تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-02-2019

مگر

ایک بار پھر واضح ہوا کہ اخلاقی اعتبارے سے ہم دلدل میں پڑے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کو ایک کارگر نظامِ انصاف کی ضرورت ہے۔ اتنی شدید ضرورت، جتنی زندگی کو آکسیجن کی ہوتی ہے۔
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ولکم فی القصاصِ حیاۃ یا اولی الالباب۔ تمہیں ادراک ہوناچاہیے اے اہل دانش کہ زندگی قصاص میں رکھی گئی ہے۔ جتنا جرم اتنی سزا ۔ 
ممکن ہے یہ ویسا ہی سیدھا سادہ معاملہ ہو، جیسا کہ نون لیگ نے تاثر دیا۔ شہباز شریف کی ضمانت نے بہرحال بہت سے سوالات اٹھا دیئے ۔ عدالت کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے‘ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔ اس لئے کہ ہر چندیہ حتمی فیصلہ نہیں مگر اس کے سیاسی مضمرات ہیں۔ بہت ہی گہرے مضمرات۔
اتنے کہ بساط الٹ سکتی ہے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ جمعہ کی نماز وہ جاتی امرا میں پڑھیں گے۔ اگر یہ محض امید کا اظہار ہے، اگر یہ محض اپنے خاندان اور کارکنوں کا حوصلہ بلند کرنے کی کوشش ہے تو الگ بات۔لیکن اگر کسی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے؟
قانون کا تقاضا یہ ہے کہ عدالت کی نیت سے بحث نہ کی جائے۔ مہذب معاشروں میں یہ ایک مقدس روایت ہے۔ ہم بھی قانون کی بالاتری سے بہرہ ور قوتوں کی سی خیر و برکت کے آرزو مند ہیں تو اس روایت کی پاسداری کرنی چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو انارکی پھوٹ پڑے گی۔ قانون کا اکرام مسلم برصغیر کا مزاج نہیں۔ ریاست کی رٹ کمزور ہے۔ ایسے میں خدانخواستہ اگر یہ رسم بھی چل نکلی تو باقی ماندہ امن بھی جاتا رہے گا۔ فساد پھیل جائے گا، جس سے بدتر کوئی چیز ہوتی ہی نہیں۔ 1712ء سے 1857ء تک مرہٹوں اور سکھوں کی پورش میں یہ خطۂ ارض انارکی سے دو چار رہا۔ایسی ذلت اور بے بسی کہ امن کے لیے خلق نے غلامی قبول کرلی۔ جن لوگوں نے سنجیدگی سے اس دور کا مطالعہ کیا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے میں کردار کی کمزوری بڑھانے میں، اس عہد کا دخل ہے؛ با ایں ہمہ عدالت کے حسنِ نیت کو تسلیم کر کے، حدود و قیود میں رہتے ہوئے، اختلاف رائے جرم ہے نہ جسارت۔
اہم بات وہی ہے کہ عدالت نے ضمانت کی التجا قبول کی ہے، آشیانہ ہائوسنگ اور رمضان شوگر ملز پہ فیصلہ صادر نہیں کیا۔ جہاں تک'' آشیانہ ‘‘کا تعلق ہے، دلیل یہ ہے کہ روپے کا لین دین ہوا ہی نہیں۔ اس لیے جرم سرزد ہونے کا کیا سوال؟ جی ہاں، لین دین نہ ہوا، لیکن اربوں کی اراضی کا معاملہ ہے۔ 61000 درخواست گزاروں نے خون پسینے کی کمائی حکومت کے حوالے کی۔ بے بس و لاچار‘ اپنے تاریک گھروندوں میں وہ آنسو بہا رہے ہیں۔ ان کی داد رسی کون کرے گا؟ جی ہاں! خاندان کے خاندان تباہ ہو گئے۔مدتوں سے ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ نہ جانے کب تک رہیں گے ۔زبان ِ حال سے وہ یہ کہتے ہیں کہ ع
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
زخم ہی زخم ہیں‘ اندما ل نہیں‘ مرہم کوئی نہیںع
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
اول تو تحقیق ہونی چاہیے کہ رمضان شوگر ملز کے لیے تعمیر کئے گئے نالے کے پہلو میں کتنی آبادیاںہیں؟ ثانیاً یہ دلیل اگرمان لی جائے تو خزانے کی تباہی کا راستہ نہ کھل جائے گا؟ جاتی امرا، بلاول ہائوس اور بنی گالا کی طرف جانے والی سڑکیں اگر تین گنا چوڑی کر دی جائیں تو لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ ایسا کرنا کیا قانون کی روح کے خلاف نہ ہوگا؟
مذکورہ مقدمے سے قطعِ نظر، دو عشروں سے سوال زیرِ بحث یہ ہے کہ راستے کی آبادیاں محروم رہیں ‘ جاتی امرا کو گیس مل گئی۔جیسی بہترین سڑک تعمیر کی جا سکتی تھی تعمیر کی گئی۔پھر ایک اور شاہراہ نکالی گئی۔ ان سڑکوں سے لاکھوں نے فیض پایا۔
یوں تو ازل سے یہ راز آدمی کو معلوم تھا مگر بابائے معاشیات آدم سمتھ نے ایک اصول کے طور پر مدّون کیا۔ یہ کہ وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں؛ چنانچہ اخراجات میں ترجیحات کو ملحوظ رکھنا اہم ہوتا ہے۔
اوّل خوراک کہ آدمی اس کے بغیر جی نہیں سکتا، ثانیاً لباس ‘ورنہ موسم مار ڈالیں، ثالثاً چھت اس لیے کہ خاندان مداخلت سے محفوظ رہے۔ بے شمار چیزوں کی آدم زاد کو ضرورت ہوتی ہے۔ پھر خواہشات کی کوئی حد ہی نہیں۔ ایک کے بعد ایک۔ یہ کیا کہ خزانہ جنہیں امانت کے طور پہ سونپا گیا، اپنی مرضی و منشا سے وہ خرچ کر ڈالیں۔ شاعر نے کہا تھاع
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری 
ملوکیت ہوگی یہ ملوکیت‘ جمہوریت نہیں۔باقی ماندہ قرونِ وسطیٰ کی رعایا۔ کھلی چھٹی دے دی جائے تو معاشرے کی اخلاقی ردا باقی رہے گی اور نہ علمی طور پہ فروغ پا سکے گا۔ خود حکمران کے بھی یہ حق میں نہیں۔ اس لیے کہ مادر پدر آزادی حیوان بناتی ہے۔
عمر فاروقِ اعظمؓ کے کرتے پرسوال کیا گیا تو محض امانت و دیانت کا اصول اجاگر نہ ہوا۔ یہ بھی کہ خدانخواستہ خلاف ورزی ہوئی تو امام اور خلیفہ نے من مانی کا ارتکاب کیا۔ معافی خطا کی ہوتی ہے، خرمستی کی نہیں۔
عدالت سے حسنِ ظن کا جواز ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس جواز کو ایک اور زاویے سے بھی نمایاں کیا۔ ممکن ہے کہ تفتیش کاروں نے عرق ریزی سے کام نہ لیا ہو۔ یہی اس معاشرے کا چلن ہے۔ تفتیش کرنے والوں سے ملزم تعاون کی ''درخواست‘‘ بھی کیا کرتے ہیں۔ ایسی التجائیں قبول بھی کر لی جاتی ہیں۔
عدالت میں موجود خبر نگاروں کا تاثر ہے کہ نیب کے وکیل نے چستی اور حاضر دماغی کا مظاہرہ نہ کیا۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اس لیے انسانی ذہن تعصبات سے پاک نہیں ہوتا، مکمل طور پر تو کبھی نہیں۔ اپنی مرضی کے نتائج اخذ کرنے کی آمادگی ہر ایک میں ہوتی ہے، کسی میں کم‘ کسی میں زیادہ۔ جائزہ تو بہر حال لینا پڑے گا۔ اس لیے کہ نیب کی کارکردگی مثالی کبھی نہیں تھی۔ کسی دوسرے ادارے سے نہیں تو غیر معمولی امید نیب سے کیوں وابستہ کی جا ئے۔
امتیازِ بندہ و آقا کا یہ سماج ہے۔ تہہ در تہہ سرپرستی کا۔ 1947ء میں بابائے قوم نے کہا تھا کہ چور بازاری اور سفارش بڑی لعنتیں ہیں۔ بیتے ہوئے 72 برسوں میں، معاشرہ مسلسل زوال کا شکار تھا۔ چور بازاری اور سفارش کیا، رفتہ رفتہ رشوت معمول ہو گئی۔ 1988ء کے بعد حکمرانوں کی اکثریت کرپٹ تھی۔ کرپٹ ہی نہیں، لوٹ مار میں بے باک۔ نون لیگ کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف پاک باز ہیں، حتیٰ کہ نواز شریف بھی‘ شریف خاندان کا ہر فرزند‘ ہر دختر۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ فرمان یاد آتا ہے: جسے حیا نہیں، وہ اپنی مرضی کرے۔
1989ء میں کئے جانے والے گیلپ سروے کے مطابق، پاکستانی عوام بے نظیر بھٹو، شریف خاندان اور چوہدریوں کو یکساں بدعنوان سمجھتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ انہیں ایمان دار سمجھنے والوں کا تناسب بھی وہی ہے۔ پرلے درجے کے سادہ لوح، ان سے فیض پانے والے یا تعصبات کے قیدی۔ ایران یا چین ایسے ممالک کا تو ذکر ہی کیا کہ ایسے لوگ کہانی ہو جاتے۔ قانون کی بالاتری کے کسی بھی معاشرے میں یہ لوگ مدتوں پہلے سزا یاب ہو چکے ہوتے۔
اخلاقی طور پہ ہم ایک کمزور قوم ہیں۔ اپنے تاریخی تجربات کی بدولت ہمارے لاشعور میں گہرا ثبت ہے کہ بارسوخ کو قانون سے انحراف کا حق ہوتا ہے۔ عمران خان نے ہر فردوس عاشق اعوان کو قبول کر لیا۔ جہانگیر ترین کیلئے جواز تراش لیے‘ فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال کیلئے بھی۔انہوں نے اور ان کے سرپرستوں نے بھی۔
عدالت کو شواہد پہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ثبوت پیش نہ کیے جائیں تو وہ کیا کرے۔ ہر طرف، ہر طرح کی چہ مگوئیاں ہیں... اور بعض بہت ہی خطرناک۔ 
ایک بار پھر واضح ہوا کہ اخلاقی اعتبارے سے ہم دلدل میں پڑے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کو ایک کارگر نظامِ انصاف کی ضرورت ہے۔ اتنی شدید ضرورت، جتنی زندگی کو آکسیجن کی ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved