امینہ سید اور آصف فرخی کا ادب فیسٹیول کتاب اور کتاب سے محبت کرنے والوں کے لئے سجایا گیا تھا۔تین روز پر محیط اس میلے میں ادب‘تاریخ‘کلچر اور تعلیم کے حوالے سے کئی سیشن بھی منعقد ہوئے۔ میلے میں مصوری اورموسیقی کے رنگ بھی تھے اور معروف شخصیات کے ساتھ ان کی زندگی اور ان کے حوالے سے گفتگوبھی تھی۔مجھے جب ادب فیسٹیول کا دعوت نامہ ملا تو امینہ سید نے تعلیم کے حوالے سے ایک سیشن کے لئے بھی تاکید کی۔ان ادبی میلوں میں کتابوں کی کشش توہوتی ہی ہے‘ اس کے علاوہ بہت سے دوستوں سے (Writers Lounge)میں ملاقات کا امکان بھی ہوتا ہے ۔یہی سوچ کر میں نے کراچی کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔
اسلام آباد سے کراچی کی پرواز میںنسیم زہرہ سے ملاقات ہو گئی۔میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کچھ دن پہلے ہی ان کی کتابFrom Kargil to the Coupپڑھی ہے اور اس موضوع پراسے ایک معتبر کتاب پایا ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب کئی برسوں پر پھیلی ہوئی ریسرچ کا نتیجہ ہے۔نسیم زہر ہ ادب فیسٹیول میںاپنی کتاب کی رونمائی کے لیے کراچی جا رہی تھیں۔اسی فلائٹ میںجناب عشرت حسین بھی مل گئے‘ وہ بھی ادب میلہ میں شرکت کے لئے کراچی جا رہے تھے ۔ ہمیشہ کی طرح تروتازہ عشرت صاحب سے آپ ایک بار ملیں تومدّتوں بعدملنے پر آپ کا نام لے کر آپ کو حیران کر دیں گے۔معیشت کے اسرارورموز کو سمجھنے والے چند لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
جمعہ کی شام گورنر ہا ؤس میں ادب فیسٹیول کا افتتاحی اجلاس تھا ‘جس کی صدارت گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کر رہے تھے ۔فیسٹیول کے آگنائزرز امینہ سید اور آصف فرخی نے تفصیل سے ادب میلے کی غرض و غایت بیان کی ۔جناب عشرت حسین اور عارفہ سیدہ زہرا نے پر مغز کلیدی مقالے پیش کیے۔اس دن کا سب سے اہم سیشن نسیم زہرہ کی کتاب پرتھا‘جس میں مجید ہارون‘شاہد امین‘احمد رشید‘ جنرل (ر)وسیم قاضی اور نجم الدین شیخ نے شرکت کی۔ اس سیشن کی نظامت مبشر زیدی نے کی۔یہ ایک بھرپور سیشن تھا ‘جس میں کتا ب کے حوالے سے سنجیدہ گفتگوکی گئی۔ اس روز ڈنر کا اہتمام گورنر ہائوس میں کیا گیا تھا‘ وہیں معروف شاعرہ فاطمہ حسن سے ملاقات ہوئی۔فاطمہ آج کل انجمن ترقی ٔاُردو کی معتمد ہیں ۔ان کا عہدانجمن کی تاریخ کا زریںعہد کہا جا سکتا ہے۔ انہی کے دور میں اردو باغ کا منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔اب ان کا خواب انجمن کے ہاسٹل کی تعمیر ہے‘ جس کی تعمیر کے لئے وہ کوشاں ہیں۔
ادب فیسٹیول کے مہمانوں کا قیام کراچی جم خانہ میں تھا۔ یہ ایک تاریخی عمارت ہے‘ جو 1865ء میں تعمیر کی گئی تھی‘ بعد میں اس میں کئی اضافے بھی کئے گئے۔ میرے ہمراہ یہاں مستنصر حسین تارڑ اور کشور ناہید بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ہفتے کی صبح میں ناشتے کے لیے جم خانہ کے ڈائننگ ہال میں گیا توایک میز پر مُستنصر حسین تارڑصاحب تشریف فرما تھے۔تارڑ صاحب بلاشبہ اس دور کے سب سے محبوب لکھنے والے ہیں۔ان کے ساتھ دو طویل بریک فاسٹ ملاقاتیں ہوئیںان کی گفتگو بھی ان کی نثرکی طرح مسحور کن ہوتی ہے۔یوں تو ان کی ساری کتابیں ہی بیسٹ سیلرز کی فہرست میں آتی ہیں‘لیکن میری پسندیدہ کتاب ان کا ناول ـ ــ 'بہائو‘ ہے‘ جسے ہم پورے اعتماد کے ساتھ دنیا کے بڑے ناولوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ اس روز ان کی تازہ ترین کتاب منطق الطیر(جدید )پر گفتگو ہوئی‘ جس کا آغاز ٹلہ جوگیاں (جہلم کے قریب ایک تاریخی مقام) سے ہوتا ہے۔ اس روز تارڑ صاحب نے ٹلہ جوگیاںکی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ ناشتے کی ایک ملاقات میں معروف شاعرہ محترمہ کشور ناہید بھی موجود تھیں‘ جن کی کتاب'' شیریں سخنی سے پرے‘‘ کی ادب فیسٹیول میں رونمائی تھی ۔فہمیدہ ریاض کے ذکر پر کشور ناہید اور تارڑ صاحب کی آنکھیں نم ہو گئیں اور ہم دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔
ہفتے کے دن کے اہم سیشن میں معروف دانش ور اورافسانہ نگار قاضی امر جلیل کے ساتھ ایک گفتگو تھی ‘جس میں نورلہدیٰ شاہ اور شاہ محمدپیرزادہ امر جلیل سے گفتگومیں شریک تھے ۔امر جلیل جتنے بڑے ادیب ہیں‘ ان کی شخصیت بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ امر جلیل صاحب سے میری شناسائی1983ء سے ہے جب میں اور وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں کام کرتے تھے۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر اور میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر تھا۔مجھے یا د ہے قاضی صاحب نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی پہلی ڈاکومنٹری میری آواز میں ریکارڈ کی تھی۔ان جیسے پڑھے لکھے اور شائستہ لوگ بہت کم نظر آتے ہیں۔ آج میں انہیں اٹھائیس سال بعد دیکھ رہا تھا۔ان کے سیشن کے بعد ہم دیر تک پرانے دنوں کی باتیں کرتے رہے۔ اس روز کا ایک اور اہم سیشن طارق کھوسہ صاحب کی کتابInconvenient Questionکی تقریب رونمائی تھی۔یہ کتاب نادیہ غنی کے پبلشنگ ہائوس نے بڑے اہتمام سے شائع کی ہے۔طارق کھوسہ صاحب کی اس کتاب پر نیاز صدیقی اور حارث خلیق نے گفتگو کی۔تقریب کی نظامت ہما بقائی کے ذمے تھی ۔گورننس کے موضوع پر یہ ایک ہم کتاب ہے‘ جس میں مصنف نے گورننس کا ایک روڈ میپ دیا ہے ۔طارق کھوسہ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد CSS جوائن کی تھی اور پولیس میں انسپکٹر جنرل کے عہدے پر پہنچے تھے۔انگریزی ادب کی جھلک ان کے اسلوب میں جا بجاجھلکتی نظر آتی ہے‘ جو ان کی تحر یر کو اور بھی اثرآفریں بناتی ہے۔طارق کھوسہ صاحب سے رائٹرزلائونج میں چائے پر ملاقات ہوئی ۔میں نے ان کی شخصیت کو ان کی تحریرکی طرح دلنشیںپایا۔اتوار فیسٹول کا آخری دن تھا‘ اس روز تعلیم کے حوالے سے سیشن تھا۔ پینل میں میرے ہمراہ زبیدہ جلال ‘ بیلارضاجمیل‘امینہ سید‘شہزاد رائے‘فیصل مشتاق اور سلمیٰ عالم تھے۔سامعین کی تعداد اوردلچسپی کے اعتبار سے یہ ایک بھرپور سیشن تھا‘ جس میں بچوں کی سکولوں تک رسائی (Access) ‘ معیار ((Quality اور معاشی اور تعلیمی تفاوت پر گفتگو کی گئی۔ سیشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں عام سامعین کے علاوہ سکولوں کے بچوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ادب فیسٹول میں ایک طویل عرصے کے بعد انگریزی کے معروف ناول نگار اور عزیز دوست اُسامہ صدیق سے ملاقات ہوئی۔ 2004ء میں جب میں LUMSکی سوشل سائنسز کی فیکلٹی میں آیا تو اُسامہ لا ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔ بہت ہی متحرک اور خوش کن شخصیت کے مالک۔ ادب کی دنیا میں آئے توکامیابیاں ان کی منتظر تھیں۔ادب فیسٹیول میں اُسامہ کی نئی کتاب Snuffing out the Moon کی تقریب رونمائی تھی ۔اس کا موضوع پوسٹ کلونیل عہد کا نظامِ انصاف ہے ۔
فیسٹول میں مشہور دانش ور محترم جاوید جبار صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح محبت سے پیش آئے ۔وہ پاکستا ن سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔ فیسٹیول میں ان کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب پاکستانیت کی تقریب تھی۔ یہ کتاب ان اجزائے ترکیبی کا احاطہ کرتی ہے‘ جو پاکستانیت کی بنیاد ہیں۔ میرے خیال میں یہ کتاب پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری میں ہونی چاہیے۔ادب فیسٹیول کاایک اہم سیشن مشاعرہ تھا ‘جس کا اہتمام کھلے لان میں کیا گیا تھا۔مشاعرے میں معروف شاعروں نے اپنا کلام سنایا اور داد سمیٹی۔ صدرِ مشاعرہ اردو کے سر بلند شاعر محترم افتخار عارف تھے ۔ افتخار عارف صاحب نے سامعین کی بھرپور داد میں کچھ غزلیں اور نظمیں سنائیں۔ ان میں ایک ـ''محبت کی آخری نظم ‘‘بھی تھی جس کی پہلی سطر ''مری زندگی میں اک کتاب ہے‘ اک چراغ ہے اور ایک تم ہو‘‘ ایک خواب کا پیراہن بُنتی ہے۔امینہ سید اور آصف فرخی کا شکریہ کہ ادب فیسٹیول کے روپ میں انہوں کتنے ہی خوش رنگ خوابوں کا اجرا کیا ہے۔