تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-04-2013

الیکشن اور مارشل لا

2013ء کا الیکشن 2008ء سے مختلف ہے۔ تب تین کروڑ ووٹ جعلی تھے، جنہیں خارج کر دیا گیا ہے۔ چار کروڑ نئے ووٹ اس مرتبہ در ج ہوئے ہیں ۔ ساڑھے آٹھ کروڑ میں سے47فیصد ووٹر 18سے 35برس کے نوجوان ہیں ۔ پچھلے الیکشن میں قاف لیگ نامقبول تھی ؛چنانچہ ناکام رہی۔پیپلزپارٹی دو ہاتھ آگے رہی ۔ خارجہ پالیسی تو وہی رہی بلکہ بدتر لیکن معیشت اور زیادہ اجڑ گئی ۔ معاشی ترقی کی رفتار تین فیصد اور توانائی کا بدترین بحران۔بڑے سرمایہ کار سرگوشی میں بتاتے ہیں کہ ریاست کا اعلیٰ ترین عہدیدار پیسے مانگتا ہے اور انکار کرنے والے کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ بڑے کاروباری جان بچاتے پھر رہے ہیں۔ 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں ایک مماثلت بھی ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے مقرر کردہ آرمی چیف جنرل کیانی سے توقع رکھتے تھے کہ وہ قاف لیگ کی فتح میں کردار اد اکریں گے لیکن انہوںنے فوجی افسروں کو دھاندلی روکنے کی ہدایت کی۔ قرائن یہ ہیں کہ فوجی قیادت وہی کردار دہرائے گی ۔ اس مماثلت کا ذکر بہت کم کیا جاتاہے ۔ کیا اس لیے کہ فوج کا حمایتی ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے ؟ ٍ پیپلز پارٹی کی ناکامی سے اس مرتبہ نون لیگ کی فتح نے جنم لینا تھا۔ اس لیے کہ پنجاب پربے شک شہباز شریف کی حکومت تھی لیکن معاشی اورخارجہ پالیسی سمیت، فیصلے تو پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی کر رہے تھے ۔ شریف برادران کی بدقسمتی کہ ایک نئی سیاسی جماعت راتوں رات اُگ آئی ۔ 2008ء کی طرح ، اس مرتبہ بھی میاں محمد نواز شریف شایدآخری لمحات میں اقتدار سے محروم رہیں ۔ 2008ء میں جب چیف جسٹس کو برطرف کرنے کی ناکام کوشش کے بعد وکلا سڑکوں پر تھے اور پرویز مشرف کا اقتدار ڈول رہا تھا، بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے معاہدہ کر لیا تھا۔ میاں نواز شریف تب پرویز مشرف اور آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے ۔ نون لیگ جیت جاتی مگر بے نظیر بھٹو کے قتل نے صورتِ حال بدل دی۔اس مرتبہ میاں محمد نواز شریف اور اقتدار کے درمیان عمران خان حائل ہیں ۔ تحریکِ انصاف اور نون لیگ دونوں دائیں بازو کی جماعتیں ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی، اے این پی اور ایم کیو ایم نامقبول تو ہیں ہی ،طالبان بھی ان پر زیادہ شدت سے حملہ آور ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہی تینوں جماعتیں کراچی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں اور نہایت مسرّت سے اعتراف بھی کرتی ہیں ۔باوجو د اس کے کہ سندھ میں نون لیگ، جماعتِ اسلامی، فنکشنل لیگ اور جمعیت علمائِ اسلام سمیت ،دس جماعتی اتحاد میدان میں ہے ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں شریک یہ جماعتیں اتحاد نہیں کر سکیں ۔سیاسی اتحاد نہ سہی، اگر یہ تینوں اپنے ٹارگٹ کلرز کو طالبان کے مقابل اتاریں ؟جو فاتح ہو ، اس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے نمٹ لیں ؟ بہر حال دس جماعتی اتحاد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے کچھ نشستیں تو چھینے گا۔سندھ میں وہ حکومت بنائے یا اپوزیشن ، دونوں صورتوںمیں جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی امید کی جا سکتی ہے ۔ کراچی اگر ایم کیو ایم کے ہاتھ سے نکلا تو جماعت کے اندر توڑ پھوڑ ہو گی ۔ کراچی میں لاقانونیت کا کھیل اسی نے شروع کیا تھا ۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی مقابلے پر اتریں تو ایم کیو ایم سخت سٹپٹائی او ربار بار وہ حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دیتی ۔تب رحمٰن ملک کی الطاف حسین سے ملاقات ہوتی یاایم کیو ایم کا وفد صدر زرداری سے ملتا اور چنددن کے لیے کراچی میں امن ہو جاتا۔ الیکشن 2013ء میں پنجاب کو میدانِ جنگ کہا جا رہا ہے ۔ ساڑھے آٹھ کروڑ میں سے تقریباً پانچ کروڑ ووٹ پنجاب کے ہیں اور قومی اسمبلی کی 342میں سے 181نشستیں ۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف یہاں تنہا ایک دوسرے کے مقابل اتر رہی ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور قاف لیگ متحد ہیں لیکن اس اتحاد کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔ ضمنی انتخابات میں نون لیگ بہت بڑے مارجن سے اسے شکست دیتی آئی ہے ۔ تحریکِ انصاف ضمنی انتخابات میں شریک ہی نہ ہوئی تھی ۔یہ نہیں پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبے قطعاًغیر اہم ہیں ۔ ہر صوبے اور ہر نشست کی اپنی اہمیت ہے ۔ 2008ء میں حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی پنجاب میں فاتح نہیں تھی ۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف پنجاب میں تقریبا ایک برابر ہیں ۔ خیبر پختون خو امیں تحریکِ انصاف کے لیے میدان صاف ہے الّا یہ کہ کوئی موثر اتحاد سامنے آئے ۔ عمران خان اورجماعتِ اسلامی میں اگر مفاہمت ہو سکے تو کلین سویپ ۔ اے این پی کا بہرصورت صفایا ہو جائے گا، 2008ء کے الیکشن میں جماعتِ اسلامی اور عمران خان کے بائیکاٹ سے جس کی لاٹری نکل آئی تھی ۔ رہا بلوچستان تومرکزمیں جس کی حکومت بنی ، بلوچستان میں بھی وہی راج کرے گا۔ اب ذرا جنرل پرویز مشرف کے بارے میں نگران حکومت، نون لیگ ، تحریکِ انصاف اور دوسری جماعتوں کی غیر سنجیدگی پر غور کیجئے ۔ شریف برادران دم سادھے بیٹھے ہیں ۔ حکومت سے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کرانے کا کوئی مطالبہ اور نہ پرویز مشرف کے خلاف کوئی جلسہ جلوس۔ 1999ء کے مارشل لا کا براہِ راست نشانہ ہونے کی وجہ سے وہ عدالتی کارروائی میں فریق بن سکتے ہیں لیکن نہیں ۔ عمران خان کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے ان کی نہیں ، نون لیگ کی حکومت گرائی تھی ؛لہٰذا پرویز مشرف ان کا مسئلہ تونہیں ۔ یہ سوال ان سے پوچھنا چاہئیے کہ 9برس پرویز مشرف جس ملک کو رسوا کرتا رہا، کیا وہ اسی کے شہری ہیں، اسی کے لیڈر ہیں ؟صرف عدالت سنجیدہ ہے ۔سب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ الیکشن کے بعد ایک معلق (Hung)پارلیمنٹ وجود میں آئی، کراچی ،بلوچستان ، پختون خوا اور فاٹا میں بد امنی اسی طرح جاری رہی اور معیشت بالکل ہی گر گئی تو اگلا مارشل لا دستک دے گااور عوام کی بڑی اکثریت لا تعلق رہے گی ۔ پرویز مشرف کے خلاف سخت کارروائی شاید آئندہ مہم جوئی کاراستہ روکے ۔ ایک مرتبہ پھر سوچ لیجئے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved