تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-02-2019

توازن

قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل اچھے کیے
جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کی
اچھی بات کہ وزیراعظم کو خود پر اعتماد ہے۔ اندیشہ اس میں یہ ہوتا ہے کہ خود اعتمادی میں آدمی خود شکنی اختیار نہ کرے۔ دنیا ٹی وی کے پروگرام ''تھنک ٹینک‘‘ اور ''خبر یہ ہے‘‘ میں پے در پے سروے ہوئے۔ اکثریت حکومت کو مہلت دینے کی حامی۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے، بدامنی اور بے یقینی سے نالاں بھی،مگر مہلت کے حق میں۔
آوازِ خلق نقّارۂ خدا ہوتی ہے۔ فرمایا: لوگوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں، ہوا جسے الٹاتی پلٹاتی ہے۔اسلامک پارٹی آف نارتھ امریکہ کے سربراہ‘ میرے سیاہ فام دوست مصطفیٰ اکتوبر 1978ء میں ایران سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ کہا کہ ایران میں فضا بدل چکی ۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے تہران جا کر دانائی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پانچ ماہ گزرے تھے کہ انقلاب برپا ہوا۔ پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے، جنرل نے امام خمینی کو ''حضرت امام خمینی‘‘ کہا۔ کچھ دن میں جنرل اختر عبدالرحمن نے، ان کے ایما پر، امام سے رازداری میں ملاقات کی۔ لیاقت بلوچ مصطفیٰ سے ملے تو ان کا تبصرہ یہ تھا: مصطفیٰ یکسو بہت ہیں۔
پیغمبروں کا وصف ہے۔آسانی سے یہ دولت میسر نہیں آتی۔ جناب ابراہیمؑ کے باب میں کتاب یہ کہتی ہے: '' ابراہیم یکسو بہت تھے‘‘۔ سرکارؐ کے ساتھ،ذکر ان کا درود میں ہے۔ اقبالؔ کے شعر میںالہام کی گونج سنائی دیتی ہے۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
ہوس نہیں توالجھائو۔ انتقام، دولت اور اقتدار کی تمنا۔ عقل بخشی گئی مگر جبلّتوں کے سائے میں جیتا ہے۔یکسر آدمی آزاد نہیں۔ آدمی کو بتادیا گیا کہ اپنا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے۔ اس کے باطن کی آلودگی... ''اچھے اور برے خیالات ہم نے الہام کر دئیے‘ چاہے تو شکر کرے، چاہے تو انکار ہی کر دے‘‘ ۔ خواہش کی حکمرانی میں نہیں، اصولوں کی روشنی میں‘ غو رو فکر۔کائنات میں قوانینِ قدرت کی کارفرمائی پہ سوچ بچار‘اسی کو ہم نے کھو دیا ہے۔ اسی کو مغرب نے اختیار کیا۔ نظامِ عدل، قانون کی حکمرانی، علم سے رغبت ، جستجو اور ریاضت۔ اسی لیے وہ بالاتر ہیں، اسی لیے ہم کمزور اور لاچار!ان کے پاس تاریخی تجربے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمارے پاس اللہ کی آخری کتاب اور رحمۃللعالمینؐ۔ بس یہ کہ انہوں نے جستجو کی اور ہم نے پتوار ڈال دیئے۔
درختوں کی طرح جو صرف زمین میں اگ سکتے ہیں، کسی بھی معاشرے کے سماجی اور سیاسی ادارے، اس کی تاریخ، تمدن ‘روایات اور قومی مزاج سے اٹھنے چاہئیں۔ ابھی وہ منزل دور ہے۔ قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ پاکستانیوں کو پاکستانی بننے کے لیے، ایک صدی درکار ہوگی۔ یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہوش سے کام لیں‘ موزوں لوگوں کو ذمہ داریاں سونپیں۔عمران خان کے وزیر کا یہ جملہ قوم کواربوں میں پڑا کہ ڈالر 150 روپے کو جا پہنچے گا۔ وزیراعظم کو خبر ہی نہ ہوئی اور سٹیٹ بینک نے فیصلہ کر دیا۔ پیغام بھیجنے کی بجائے، وزیر خزانہ، وزیراعظم سے خود کیوں نہ ملے؟ منظوری کیوں حاصل نہ کی؟ اداروں کی خود مختاری کا مطلب خود سری تو نہیں۔سلیقہ مندی سے کام لیا جاتاتو ڈالر کی زیادہ سے زیادہ قیمت 130 روپے ہوتی۔
وزیراعظم جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اپوزیشن کا حال بھی یہی ہے۔ مگر وہ تحّمل سے کام لے رہی ہے۔ ابتلااور تجربے نے اسے کچھ سکھادیا۔ اندازِ فکر اس کا یہ لگتا ہے کہ حکومت کو خود اس کے بوجھ تلے ٹوٹنے دیا جائے۔ اجتماعی حیات میں یہ ایک بنیادی کلیہ ہے‘ جنگ اور تصادم میں بالخصوص۔ یہ کہ مقابل غلطی کرے تو مزید غلطیاں کرنے دی جائیں۔ زندگی اپنی خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے۔ حریف کی خامیوں سے فائدہ اٹھانا حکمت کا حصہ ہے ‘جب آپ حق پر ہوں۔
میرا خیال یہ تھا کہ شریف اور زرداری خاندان کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ پلٹ کر آ بھی سکتے ہیں۔ابھی وقت ہے تحریک انصاف کے پاس۔ اس خاک داں میں کوئی مہلت مگر لامحدود نہیں ۔
افراطِ زر اور مہنگائی کا جو طوفان ہے، بے شک وزیراعظم اور ان کے رفقا اس کے ذمہ دار نہیں، یہ ماضی کا ورثہ ہے!ہاں مگر رفوگری، رفوگری کا سلیقہ انہیں ہرگز نہیں۔ذہنی ریاضت سے گریزاں دانا‘ مخلص اور بے تعصب ماہرین کے ساتھ مشورے کی اہمیت سے نابلد‘ عجلت کا وہ شکار ہیں اور عجلت برباد کرتی ہے۔
آفتاب ہر روز طلوع ہوتا ہے۔ سبھی پہ یکساں چمکتا ہے، مگر دانا کی روش اور ہوتی ہے، نادان کی اور۔ نادان مہلت کو نعمت سمجھتا ہے اور آرزو کو اصول۔ دانا نعمت کو بھی مہلت گردانتا اور اصول کو آرزو بناتا ہے۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے کہ تری آرزو بدل جائے
عجیب قوم ہے صاحب، عجیب قوم۔ اقبالؔ ایسے مفکر کو سموچا نگل گئی، لیڈروں کے لیڈر محمد علی جناحؒ کو بھول گئی۔ عصرِ رواں کے اہلِ علم کا کیا ذکر، کتاب سے فیض نہ پایا۔ رحمۃللعالمینؐ سے فیض نہ پایا۔ تاریخ پر غور کرنے کی زحمت ہے اور نہ اپنے عصر پہ۔ عالی مرتبتؐ سے منسوب ہے کہ دانا وہ ہے جو اپنے زمانے کی روش پہچانتا ہو۔ وہ اقبال ؔتھا، مشرق اور مغرب کا شناور۔ وہ محمد علی جناحؒ تھے۔ مٹھی بھر ملّا ان کے مخالف تھے اور مٹھی بھر ترقی پسند۔ وہ جو سوشلسٹ تھے، پھر سیکولر ہوئے اب این جی اوز میں استعمار کی نوکری کرتے اور لبرل کہلاتے ہیں۔ کنفیوژن پھیلانے میں وہ کامیاب رہے۔
حاکم بس حاکم ہوتا ہے‘جج نہیں۔ یہ اصول ہے اور اس سے انحراف کا نتیجہ بربادی۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف عدالت نے فیصلہ صادر کیا تھا۔ امام حسینؓ اور ان کے غلام کی گواہی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کے خلاف عدالت نے فیصلہ دیا تھا حالانکہ جرم کی بو پا کر انہوں نے دیوار پھلانگی تھی۔ احتساب برحق ‘ عمران خان اپنے مخالفین کے باب میں جج کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ عدالت کا کام ہے۔
فکری اور ذہنی توازن کامیابی کی کلید ہے، قائداعظم کی طرح وگرنہ حکمران کھیت رہتے ہیں، بھٹو کی طرح، بے نظیر کی طرح ، نواز شریف کی طرح، فوجی آمروں کی طرح۔ اقوام پر بھی یہی کلیہ نافذ ہوتا ہے۔عربوں، انگریزوں اور ترکوں نے دنیا پہ حکومت کی۔ ان کا ورثہ بھی باقی رہا۔ چنگیز اور تیمور بجھ گئے۔ ظہیر الدین بابر اور سلمان محمد فاتح کی اولاد مدتوں باقی رہی۔ انگریزوں نے رومن، نارمن اور وائی کنگز کی غلامی برداشت کی تھی۔ صدیوں کی اسیری نے آزادی کی قدر و قیمت سکھائی۔ سول اداروں اور تحقیق و جستجو کی اہمیت سکھائی۔ سلطنت سے پسپا انہیں بھی ہونا پڑا۔ دوسری عالمی طاقتوں کے برعکس مگر وہ سلیقہ مندی سے پیچھے ہٹے۔
پرسوں پرلے روز تاجروں اور ڈاکٹروں نے گجرات میں ایف بی آر کے دفتر کا گھیرائو کیے رکھا۔ آٹھ گھنٹے تک محصور رہنے والے ملازمین کیا، اب ان سے ٹیکس وصول فرماسکیں گے؟ایک طرف ٹیکس ادا نہ کرنے کے عادی مالدار لوگ ہیں۔ دوسری طرف وہ ریاست، اپنے کارندوں کے پیچھے ڈٹ کر کھڑے ہونے کے جو قابل نہیں۔ افسر شاہی مددگار نہیں۔ سوار میںسلیقہ نہ ہو تو گھوڑا الف ہو جاتا ہے۔
جوش و جذبہ سے نہیں، جیسا کہ وزیراعظم اصرار کرتے رہتے ہیں، دانائی سے کام لینا ہوگا، یوں جوش و جذبہ بھی مقصود ہے۔ دھاگہ الجھ گیا ہے۔ جلد بازی اور الجھا دے گی۔ معیشت خراب، تعلیمی ادارے برباد، سول سروس اندیشوں میں مبتلا، دنیا دشمن یا بے نیاز۔ پنجاب کے وزیر تعلیم نے بتایا ہے کہ منشیات کی لعنت سکولوں میں داخل ہو چکی۔سول ملٹری تعاون بھی جاتا رہا تو مہلت اور مختصر ہو جائے گی، اڑا اڑا دھم...
فرمایا:قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل اچھے کیے
جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved