تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-02-2019

کاروبارِ حیات

جذبات کی تسکین نہیں‘ کاروبارِ حیات میں حکمت اور ہوش مندی درکار ہوتی ہے۔ جو انتقام لینے پر تلے ہوں‘ وہ انتقام ہی لیتے ہیں‘ زندگی بسر نہیں کرتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی داستان کا سبق اس کے سوا کیا ہے؟پاکستان کی پوری کہانی کیا کہتی ہے؟
کابینہ میں تبدیلیاں متوقع ہیں۔ پچھلی بار اس موضوع پر غوروفکر کرنے والے ایک دوست کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ دو تجاویز اس ناچیز کی تھیں۔ ایک یہ کہ چوہدری سرور کو وزیر خارجہ اور شاہ محمود کو ملتان کا مئیر مقرر کر دیا جائے۔ جی نہیں‘ شاہ کو مئیر نہیں‘ زراعت کا وفاقی وزیر ہوناچاہئے۔ اس کے اور چھور سے وہ خوب واقف ہیں۔
زراعت کو حقیر نہ سمجھا جائے۔ قومی معیشت میں اس کا حصہ بائیس فیصد ہے۔ تیس فیصد ہو سکتا ہے اگر ریاضت کی جائے۔ ہدف حاصل کرنے کے لیے اس کو جدید خطوط پر ڈھالنا ہوگا۔ کاشت کار کی مدد کرنی چاہئے۔ زمین کو ہموار کرنا ہوگا۔ بہت سی نہیں ہے۔ کرم کش ادویات کو ملاوٹ سے پاک کرنا ہوگا‘ موزوں قیمت پہ بروقت کھاد مہیا کرنا ہوگی۔ بیج کو بدل ڈالنا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر آب پاشی کا نیا نظام۔ چار سال تک دس بارہ فیصد کی شرح نمو۔ چلئے سات فیصد ہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد میں اگر یہ ممکن تھا تو اب کیوں نہیں۔ شریف خاندان نے زراعت کو برباد کر ڈالا۔ بار دانہ تک سفارش سے ملا کرتا۔ امید ہے کہ اپریل میں گندم برداشت کرنے کے موقع پر ایسا نہیں ہوگا۔
گندم کی سرکاری قیمت 1300 روپے مقرر ہے۔ کاشتکار کی بہت بڑی تعداد کو مگر یہ قیمت نہیں ملتی۔ باردانہ ہی نہیں ملتا تو فصل فروخت کیسے ہو؟ آڑھتی ایک ہزار روپے تک خرید کرتا ہے۔ جلال آباد اور قندھار سے افغان آتے ہیں۔ وہ بھی گیارہ سو روپے سے زیادہ کی پیشکش نہیں کرتے۔ عالمی منڈی میں گیہوں کے نرخ کم ہیں۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے 461373 میٹرک ٹن گندم بیچی ہے۔ 728 روپے فی من کے حساب سے۔ تقریباً 45 فیصد کم قیمت پر۔ پھر قوم کو بتایا گیا کہ برآمدات 2فیصد بڑھ گئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی سکّے کی قیمت کے مطابق بھارت میں یہ 1440 روپے فی من ہے‘ ایک من 40کلو۔ ہندوستان میں کاشتکار کے اخراجات نسبتاً کم ہیں۔ ہمارے ہاں‘ صرف گندم کی امدادی قیمت طے ہے‘ بھارت میں بیس فصلوں کی۔ کسان اس کے باوجود مطمئن نہیں‘ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔خطرناک خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ایک لیڈر دو امریکی کمپنیوں کے ایما پر جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بیج درآمد کرنے پر تلے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ یورپ کے تمام ممالک میں جس پر پابندی ہے۔
آئی ایم ایف سے 8 بلین ڈالر کے قرض سے وقتی طور پہ بہتری آئے گی۔ اندیشہ مگر یہ ہے کہ مسائل پھر بھی ختم نہیں ہوں گے‘ بلکہ بڑھ جائیں گے۔ بجلی اور گیس گراں ہوگی۔ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹیکس مزید کل قومی آمدن کا تقریباً 0.6 فیصد۔ اندازہ ہے کہ 4600 ارب روپے سالانہ۔ ایف بی آر اور ایف آئی اے کو کاروباری طبقات کے ساتھ ''حسن ِسلوک‘‘ کا حکم دیا جا چکا۔ بتدریج وہ بروئے کار آئیں گے۔ 
سرمایہ حسّاس ہوتا ہے‘ بہت حسّاس۔ خطرہ یہ ہے کہ کاروبار کا حجم کم ہوتا جائے گا۔
قیامِ پاکستان سے دو برس پہلے‘ قائداعظمؒ نے صنعت و تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات شروع کر دئیے تھے۔ ممبئی اور دہلی ہی نہیں‘ گجرات کاٹھیا واڑ کے قصبات میں بھی کاروباری لوگوں سے ذاتی طور پر ملاقاتیں کیں۔ ان سے کہا کہ بھارتی شہروں کے علاوہ کراچی اور لاہور میں بھی وہ سرمایہ کاری کریں۔قائداعظمؒ کی خواہش یہ تھی کہ بھارت اور پاکستان میں امریکہ اور کینیڈا ایسے تعلقات ہوں۔
2012ء میں خان صاحب سے عرض کرنا شروع کیا کہ وہ کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اور پشاور کے تاجروں اور صنعتکاروں سے ملیں۔ بدقسمتی سے پارٹی الیکشن میں آنجناب الجھے تھے۔ کاروباری طبقات شریف خاندان سے شاد تھے۔ اس لئے کہ عام آدمی کی قیمت پر ہر سہولت انہیں مہیا تھی‘ حتیٰ کہ خیانت کے مواقع بھی ۔اس کے باوجود‘ ان سے روشن خیال تاجر لیڈروں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ اب وہ نالاں ہیں۔ نگر نگر وزیراعظم کو جانا پڑا۔ قائداعظمؒ کی طرح ممتاز کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں زیادہ ثمرخیز ہوتیں۔ نقدی باہر منتقل ہونے کی بجائے سمندر پار سے پاکستان آتی۔
آلو کی ارزانی نے کاشت کار کو تباہ کر دیا ہے۔ گنا اگانے والوں کے ساتھ پہلے ہی ناانصافی ہے۔ پہلے سے سوچ سمجھ لیا جاتا تو برآمد کا بندوبست کیا ہوتا۔ بدقسمتی سے کابینہ میں ان چیزوں کا پوری طرح ادراک کرنے والا کوئی نہیں۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ بیس بائیس کروڑ کا ملک تو کیا‘ ایک گھر کا نظام بھی قرض پہ چلایا نہیں جا سکتا۔ افغانستان کی صورتحال کے سبب واشنگٹن کا روّیہ قدرے بہتر ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں مگرکوئی کسی پہ عنایت نہیں کیاکرتا۔ امریکہ تو ہر گز نہیں کرے گا۔ پاکستان کی غیر معمولی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ۔ قیادت مگر ایسی نہیں کہ صورتحال کو پوری سلیقہ مندی سے برت سکے۔
شریف خاندان کے دور میں جو معاہدے چین کے ساتھ ہوئے‘ عسکری قیادت کے اس پہ تحفظات تھے۔ چینیوں کو علم تھا؛ چنانچہ انہوں نے اصرار کیا کہ اسے اعتماد میں لیا جائے۔
مستقل طور پر بھارت پاکستان میں بدامنی پھیلانے پر تلا رہتا ہے۔ اس نیک کام میں سی آئی اے اور ایم آئی سکس بھی دہلی کی مددگار ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بے پناہ مشکلات کے باوجود‘ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ جیت لی گئی ہے۔ پاک افغان سرحد پہ خاردار تارلگانے کا عمل مکمل ہو جائے تو بھارتی سازش کو تھامنا اور بھی سہل ہو جائے گا۔
تین عشروں کے بعد‘ افغانستان میں اتفاق رائے کی حکومت قائم ہونے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ یہی اس سرزمین کے مسائل کا مستقل اور پائیدار حل ہے۔ برسوں کے بعد پاکستان کی پہل کاری کے لئے‘ فضا ہموار ہے۔ اسلام آباد‘ چین‘ روس اور امریکہ ایک فارمولے پر متفق ہو جائیں تو ترکی اور ایران بھی مان جائیں گے۔ عرب بھی‘ جو اس سرزمین میں ایک کردار کے آرزومند ہیں۔ ایران کو نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ فارسی بولنے والوں پہ اس کا رسوخ گہرا ہے۔ ترکمانوں سے بات کرنے کے لیے انقرہ سے بات کرنا ہوگی۔ خوش بختی کی بات یہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں بھارت کے لئے افغان سرزمین کو برتنا مشکل تر ہو جائے گا۔
قیامِ امن میں پاکستان کی بقا اور فروغ کا راز پوشیدہ ہے۔ ہمسائیوں سے تعلقات میں بہتری۔ اس سے بھی زیادہ‘ اس سے بھی کہیں زیادہ ملک میں جاری کشیدگی میں کمی۔ اگرچہ ختم نہیں ہو سکتی‘ کم ضرور کی جا سکتی ہے۔ افسوسناک یہ ہے کہ اس معاملے میں خان صاحب کا اندازِ فکر مختلف ہے‘ مختلف اور سطحی۔ قومی معیشت کی خرابی سے ذہنی دبائو کا وہ شکار ہیں۔ اپنی افتادِ طبع کے باوصف کافی صبر سے موصوف نے کام لیا۔ مگر پچھلے دنوں سپیکراسدقیصر‘شاہ محمود اور پرویز خٹک پہ وہ بگڑے۔ ان تینوں نے شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی حمایت کی تھی۔ اب وہ ایک گروپ کی طرح کام کر رہے ہیں۔اخبار کا ایک عام قاری بھی جانتا ہے کہ شہباز شریف کو ہٹانے پر اب وہ تل گئے ہیں۔ تین چار وزرا کی چھٹی بھی طے شدہ ہے۔ 
سول ملٹری تعلقات کو مثالی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا نہیں‘ این آر او پہ ہونے والا شوروغوغا کچھ اور کہہ رہا ہے۔ عمران خان کی بقا اور ملکی استحکام کا بہت کچھ انحصار راولپنڈی اور اسلام آباد میں بہترین مراسم پہ ہے۔
جذبات کی تسکین نہیں‘ کاروبارِ حیات میں حکمت اور ہوش مندی درکار ہوتی ہے۔ جو انتقام لینے پر تلے ہوں‘ وہ انتقام ہی لیتے ہیں‘ زندگی بسر نہیں کرتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی داستان کا سبق اس کے سوا کیا ہے؟پاکستان کی پوری کہانی یہی تو کہتی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved