاہے ‘ باقی انڈے دوسروں کا پیٹ بھرنے کے کام آتے ہیں ‘ اسی طرح بکروں وغیرہ کا میٹابولزم بہت تیز ہے ۔ وہ ایک سال ہی میں جوان ہو جاتے ہیں ۔ انسان انہیں ذبح کر کر کے کھاتا رہتا ہے ۔ محدود تعداد میں درندے پیدا کیے گئے ہیں ۔ گھاس چرنے والے جانور ہزاروں کی تعداد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہتے ہیں ۔ اس دوران ندیوں میں مگر مچھوں سمیت تمام درندوں کے پیٹ بھرنے کا انتظام بھی ہوتا رہتاہے ۔اسی طرح سے پانی کے سائیکل‘ بارش کا انتظام کیا گیا ہے ‘ جس سے سبزہ اور پودے اُگتے ہیں ۔ 
اب آپ مجھے ایک بات بتائیں کہ زمین کے نیچے پانی اکھٹا ہو جاتاہے ۔ جہاں سے کھودیں ‘ پانی نکل آتاہے ‘ پھر آپ موٹر کی قوت سے تیل جلا کر اسے اوپر کھینچ لیتے ہیں ۔ استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ یہ پانی زمین کی تہوں میں اتر کر غائب اور خشک نہیں ہوتا ۔ یہ پانی بخارات بن کے اڑتا ہے ‘ بارش بن کے پھر برس جاتاہے ۔ وہاں سے پھر یہ زمین کے نیچے اکھٹا ہو جاتاہے ۔ آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب اپنے آپ ہو رہا ہے ؟ 
ایسا نہیں ہے ۔ ایک بہت بڑا سائنسدان‘ ایک بہت بڑا کیمیا دان موجو دہے ‘ جس کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔ جب تک مخلوقات نے اس سیارے پر زندہ رہنا ہے ‘ ان کی ضروریات کا بندوبست ہوتا رہے گا ‘لیکن پھر وہ جو بھوکے رہ جاتے ہیں ؟ یہاں ایک لطیفہ بھی سنیے :دو سال پہلے میں ایک ڈھابے سے کھانا لینے گیا۔ کوئلوں پر بار بی کیو بن رہا تھا ۔ پاس ہی ٹھنڈی ریت پر کچھ کتے لیٹے حسرت بھری نظروں سے گوشت کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ان سب کے پیٹ اندر تھے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا‘ مجھے ان پہ ترس آیا۔ ساتھ ہی میں نے ہوٹل میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور خود اپنے آپ کو دیکھا۔ ہم سب کے پیٹ نکلے ہوئے تھے ۔ ایک بندہ قمیص اٹھا کے پیٹ میں انسولین لگا رہا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ جتنا کم کھائو ‘ اتنا صحت کے لیے اچھا ہے ۔ کم کھائو اور دوڑ لگائو ۔ یہی تو وہ کتے کر رہے تھے ۔ شہر کی مکھیوں سمیت جانداروں میں عمر بڑھانے کے جو تجربات ہوئے ہیں ‘ ان میں بھی انہیں کم کھلا کر ان کی عمر بڑھائی گئی ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved