نواز شریف کو پتلی گلی سے نکلنے کا موقعہ نہیں دیں گے:فیاض چوہان
وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن نے کہا ہے کہ '' نواز شریف کو پتلی گلی سے نکلنے کا موقعہ نہیں دیں گے‘‘ کیونکہ پتلی گلی میں وہ ویسے ہی پھنس جائیں گے‘ کیونکہ جیل میں فرمائشی کھانا کھا کھا کر وہ اس قدر صحت مند ہو گئے ہیں کہ پتلی گلی سے نکل ہی نہیں سکتے؛ چنانچہ اب انہوں نے ڈائٹنگ کا وعدہ کیا ہے اور کباب اور سموسے کھانا ترک کردیا ہے اور ہریسہ‘ پائے وغیرہ سے دل بہلا رہے ہیں ‘جیسا کہ ہم حکومت سے دل بہلا رہے ہیں اور جلدی میں کام وغیرہ بھی کرنا شروع کر دیں گے‘ جبکہ وزیراعظم صاحب نے بھی دوست ملکوں سے پیسے اکٹھے کرنا شروع کیا ہے اور پیسہ ہی اصل بات ہے؛ اگر یہ اس طرح اکٹھا ہوتا رہے تو کچھ بھی کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ جبکہ پیسے اکٹھے کرنے میں وزیراعظم صاحب کا اپنا بھی دل لگ گیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں عوامی وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکمرانوں نے ملک دیوالیہ کر دیا‘ بھیک مانگ رہے ہیں:فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ'' حکمرانوں نے ملک دیوالیہ کر دیا‘خود بھیک مانگ رہے ہیں‘‘ حالانکہ یہ کارخیر خاکسار جیسے بے روزگار حضرات سے بھی کروایا جا سکتا تھا اور اسی طرح ملک کا قیمتی ٹیلنٹ ضائع کیا جا رہا ہے اور میں حیران ہوں کہ آخر اس ملک کا کیا بنے گا اور میرے جیسے ہنر مند لوگوں کا کیا بنے گا‘ جبکہ بھیک مانگنا تو ملک کے وزیراعظم کو ویسے ہی زیب نہیں دیتا‘ جبکہ بھیک لینے کیلئے حلیہ بھی گداگروں جیساچاہیے‘ لیکن وزیراعظم یہی کام کیسا بن ٹھن کر کر رہے ہیں‘ جبکہ انہیں اپنے قیمتی ملبوس کا ہی خیال رکھنا چاہئے کہ سوٹڈ بوٹڈ آدمی کے ہاتھ میں کشکول پکڑا ہوا کیسا برا لگے گا؟ کیونکہ یہ میرے جیسے سادہ مزاج آدمیوں کا کام ہے‘تاہم اس میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ بھیک سے جمع کیے گئے پیسوں میں سے بھی بھیک مانگی جا سکتی ہے‘ یعنی ایک پنتھ دو کاج‘ اس لیے ضروری ہے کہ حاجتمند لوگوں کا اپنے آپ ہی خیال رکھا جائے۔ پیشتر اس کے کہ انہیں ہاتھ پھیلانے پڑیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں خطاب کر رہے تھے۔
این آر او نہیں دینا‘ نہ دیں‘ ہماری جان چھوڑ دیں:یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ '' این آر او نہیں دینا تو نہ دیں‘ ہماری جان تو چھوڑ دیں‘‘ کیونکہ یہ دُہرا ظلم ہے کہ این آر او بھی نہیں دے رہے او رہماری جان بھی نہیں چھوڑ رہے؛ حالانکہ کچھ دے دلا کر ہماری خلاصی ہو سکتی ہے کہ سیاست تو نام ہی کچھ لو اور کچھ دو کا ہے‘ لیکن کچھ کا مطلب کچھ ہے‘ سارے کا سارا نہیں‘ جبکہ حکومت صرف لالچ کا مظاہرہ کر رہی ہے‘ جو کہ بری بلا ہے اور حکومت خواہ مخواہ اس بلا سے ماتھا لگا رہی ہے‘ جبکہ ماتھا صرف ٹیکنے کیلئے ہوتا ہے ‘جو ہم نے ٹیک کر بھی دیکھ لیا ہے اور حکومت جس کیس پر اتنا ناز کر رہی ہے‘ اسے عدالت میں ثابت کرے گی تو دیکھیں گے؛ اگرچہ ہم دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں‘ تاہم دھمکی آخر دھمکی ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز بوریوالہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کی پالیسیوں کی سزا قوم بھگت رہی ہے:احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اورن لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ'' حکومت کی غیر شفاف پالیسیوں کی سزا ساری قوم بھگت رہی ہے‘‘ کیونکہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کیا اور کیسے کر رہے ہیں‘ جبکہ ہماری پالیسیاں مکمل طور پر شفاف ہوا کرتی تھیں اور صاف پتا چل جاتا تھا کہ خدمت کہاں کہاں اور کس مقدار میں ہو رہی ہے اور ترقی کیلئے خدمت کتنی ضروری ہے۔ اس کے بارے سارے قائد کھل کر بتا چکے ہیں‘ جس سے کم از کم ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ حکمران ملکی ترقی ہرگز نہیں چاہتے کیونکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ملک ترقی نہیں کرے گا تو آپ کی اپنی ترقی بھی نہیں ہوگی ‘ کیونکہ شعبۂ سیاست میں تو داخل ہونے کا مقصد ہی خدمت اور مسلسل خدمت ہے ؛چنانچہ اب خدمات کا جائزہ لینے کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں‘ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وائٹ کالر خدمت کا سراغ لگانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ آپ اگلے روز نارووال میں ایک شادی کی تقریب میں گفتگو کر رہے تھے۔
''ناردرن کمانڈ‘‘... سمیع آہوجا کے افسانے
یہ ممتاز فکشن رائٹر سمیع آہو جا کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے‘ جسے سانجھ نے چھاپا اور اس کی قیمت 700 روپے رکھی ہے۔ فکر انگیز ٹائٹل بینش کا تیار کردہ ہے‘ جبکہ انتساب ارسہ سمیع کے نام ہے۔ مختصر دیباچہ صلاح الدین حیدر کے قلم سے ہے۔ کوئی ساڑھے تین سو صفحات پر محیط اس کتاب میں 19کہانیاں ہیں۔
سمیع آہو جا کا اصل امتیاز ان کی مخصوص زبان ہے‘ جو انہی سے خاص ہے۔ کافی عرصے سے صاحب ِفراش ہیں۔ اللہ کریم ان کو جلد از جلد صحت یاب کرے۔( آمین)۔ میرے ایک شعری کلیات کا اندرونی فلیپ بھی انہی کی دین ہے۔ افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور ان کا شمار ملک کے صاحب اسلوب فکشن رائٹرز میں ہوتا ہے۔ ان کے بعض افسانوں کے نام اور عنوان ہی سے ان کی استعمال کردہ زبان کا اندازہ ہو سکتا ہے‘ مثلاً: زندانِ گردباد‘طلسم دہشت‘جہنم جمع میں‘کشکول بدن‘ٹڈی دل آسماں ‘ قید در قیدوغیرہم‘ تاہم زیادہ تر افسانے صاف زبان میں ہیں اور اپنی دلچسپی کے لحاظ سے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں‘ جن کا ذائقہ بالکل ہی مختلف ہے۔سمیع آہوجا بہت گنجلک نثر لکھتا ہے‘ جس میں روایات‘ تاریخ‘ شاعری‘ سیاست اور فلسفے کی حیرت انگیز آمیزش ہوتی ہے۔ان کا مذکورہ بالا افسانوی مجموعہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
آج کا مقطع
سوچا نہیں کرتے ہیں ظفرؔ ڈوبنے والے
پانی اگر اتنا ہے تو گہرائی بھی ہو گی