تحریک انصاف کی حکومت جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے وعدہ سے منحرف تو نہیں ہوئی‘ لیکن سو دن کے متعین ٹائم فریم کے اندر نئے صوبہ کے قیام کیلئے وہ ابتدائی اقدامات بھی نہیں اٹھا سکی‘ جس کاعہد وپیماں‘عمران خان صاحب نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی قیادت سے باندھا تھا۔خان صاحب کو تو چھوڑیئے‘ خسروبختیار کی قیادت میں ‘جس گروہ نے خود جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے وعدہ پہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی‘ وہ بھی نہایت آسودگی کے ساتھ اقتدار کی گرم آغوش میں سو گئے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سمیت جنوبی پنجاب کے وہ تمام الیکٹ ایبلز اس وقت مصلحت کی بُکل اوڑھے بیٹھے ہیں‘ جو اپنی انتخابی مہم کے دوران بلند آہنگ میںجنوبی پنجاب صوبہ کا راگ الاپتے رہے۔
بلاشبہ نئے صوبے کے قیام کی علمبردارتنظیمیں تو اتنی سکت نہیں رکھتیں کہ وہ الگ صوبے کے خواب کی تعبیر لا سکیں‘ لیکن ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بھی جنوبی پنجاب صوبے کی تخلیق کو اپنے سیاسی مفادکے منافی سمجھتی ہیں۔وسطی پنجاب کی نمائندگی کرنے والی‘نوازلیگ کو جنوبی صوبے کے قیام کی مہم چلانا تو درکنار اس ایشو پہ بات کرنا بھی گوارا نہیں‘اسی طرح جنوبی پنجاب میں گہری جڑیں رکھنے والی پیپلزپارٹی نے پہلے شدت کے ساتھ نئے صوبے کا ایشو اٹھا کے جنوبی پنجاب کے باسیوں کو امید دلائی پھر ضمیر پہ کوئی بوجھ لئے بغیر پسپائی اختیار کر کے نئے صوبے کے طلبگار عوام کی مایوسی بڑھا دی۔ لاریب ‘ پیپلزپارٹی اور دیگر سندھی جماعتوں کو جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی صورت میں سندھ کی تقسیم کے ڈراونے خواب دکھائی دیتے ہیں؛چنانچہ جنوبی پنجاب کی آخری امید پی ٹی آئی بنی‘ مگر بدقسمتی یہ کہ چاہنے کے باوجود وہ بھی اس بھاری پتھر کو اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکی۔امر واقعہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سمیت سندھ کی پارٹیاں سندھ میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام کی مخالف ہیں۔مسلم لیگ نواز پنجاب کی تقسیم کی مخالف اور جے یو آئی اور اے این پی خیبرپختونخوا کی تقسیم نہیں چاہتیں‘ جبکہ بلوچ رہنماؤں کے دباؤ کے باعث ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بلوچستان کی انتظامی تقسیم پہ غورکرنے سے گھبراتی ہیں۔اس لیے فی الحال جنوبی پنجاب اورہزارہ سمیت نئے انتظامی یونٹس کی تخلیق کے امکانات ناپید ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ فوجی حکومتیںبھی خاص مصلحتوں کے پیش نظر کالاباغ ڈیم بنا سکیں ‘نہ نئے صوبوں کے قیام جیسے معاملات میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت کی۔ منتخب سیاسی قیادت بھی نئے صوبوں کے قیام اور بڑے آبی ذخائر کی تعمیر جیسے اہم آمور کو نمٹانے سے ہچکچاتی رہیں۔60 ء اور 70 ء کی دہائی میں فوجی اور سول حکومتیں اگر چاہتیں ‘تو باآسانی نئے صوبے بنا سکتی تھیں‘ لیکن اس وقت کی قومی قیادت مستقبل کے تقاضوںکا ادراک نہ کر سکی‘اس لئے یہ ایشوز رفتہ رفتہ پھیلتے اور بڑا چیلنج بنتے گئے۔صوبوں کی انتظامی تقسیم کے خلاف سیاسی جماعتوں کی مزاحمت صوبائی تعصبات اور گہری ذہنی تقسیم کی غماضی کرتی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر فوری طور پہ نئے صوبوں کی تخلیق ممکن نہ بنائی گئی تو چار اکائیوں پہ مشتمل وفاق کی طاقت بھی کمزور پڑتی جائے گا۔کمزور اب بھی ہے‘ جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ وفاق کالاباغ ڈیم بنا سکتا ہے نہ نئے صوبوں بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ملک گیرجماعتیں موقع پرستی کے تحت جس طرح بتدریج صوبائیت میں سمٹتی جا رہی ہیں‘یہ رویہ وطن سے وفاداری کی سپرٹ کے منافی ہے۔اس طرح تو موقع پرست سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لالچ میں عوام اور ملک کے مفاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔
ملک میں جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہوا‘اسی نسبت سے وسائل کی افزائش ہوئی‘ نہ انتظامی صلاحیتوں کے دائرے وسیع ہو سکے۔ہمارا انتظامی ڈھانچہ انسانی صلاحیتوں کا ارتقا ممکن بنا سکا‘ نہ قومی وسائل کو پوری طرح بروئے کار لانے کی اہلیت حاصل کرپایا‘اسی وجہ سے ملک رفتہ رفتہ انتظامی زوال‘معاشی بدحالی اور سیاسی بحران کی دلدل میں اترتا گیا؛اگر حکمران اشرافیہ نے اب بھی بڑے فیصلے نہ کئے تو آپشنز ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مملکت کو مزید انتظامی صوبوں میں تقسیم کر کے نظم و ضبط کو بہتر بنایا جائے‘ تاکہ فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شہریوں کی شرکت ممکن بنا کے تعصبات کو تحلیل کیا جا سکے یا پھرصدارتی نظام کے تحت ون یونٹ بنا کے بڑے صوبوںکی بجائے ایسی ڈویژنل اورڈسٹرکٹ کونسلوں کے ذریعے انتظام چلایا جائے‘ جو شہریوں کو صفائی‘ابتدائی تعلیم اورطبی سہولیات کی جلد فراہمی کے علاوہ ایک مؤثر کرائم فائٹنگ پولیس فورس بھی دے سکیں۔
جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبات کے ساتھ ہی لامحالہ سرائیکی زبان کی تاریخ اور شناخت کے حوالے سے بھی بحث چھڑ جاتی ہے ‘جس میں کچھ لوگ تو کم علمی اور کچھ ذہنی تعصب کی وجہ سے تحقیر آمیز انداز میں سرائیکی زبان کی تاریخی حیثیت اور فطری شناخت کو خود ساختہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ زبان کلاسیکی قدامت کے علاوہ اپنی شناخت کی بھی فطری تاریخ رکھتی ہے۔ظامی بہاولپوری کہتے ہیں؛وادی سندھ میں آٹھ ہزار سال قبل مسیح میں دراوڑ قوم فاتح بن کے داخل ہوئی‘یہ بحیرہ روم کی طرف سے آئی‘ میسوپوٹیمیا‘ عراق‘ عرب اور بلوچستان سے ہوتی ہوئی‘وادی سندھ میں داخل ہوئی جہاں اس نے اپنی پرشکوہ تہذیب کے مراکز ہڑپہ اور موہنجودڑو قائم کئے۔سرائیکی اس وقت وادی سندھ کے اصل باسیوں کی زبان تھی؛ چنانچہ جس وقت دراوڑوں نے وادی سندھ میں اقتدار قائم کیا تو سرائیکی بھی دراوڑی زبان کے ساتھ موجود رہی۔
ابھی حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے ادارہ فروغِ قومی زبان کے تعاون سے سرائیکی زبان و ادب کی مختصر تاریخ شائع کی ‘جس میں ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز نے سرائیکی زبان پہ تحقیق کرنے والے دس غیر ملکی اور دس مقامی محققین کے سرائیکی پر نظریات پیش کئے۔مشہور ماہر لسانیات ایڈورڈ اوبرائین سرائیکی کے بارے کہتے ہیں:کچھ لوگ اسے ہندی اور ہندکو کہتے ہیں‘بلوچ اسے جگدالی اور یورپین اسے ملتانی کہتے ہیں۔ایورنڈٹریوربمفور نے 1895ء میں اسے''مغربی لہندا‘‘کا نام دیا۔جیمزولسن نے1903ء میں اسے ''تھلی‘‘ زبان لکھا۔ایچ ٹی لمبرک نے ''سندھ:اے جنرل انٹروڈکشن‘‘میں لکھاکہ پہلے پہل سرائی کے معنی ''آخر کے لوگ‘‘ ہوتے تھے‘ مگر بعد میں یہ لفظ کلہوڑوں کے گھرانے سے تعلق کی وجہ سے ''تعظیمی لقب‘‘ کے طور پہ کام آنے لگا۔پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والے جاٹ‘بلوچ اور دیگر قبیلے آپس میں لہندا بولتے ہیں‘جسے سندھ میں عام طور پہ سرائیکی کہا جاتا۔
ڈاکٹر کرسٹوفرشیکل کہتے ہیں ''سولہویں سے انیسویں صدی کی درمیانی مدت میں جب جنوبی پنجاب کے بلوچ سرائیکی بولتے ہوئے سندھ میں پہنچے تو سندھیوں نے ان کی زبان کو سرائیکی کا نام دیا‘ کیونکہ یہ جنوبی پنجاب‘ یعنی سندھ کے شمالی حصہ(سرے)میں بولی جاتی تھی۔صوبہ سندھ سرائیکی کا وطن نہ سہی ‘لیکن سندھ نے اسے وہ نام ضرور دیا‘ جس سے یہ پہچانی جاتی ہے‘‘۔ظامی بہاولپوری لکھتے ہیں کہ ''بہاولپور اور ملتان کا اصل اور ابتدائی نام سری رام پور تھا؛چونکہ سری رام چندر جی کے نام سے منسوب کر کے ملتان کا نام سری رام پور رکھا گیا‘اس لیے شہر سری رام پور کی زبان بھی سری رام پوری مشہور ہوئی‘مگر اس جملے کی طوالت زبانوں پہ نہ آ سکی‘ پس یہ لفظ کثرتِ استعمال سے سری رام پوری کی بجائے ''سرے کی‘‘اور پھر سرائیکی مشہور ہوا‘‘۔