تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     13-02-2019

سیاسی تنائو

یہ آج کی بات نہیں، اور نہ ہی موجودہ سیاسی کشیدگی کا تعلق تحریکِ انصاف اور اس کی مخالف سیاسی جماعتوں سے ہے۔ یہ قصہ بہت پرانا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد سے شروع ہونے والا تنائو آج بھی پاکستانی سیاست کی پہچان ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ جمہوری روایات کے کمزور ہونے کی علامت ہے؟ کیا یہ اس بات کا مظہر ہے کہ آئین کی رو سے اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم میں وہ توازن موجود نہیں جس کی توقع اور خواہش سیاسی جماعتوں کو رہی ہے؟ یا اس کشمکش میں ہماری سیاسی تاریخ کے اُن ادوار کا حصہ ہے جب آئین کو رد ی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا، منتخب حکومتوں کا بستر گول، سیاسی جماعتوں کو کمزور اور کئی دھڑوں میں تقسیم کرکے ایک مصنوعی استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی؟
زیرِ نظر مضمون، اور آنے والے مضامین میں ان تمام عوامل کو پرکھنے کی کوشش کی جائے گی‘ جو پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر گہرے اثرات چھوڑنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ناہمواری کا بھی باعث بنے۔ اس وقت صرف تین نکات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ان کی وجہ سے پاکستانی سیاست کی کشتی بھنور سے نکلنے نہیں پا رہی۔ ایک بہت بڑی سیاسی تبدیلی کے آ جانے کے باوجود عام لوگوں میں ہر سطح پر مایوسی طاری ہے۔ عوامی مقامات سے لے کر نجی ملاقاتوں تک، جہاں بھی لوگوںسے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے، وہ ایک ہی سوال اٹھاتے ہیں: کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کر پائے گی؟
اس سوال کے اندر بہت سے سوالات، کئی ایک خواہشات اور بے شمار خدشات پنہاں ہیں۔ ان سے ملک میں پھیلی ہوئی بے چینی اور اضطراب کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے، اور فی الحقیقت ایسا ہی ہے، کہ پاکستان میں جاری سیاسی کھیل میں عوام محض تماشائی ہیں۔ تماشے کا میدان سجانا، اس میدان میں موجود رہنا، تماشے میں اپنا ایک کردار مخصوص رکھنا، پاکستان کے محدود مگر طاقتور سیاسی خاندانوں کا خاصہ رہا ہے۔ اور یہی طرزِ سیاست ان کا مشغلہ ہے۔ انہی خاندانوں، اُن کے کارندوں، گماشتوں اور‘ سیاسی و سماجی اتحادیوں کو ہم حکمران طبقہ کہتے ہیں۔ پہلی بات جو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، وہ اسی حکمران طبقے کا کردار ہے۔ اس طبقے کے لیے جمہوری اور انتخابی عمل میں حصہ لینا ایک مشغلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک میں ایک حکمران طبقہ موجود ہوتا ہے۔ سیاسی اکھاڑے میں رسہ کشی ایک معمول کی بات ہے، اختلاف بھی ہوتا ہے، لیکن اُس کی بنیاد نظریات ہوتے ہیں۔ پالیسیوں پر اختلافِ رائے ہوتا ہے، ملکی مسائل اور اُن کے حل پر مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سب جمہوری سیاست کا حصہ ہے۔ 
لیکن پاکستان میں جمہوری طبقے کا مزاج مختلف ہے۔ یہاں جمہوریت کا سہارا لے کر اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے۔ طاقت کے حصول کے لیے اخلاقی اور قانونی جواز تراشے جاتے ہیں۔ یہ طبقہ فلسفۂ جمہوریت، جمہوری اصول اور جمہوری احتساب کا ادراک نہیں رکھتا۔ جو ان معروضات کا ادراک رکھتے ہیں، وہ بھی خود کو ان کا پابند رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ طاقت کے حصول کے لیے جمہوری عمل، جو اصل راستہ ہے، سے زیادہ اپنی سماجی حیثیت، معاشی طاقت اور خاندانی اثرورسوخ پر تکیہ کرتا ہے۔ اُن کے نزدیک اپنی حیثیت اور سیاسی مقام کو قائم رکھنے کا تقاضا ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ اقتدار میں، یا اس کے قریب تر رہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ بتاتا ہے کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا، دھڑے بندی کرنا اور ذاتی مفاد کی بنیاد پر سیاسی اتحاد بنانا ہمارے حکمران طبقے کا وتیرہ رہا ہے۔ حکومتی اور ریاستی وسائل سے استفادہ اور احتساب سے پناہ صرف حکومتی دھڑے میں شامل ہونے سے ہی ممکن ہے۔ 
مختلف ادوار میں سیاست اور سیاسی خاندان ریاستی وسائل کے بل بوتے پر پروان چڑھتے رہے ہیں۔ اس وقت دو بڑے سیاسی خاندان موروثی سیاست کا محور ہیں۔ ان کی سیاسی طاقت ریاستی اداروںکو کمزور کرکے ناجائز دولت سمیٹنے، بدعنوانی اور اقربا پروری کو ہنر کی طرح استعمال کرنے کی بدولت ہے۔ 
تحریکِ انصاف، جو ایک نئی طاقت کے طور پر پاکستان کی سیاست میں ابھری ہے، خاندانی سیاست کرنے والے روایتی حکمران طبقے سے مکمل طور پر پاک نہیں۔ جب دونوں روایتی سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں، اور اُن کے اقتدار کا سورج ڈھلنے لگا تو ہوا کا رخ پہچاننے والے ان خاندانوں میں سے کچھ نے تحریکِ انصاف کا رخ بھی کیا۔ باایں ہمہ، تحریکِ انصاف پاکستان کی ایک نئی سیاسی حقیقت ہے۔ اس کے پیچھے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران وجود میں آنے والی کئی سماجی تبدیلیاں ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دونوں روایتی سیاسی جماعتوں اور اُن کے چھوٹے اتحادی دھڑوں کے خلاف تحریکِ انصاف کے کرپشن کے بیانیے کو عوام، بالخصوص نوجوانوں میں بہت پذیرائی ملی۔ 
اس وقت ایک طرف تحریکِ انصاف کی حکومت ہے، تو دوسری طرف حزبِ اختلاف کی وہ تمام روایتی سیاسی جماعتیں ہیں‘ جو گزشتہ چار، پانچ دہائیوں سے کسی نہ کسی طور اقتدار میں شریک رہی ہیں، یا اُنھوں نے مقتدر سیاسی اتحادیوں کا حصہ بن کر اقتدار کے دسترخوان کے مزے لوٹے ہیں۔ آج قومی اسمبلی کا ماحول، میڈیا، عوامی جلسے ایک سیاسی جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ غالب خیال ہے کہ حزبِ اختلاف میں شامل جماعتیں تحریکِ انصاف اور اس کے کرشماتی رہنما، عمران خان کی کامیابی کو اپنی روایتی سیاست کی موت تصور کرتی ہیں؛ چنانچہ یہ کشمکش نہ بلا وجہ ہے اور نہ غیر متوقع۔ 
اگر تحریکِ انصاف اپنے اصلاحاتی منشور پر عمل کرتی رہی، تو پاکستان میں جلد ہی مثبت تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ملک کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کیلئے اصلاحات کا نفاذ اور مشکل فیصلے ناگزیر ہیں۔ یقینا عوام کو ابتدا میں ان مشکل فیصلوں کی تمازت برداشت کرنا پڑے گی۔ لیکن اب پاکستان پرانی سیاست، سیاسی مصلحت کوشی یا مقبول عام سیاست کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ تحریکِ انصاف نے اُسی سیاسی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے جو عمران خان کے کردار اور اخلاقی فلسفے کا ایک جزو ہے۔ وہ پختہ یقین، سیاسی عزم اور عملیت پسندی سے پاکستان کا قبلہ درست کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کیا وہ اس کوشش میں کامیاب ہو پائیں گے؟ یہ کامیابی اس بات کا تعین کرے گی کہ کیا مورثی سیاست پر یقین رکھنے والی روایتی سیاسی جماعتیں اپنا فطری سیاسی سفر پورا کر چکی ہیں، یا اُن میں اب بھی کچھ سکت باقی ہے؟ اور کیا وہ آئندہ موجودہ حکمران جماعت کے لیے کوئی چیلنج بن سکتی ہیں؟
روایتی حکمران طبقے کے جاگیردارانہ مزاج کے پیشِ نظر کبھی بھی جمہوری استحکام نہیں رہا۔ نہ ہی اُسے عوام کے مسائل کے حل یا ملکی ترقی میں کوئی دلچسپی رہی ہے۔ اُن کا پہلے بھی یہی مقصد تھا، اور اب بھی ہے کہ اُن کے اقتدار کا سورج غروب نہ ہو، اور اُن کا ہر سیاسی حریف منہ کی کھائے۔ موجودہ سیاسی تنائو کے پیچھے مفادات سے بوجھل سوچ اور ذاتی مفاد کی کارفرمائی ہے۔ 
اس تنائو کا باعث بننے والی دوسری بڑی وجہ جمہوری اداروں کا کمزور ہونا ہے۔ دنیائے جمہوریت میں سیاست، سیاسی مزاج اور طرزِ حکمرانی کو ادارے متاثر کرتے ہیں، نہ کہ شخصیات۔ افراد چاہے سیاست کے کتنے ہی درخشندہ ستارے کیوں نہ ہوں، وہ اداروں، آئین اور قانون کی گرفت سے کبھی ماورا نہیں ہوتے۔ ہمارے سیاسی بگاڑ کی وجہ وہ قد آور سیاسی شخصیات ہیں جو خاندانی سیاست کا وزن رکھتی ہیں، یا اُنہیں ماضی کی آمریتوں نے اپنا سیاسی حصار بنانے کیلئے مہروں کے طور پر استعمال کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شخصیات اداروں پر غالب آتی گئیں۔
یہاں میں صرف تین اداروں کی بات کرنا چاہوں گا: پارلیمان، سیاسی جماعتیں اور انتخابات۔ پارلیمان کے اندر اندازِ گفتگو کیا ہوگا؟ کیا قانون سازی ہوگی یا ہلڑبازی؟ اس کا فیصلہ چند سیاسی قائدین کرتے ہیں۔ ہمارے نمائندوں کا کام صرف اُن کی خواہشات کی غلامی رہ گیا ہے۔ وہ اپنے ضمیر اور عوامی نمائندگی کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کی جمہوری سیاست اور ادارے عشروں سے اُن بھاری بھرکم سیاسی رہنمائوں کی گرفت میں ہیں‘ جو اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ایک مخصوص نیٹ ورک قائم کرکے اداروں کو کمزور کرتے ہیں تاکہ وہ احتساب سے بالاتر رہیں۔ اگر عمران خان یا کوئی اور اُن کی گرفت ڈھیلی کرنے کی کوشش کرے گا کہ کھلا، بے لاگ اور بلاتفریق احتساب ہو تو طوفان برپا ہوگا۔ 
(باقی صفحہ 11 پر)
آخری بات یہ ہے کہ عوام میں جمہوری سوچ اور سماجی استعداد ارتقا پذیر ضرور ہے‘ مگر پختگی کی وہ علامات جو معنی خیز جمہوری عمل کے لیے ضروری ہیں‘ ابھی کمزور ہیں۔ اس لیے تو موروثی سیاست دان اور ان کے کارندے عوامی احتساب کی بات کرتے ہیں۔ جنہیں سیاست کی ابجد سے بھی واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ احتساب قانون کی حکمرانی سے ہوتا ہے۔ کرپشن یا دیگر الزامات کا فیصلہ عدالتوں میں ہوتا ہے، ثبوت تفتیشی ادارے مہیا کرتے ہیں، عدالتیں آزاد ہوتی ہیں اور قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ اس کے برعکس سیاسی مکالمہ میں یہ رہا ہے کہ چونکہ ہمیں عوام نے ووٹ ڈالا ہے، ہم منتخب ہو کر آئے ہیں اس طرح ہمارا احتساب تو ہو چکا۔ عوام سے پوچھو کہ انہوں نے ہمیں ووٹ کیوں دیا ہے۔ یہ مکالمہ فریب ہے۔ یہ دھوکا اس لیے دیا جاتا ہے کہ عوام میں برادری، قبیلہ اور غالب سیاسی جماعتوں کا اثر بہت گہرا ہے۔ کسی کو ووٹ کیوں دیا جاتا ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہوتی ہیں۔ یہ کبھی نہیں کہ وہ کسی کی بدعنوانی یا کرپشن کا فیصلہ ہو۔
پاکستان میں موجودہ سیاسی کشیدگی کے کئی محرکات میں سے صرف تین کا ذکر کیا ہے۔ حکمران طبقے کا سیاسی مزاج اور اقتدار میں رہنے کی ضرورت، کمزور اور پامال ادارے اور عوامی شعور میں مقامی قبائلی روایات اور سیاسی خاندانوں کا گہرا اثر۔ اسی لیے تو سیاست ایک تماشا ہے۔ اس میں کردار ہیں، تماشائی ہیں اور اقتدار کی مسلسل جنگ کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved