مصر نے اپنی ڈگمگاتی معیشت کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنایا‘ اگرچہ اسے کئی اندرونی معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے‘ مسلسل کمزوریوں میں قرض کی بلند سطح‘ بڑی تنخواہ کے بل‘ سبسڈی میں حکومتی جدوجہد‘ بیروزگاری اور کمزور زراعت کے شعبے سرفہرست ہیں۔ ایک کمزور تعلیمی نظام ملک کے مستقبل کے لئے مزدورجیسی افرادی قوت کو تربیت دینے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مصری کرنسی دیگر ریاستوں کی نسبت کمزور ہے۔عوام کی قوت خریدپہلے جیسی نہیں رہی اوراس میں مزید تنزلی دیکھنے میں آئی ہے لیکن عالمی اقتصادی سطح پر مصر ابھر تی ہوئی معیشتوں میں شامل ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے عزم کی وجہ سے قاہرہ نے ایک دہائی میں ترقی کی بلند ترین سطح حاصل کی ہے۔ 2018ء سے افریقہ کے کسی بھی ملک کی نسبت براہ راست سب سے زیادہ سرمایہ کاری اسی ملک میں ہوئی۔ سیاحوںکی بڑھتی ہوئی تعداد نے مصری معیشت کو سنبھالا دیا جس کی وجہ سے یہ ملک سرمایہ کاری کرنے کے لیے نہایت موزوں ہو گیا۔ مصر صرف ثقافتی ہی نہیں‘ قومی تاریخ میں بیک وقت ماضی اور حال دونوں سے استفادہ کررہاہے۔
مصر خطے میں زیادہ متحر ک کردار ادا کر رہاہے۔ دریائے نیل اور ڈیلٹا کی بنیادی حفاظت کی جا رہی ہے۔گزشتہ سال کے دوران مصر نے اپنے جنوبی پڑوسیوں ‘ سوڈان اور ایتھوپیا کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی ہے۔جنہوں نے '' گرینڈ ایتھوپین رینا سینس ڈیم‘‘ Grand Ethiopian Renaissance Damنے دریائے نیل کے گرد محاصرہ کیا ہوا تھا۔ڈیم مصریوں کو ضروریات زندگی کے پیش نظر آبپاشی اور پینے کے لئے پانی فراہم کرتا ہے۔اس میں عملی نقطہ نظر کو فروغ دیا گیا۔تاریخی طور پر مصر زیرزمین ملک ہونے کے باوجود دریا پر غالب کھلاڑی ہے۔حال ہی میں اس کے پڑوسیوں نے مصر کے خلاف پانی کے بہاؤ کو لے کر دریائے نیل سے فائدہ حاصل کیا ۔سوڈان کے معروف رہنما عمر البشیراس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ مصر نے بحیرہ احمر کے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرنے کے لئے ان کی کافی حد تک مدد کی۔ اگرچہ دونوں فریقین کے درمیان نیلے پانی کے آلودہ ہونے پر کشیدگی رہتی ہے۔
مصر کی اگلی ترجیح عسکریت پسندوںکے خلاف دفاع ہے جو اکثراوقات دریائے نیل کے دونوں اطراف واقع ‘صحراسے وسیع پیمانے پر برآمد ہوتے ہیں۔اس کے مغربی پڑوسی خصوصاً لیبیاعسکریت پسندی کے لئے ایک ہاٹ سپاٹ رہا ہے۔کئی سالوں تک مصر نے لیبیا کے نیشنل آرمی کے ایک رہنما کو فوجی اور سفارتی مدد فراہم کی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر خاموشی سے کام کیا۔ مصری فضائی قوت نے بھی مشرقی لیبیا میں بمباری کی ہے‘ کیونکہ یہ لیبیا اور مصری سرحدپر غالب ہے‘ آخر میں مصری امارات کے اتحادیوں کو سختی سے روک دیاگیا۔ لیبیا میں مصر کے ملوث ہونے سے حالات پر قابو پانے میں عالمی قوتیں مخالف رہی ہیں۔
مصری رہنماؤں نے غزہ کی پٹی پر حماس سے فلسطینیوں کے ساتھ مصروفیت کے بعد سینی جزائر کے جمگھٹے میں سلامتی کو فروغ دینے کے لئے پرجوش اندازمیں دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔مصر نے فلسطینی جماعتوں اوردیگرجنگجوؤں کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں اسرائیل‘ امریکہ اور عرب ریاستوں کی مدد کرنے والا بنیادی کردار ادا کیاتھا اوراس عمل کودوبارہ بھی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیاگیا۔ دوسری طرف حماس اور فتح کے درمیان مصالحت کا معاملہ اب ناکام ہو رہا ہے۔ مصرکم از کم غزہ کی پٹی پر سلامتی کے خطرے کو کم کرنے کی امید رکھتا ہے۔بحیرہ روم کی طاقت کے طور پر خود کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش میں مصر ‘مشرقی بحیرہ روم‘سمندر میں تیل اور گیس کی دریافت سے اہم کھلاڑی بن چکاہے۔پاکستان اس حوالے سے کیا کر رہاہے ؟یہ سوال ابھی باقی ہے۔ حالیہ دریافتوں نے قاہرہ کے ساتھ قازقستان میں بھی زیادہ ہائڈروکاربن گیس تلاش کرنے کی امیدیں ابھاری ہیں۔زیادہ سے زیادہ توانائی کی سلامتی کے لئے دلچسپی اور اس کی مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بہتری لاتے ہوئے مصر‘ یونان اور قبرص کے ساتھ خود کو قریب کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ دیگرجغرافیائی قافلوں کے ہم سفر ہمسائیہ ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھائے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اور اٹلی کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں بہتری آ رہی ہے۔ایسا صرف اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ مصری تیل کے نرخ اور دیگر تنازعات پر سب کواعتمادمیں رکھتے ہوئے مصر نے اپنی حیثیت کوواضح کیا ہے ۔ اس سرگرمی کے اثر و رسوخ کے اثرات السیسی کی صدارت کے تحت بڑھ گئے ہیں۔دیگر علاقائی طاقتوں‘ جیسے سعودی عرب‘ ترکی‘ ایران اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ متعدد خطرات پیدا ہورہے ہیں۔ قاہرہ کا یہ خیال ہے کہ شام‘ عراق اور عرب جزائر کے تنازعات ان کے معاملات میں سب سے بڑی خرابی کی وجہ ہیںاور وہ اس کشیدگی کو کم کرنے کا خواہاں ہے ۔
مصرکو اہم سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا ہے۔کچھ اس کی سرحدوں سے ملحق ہیں اور کچھ باہر۔ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ پیچیدگیوں کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔خصوصاً وہ جو اس کی ترجیحات کا حصہ نہیں تھیں۔ روس مصر کے قریبی تعلقات سے پہلے ہی مختلف معاملات پر اعتراض اٹھایاجاتا رہاہے۔ امریکہ میں کانگرس نے خاص طور پر قاہرہ کے روسی ہتھیار کی خریداری پر مخالفت کی ہے۔چین کے ساتھ مصری اقتصادی تعاون میں اضافہ ‘واشنگٹن کے لئے درد سر بن جائے گا‘ خاص طور پر اگر مصر اپنی ٹیکنالوجی کی خریداری میں اضافہ کرے گا۔
نوٹ:13فروری کو بارش کی وجہ سے میرے کاغذات درہم برہم ہونے کے سبب پہلی قسط میں کچھ خرابیاں ہوگئیں‘ جس پر معذرت خواہ ہوں‘پہلی قسط پڑھ کر تسلسل بحال کیا جا رہا ہے۔معذرت کے ساتھ نذیر ناجی۔