تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-04-2013

جیسی روح ویسے فرشتے

ببول (کیکر) پرگلاب کھلنے کی آرزو کی جاسکتی ہے؟ کی تو جاسکتی ہے مگر اِسے نری حماقت سے تعبیر کیا جائے گا۔ کچھ نہ کرنے پر بھی کِسی صِلے کی تمنا ممکن ہے؟ کِسی چیز کی تمنا کرنے میں کون سا کچھ خرچ ہوتا ہے! سوال تو نتیجے کا ہے کہ ایسی تمنا رنگ کیا لائے گی۔ ہم سب کچھ جانتے، بوجھتے انجان بنے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔مشکل حالات بلی کی صورت ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا۔ پھر خطرہ ہم سے بہت کچھ اور ہم میں سے بہتوں کو لے کر ٹلتا ہے۔ پوری قوم اِس نفسیاتی خلجان میں مبتلا ہے اور جن کے ہاتھ میں نام نہاد قیادت ہے وہ عوام کی نفسیاتی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اہل وطن کی خواہشات، تمناؤں، آرزوؤں اور امنگوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ امکانات کی پوری کائنات اِن میں سمائی ہوئی ہے۔ جب پاکستانی کچھ سوچتے ہیں تو منطقی حدود کا خیال نہیں رکھتے اور کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں! ع نکلے تھے کہاں جانے کے لیے، پہنچے ہیں کہاں معلوم نہیں! تعلیم کے لیے برطانیہ اور آسٹریلیا جانے کے خواب پلکوں پر سجاتے ہیں مگر جاب امریکا یا متحدہ عرب امارات میں چاہتے ہیں! پیدا چاہے چیچوں کی ملیاں یا خیرپور ناتھن شاہ میں ہوئے ہوں، کینیڈا میں مستقل رہائش کے آرزو مند رہتے ہیں! وہ کون سی چیز ہے جو اہلِ پاکستان کی خواہشات کے دائرے میں شامل ہونے سے رہ گئی ہے؟ اچھی خاصی، اُردو جیسی زبان کے ہوتے ہوئے بیشتر پاکستانی انگریزی بولنے کی تمنا میں مَرے جاتے ہیں۔ کھانے پینے کی بات چلے تو سلسلۂ کلام اطالوی پیزا، چینی چاول اور روسی سلاد تک جا پہنچتا ہے! اپنی ڈِشوں میں کچھ بھی پسند نہیں۔ کباب بھی کھانے ہیں تو پاکستان کے نہیں، شام کے! الیکٹرانکس جاپانی ہونی چاہئیں اور جاپانی میوزک پلیئر پر گانے انڈین ہوں تو کیا بات ہے۔ فلمیں ہوں تو انگلش ہوں، ورنہ نہ ہوں۔ اور جب زندگی کی کشاکش سے دِل گھبرا جائے، ماحول کی یکسانیت شدید بیزاری کا احساس پیدا کرنے لگے تو تعطیلات یورپ کے کِسی مُلک، بالخصوص سوئٹزر لینڈ میں گزاری جانی چاہئیں۔ بیشتر پاکستانی برطانیہ یا آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنے کی تمنا پوری ہونے پر امریکا یا متحدہ عرب امارات میں جاب کی خواہش کو بھی تعبیر سے ہمکنار کرلیں اور عمر کے آخری ایام کینیڈا کی پُرسکون فضاؤں میں گزارنے میں بھی کامیاب ہو جائیں توعالم نزع کی گھڑیاں مکۂ مکرمہ میں گزارنا چاہتے ہیں یعنی چاہتے یہ ہیں کہ دَم اللہ کے شہر میں نکلے۔ اور تدفین؟ تدفین کے لیے مدینہ سے بڑھ کر کوئی محبوب مقام نہیں۔ اِس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے کہ جان خانۂ کعبہ کی سرزمین پر جانِ آفریں کے سُپرد کی جائے اور مِٹّی مدینے کی نصیب ہو؟ مگر صاحب! اِتنی سعادت پانے کے لیے زندگی بھی تو ایسی ہو جو اللہ کے دین کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ تعلیم، ملازمت، تعطیلات، ریٹائرمنٹ کی زندگی، کھانے پینے کے طور طریقوں، موت اور تدفین … غرض ہر معاملے میں پاکستانی مکمل ’’عالمگیریت‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ پوری دُنیا کو اپنانے کا ایسا جامع تصور کِسی اور قوم میں خال خال ہی ملے گا۔ ہم ’’عالمگیریت‘‘ کے اِس قدر دِل دادہ ہوچکے ہیں کہ اب اپنی سرزمین کِسی کام کی دِکھائی نہیں دیتی۔ آپ سوچیں گے ہم پاکستانی کچھ ایسا بھی چاہتے ہیں جو خالص پاکستانی ہو؟ یقیناً‘ ایک معاملہ ایسا ہے جس میں ہماری سوچ سراسر، یکسر پاکستانی ہے۔ ہم اور کچھ چاہیں نہ چاہیں، اِتنا ضرور چاہتے ہیں کہ جو ہماری قیادت کا فریضہ انجام دیں وہ خالص پاکستانی ہونے چاہئیں! ع اِس سادگی پہ کون نہ مَر جائے اے خُدا جب سبھی کچھ ہم دنیا بھر سے لینا چاہتے ہیں تو پھر قائدین اپنی سرزمین کے کیوں؟ یہ تو سراسر بد دیانتی، بلکہ اُس سے بھی ایک قدم آگے ہے! اپنی سرزمین سے ہماری بیزاری ہی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ قائدین بھی باہر سے آتے ہیں یعنی بھیجے جاتے ہیں۔ جو قائدین اپنے ہاں ہوا کرتے تھے وہ جلا وطنی اختیار کرکے دُور سے ڈور ہلاتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں! وہ جانتے ہیں کہ قوم کو وہی ڈھول سہانے لگتے ہیں، جو دور بجے رہے ہوں۔ دس برس پہلے کی بات ہے۔ ہم اپنے دفتر کے نزدیک واقع فلنگ اسٹیشن کے سٹور میں داخل ہوئے۔ ارادہ ریفریشمنٹ کے چند آئٹم خریدنے کا تھا۔ بھرے شیلف دیکھے تو سوچا دیکھیں دُنیا میں کیا کیا ہے۔ ریک پر چھوٹی بوتلیں دَھری تھیں۔ ان بوتلوں میں کنچوں کے حجم کی سفید گولیاں سی پڑی تھیں۔ غور سے دیکھا اور ٹیگ پڑھا تو معلوم ہوا کہ سپین کی پیاز ہے جو شفاف سِرکے میں ڈوبی ہوئی ہے! پیاز اور سِرکے کا مجموعی وزن 90 گرام تھا اور قیمت کی مد میں 75 روپے درج تھے! ذرا یاد کیجیے، یہ تذکرہ دس سال پہلے کا ہے۔ اِس قوم کی عیاشی ملاحظہ فرمائیے کہ سپین کی سِرکے میں ڈوبی ہوئی پیاز کھائی جارہی ہے اور وہ بھی تقریباً سوا آٹھ سو روپے فی کلو کے نرخ پر! اگر وہ آئٹم آج بھی درآمد کیا جارہا ہوگا تو 90 گرام کی بوتل کی قیمت ڈیڑھ پونے دو سو روپے سے کیا کم ہوگی۔ اگر سپین سے زیتون یا اپنی سرزمین پر نہ اُگنے والی کوئی اور چیز منگوائی جائے تو کچھ حرج نہیں مگر کیا اب گوروں کی پیاز بھی خشک میوے کے نرخ پر خرید کر کھائی جائے گی؟ ایک طرف تو وطن سے محبت کے دعوے اور اِس کے لیے سب کچھ نچھاور کردینے کا عزم اور دوسری طرف یہ عالم کہ اپنی زمین پر اُگنے والی نعمتوں سے مستفید ہونے کے بجائے دور اُفتادہ ممالک بلکہ براعظم سے پھل منگواکر کھانا۔ کراچی کی سڑکوں پر چین کی بے لذت ناشپاتی اور جنوبی امریکا کے مُلک چلی سے درآمد شدہ سیب بھی ملتے ہیں۔ اگر یہ سیب لذید بھی ہوں تو کیا ہے، نرخ تو 500 روپے فی کلو تک ہے! ویسے تو خیر ہمیں پھل اور خشک میوہ جات کہیں سے منگوانے کی ضرورت نہیں اور اگر ضرورت محسوس بھی ہو تو ایسی چیزیں کیوں نہ منگوائی جائیں جو ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوتیں؟ جو کچھ اپنے ہاں پیدا ہوتا ہے وہی، کمتر معیار کے ساتھ، درآمد کرنے پر زر مبادلہ کیوں ضائع کیا جائے؟ فکر اور عمل میں ہم آہنگی نہیں ہوگی تو بھیانک نتائج ہی برآمد ہوتے رہیں گے۔ اگر ہم وطن سے محبت کرنے والے رہبر چاہتے ہیں تو پہلے وطن سے ہمیں خود محبت کرنی ہوگی اور عمل سے اِس محبت کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔ اِس سرزمین پر جو کچھ بھی اُگتا ہے اُس کے لیے ہمارے دِل میں چاہت ہونا چاہیے۔ پیاز کوئی ایسی نعمت نہیں جسے سپین سے منگوانے کا اہتمام کیا جائے۔ قومی دولت کو یوں ضائع کرنا کِسی بھی اعتبار سے دانش کی دلیل نہیں۔ ہمیں وطن سے حقیقی محبت نہیں ہوگی تو قائدین بھی ویسے ہی میسر ہوتے رہیں گے۔ جیسی روح ویسے فرشتے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنی روح کو نکھاریں تاکہ فرشتے بھی نکھرے ہوئے ملیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved