حسین حقانی جس کی پاکستان کے عسکری اداروں سے دشمنی اور نفرت کی حدیں اپنی تمام حدود قیود سے آزاد ہو چکی ہیں‘ کاانڈین آرمی چیف جنرل بپن راوت سے ملاقات کے بعد''COUNTER TERRORISM AT THE RAISINA DIALOGUE'' کے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ '' جموں و کشمیر کے نوجوان پاکستان کے بے بنیاد اور جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے گمراہ ہو رہے ہیں۔ اسی سیشن سے حسین حقانی نے آبدیدہ لہجے میں کہا '' وہ امریکا کو بار بار کہتے رہے کہ طالبان کو نہیں‘ بلکہ اس کے سرحد پار پاکستان کے اندر ٹھکانوں کو تباہ کرے‘ کیونکہ جب تک اس کی پناہ گاہوںکو ختم نہیں کیا جائے گا‘ طالبان کی طاقت ختم نہیں کی جا سکے گی‘ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔ امریکا اب افغانستان سے جانے کی تیاریاں تو کر رہا ہے‘ لیکن کیا وہ پاکستان اور طالبان کے مشترکہ نظریات پر بھی سمجھوتہ کرے گا؟‘‘ اس مشترکہ سیشن میں حقانی اور جنرل راوت کی تقریروں کے بعد ان کی تنہائی میں ہونے والی ملاقات پر بھی سوالات اٹھ رہے تھے کہ اچانک حسین حقانی نے بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے پاکستان کے دفاعی اداروں پر ایک اور وار کر دیا‘ جسے بلاول بھٹو نے بوسٹن یونیورسٹی کے فریڈرک سکول آف گلوبل سٹڈیز میں '' پالیسی لیڈرزفورم‘‘ میں پڑھا۔ حسین حقانی کا تیار کردہ سوال و جواب پر مبنی گلوبل سٹڈیز سے یہ خطاب معنی خیز ہے ۔یہ مقالہ تو میڈیا کا موضوع بن گیا‘ لیکن بد قسمتی سے پاکستانی میڈیا نے اس مقالہ سے پہلے حسین حقانی کی بھارتی فوج کے چیف جنرل بپن راوت سے خصوصی ملاقات کو نہ جانے کیوں اہمیت نہیں دی ‘کیونکہ اس ملاقات کے بعد ہی جنرل راوت کی سفارش پر بھارتی وزارت خارجہ نے ماسکو میں اپنے دو سابق سفارت کاروں کو طالبان کے امن مذاکرات میں شرکت کیلئے بھیجنے کی منظوری دی۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کو کمزور اور بے بس کرنے میں دن رات مصروف امریکی سی آئی اے ‘بھارت کی راء ا ور برطانوی ایم آئی سکس کی پاکستان اور اس کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف سازشیں اور منصوبے کبھی بھی ایک دم سے پروان نہیں چڑھتے‘ بلکہ اپنے مقرر کر دہ ہاتھوں اور زبانوں سے آہستہ آہستہ اپنے طے شدہ راستوں کی جانب سرکتے رہتے ہیں ۔گزشتہ ایک ماہ سے سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ارشادات کو معمولی نہ سمجھا جائے‘ کیونکہ مراد علی شاہ کی تقریریں وہی لکھ رہا ہے‘ جو بلاول کا اتالیق ہے۔ اس لئے سندھو دیش اور علیحدگی کے الفاظ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت استعمال کئے جا رہے ہیں ۔حسین حقانی کو پاکستان کے نیو کلیئر اثا ثوں کے بارے میں امریکا‘ اسرائیل اور بھارت سمیت مغربی ممالک کے بے بنیاد خدشات کو اپنے من گھڑت دلائل اور واقعات کے ذریعے ہوا دینے کا امریکا میں موجود بہت سے انڈو امریکی لابی سے وابستہ تھنک ٹینکس نے شاید مشن سونپ رکھا ہے اور اس سلسلے میں وہ کبھی برطانیہ تو کبھی بھارت سمیت بہت سے دوسرے ممالک میں پاکستان کے لبرل اور سی آئی اے اور راء کے تنخواہ داروںکے درمیان گھومتا رہتا ہے۔
حسین حقانی اور اس کے ماسٹر مائنڈ کا ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ اپنے لامحدود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے کسی نہ کسی طرح پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں اور سکیورٹی فورسز کے کردار کو عالمی رائے عامہ کی نظر میں امن کا دشمن ثابت کرتے ہوئے نا قابل قبول بنا دیا جائے اور یہی کچھ اس نے طالبان کے امن مذاکرات کو مشکوک بناتے ہوئے کیا۔ حسین حقانی اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتے ہیںکہ بھارتی راء کی ایک منجھی ہوئی38 سالہ خاتون اپرنا پانڈے‘ کو بھارت نے اس کے ساتھ بطور سیکرٹری تعینات کیا ہوا ہے اور وہ دونوں ایک ساتھ دیکھے جا رہے ہیں۔اگر حسین حقانی انکار کرتے ہیں تو وہ اس سے بھی انکار کریں گے کہ جنوری2016ء میں اس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی جانب سے بھارت میں ویوک نند انٹر نیشنل فائونڈیشن(VIF) میں شرکت کرنے والوں کو اپرنا پانڈے کی موجو دگی میں پاکستان کے بارے میں علیحدہ کمرے میں خصوصی بریفنگ دی تھی۔ بد قسمتی سے ماضی میں امریکا اور سری لنکا جیسے انتہائی اہم ترین ممالک میں پاکستان کیلئے سفار ت کاری کے فر ائض انجام دینے والا یہ شخص میمو گیٹ کے ذریعے لکھوائے جانے والے خط کے ذریعے امریکا سمیت مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کر تا رہا کہ اس وقت عالمی امن کو کسی وقت بھی کوئی خطرہ ہو سکتا ہے تو یہ پاکستان سے نہیں ‘بلکہ اس کی سکیورٹی فورسز اور نیوکلیئر اثاثوں سے ہو گا۔واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک آرٹیکل میں اس نے یہی باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر پاکستان میں سیاسی قیادت کو فوج کے اثر و رسوخ سے آزاد کرتے ہوئے با اختیار بنا دیا جائے تو امریکی کانگریس کے اس فیصلے کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ80 ارب ڈالر کے بدلے پاکستان اپنے ایٹمی اثاثے منجمد کرنے کیلئے تیار ہو جائے گا اور اس بابت کہا جاتا ہے کہ یہ وہ الفاظ ہیں ‘جو اس نے آصف زرداری کی ہدایت پر امریکا کے سامنے بطور ایک پیشکش کے رکھے تھے۔
حسین حقانی کی پاکستان کے70 ویں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں زہر پھیلانے کیلئے لکھی جانے والی کتاب REIMAGINING PAKISTAN: TRANSFORMING A DYSFUNCTIONAL NUCLEAR STATE دیکھنے سے ہی سمجھ آجا تی ہے کہ اسے کس نے لکھوایا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی یہ کتاب بھارت کے بہت بڑے پبلشنگ ادارے ہارپر کولنز پبلشرز کے بینر تلے شائع کرائی جا رہی ہے‘ جس کی راء سے باقاعدہ شراکت داری ہے۔ایک بات حیران کن ہے کہ حسین حقانی مستقل طور پر امریکا میں قیام پذیر ہیں اور امریکا سمیت برطانیہ کے بہت سے اشاعتی ادارو ں سے ذاتی دوستیاں اور مفادات پر مبنی تعلقات کو پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور پاکستان میں جعلی اور بے نام اکائونٹس‘ اسلم مسعود کی سعودی عرب سے گرفتاری اور انور مجید کی شوگر ملوں کے حوالے سے اپنے مربی آصف زرداری کو بچانے کیلئے اس طرح کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ بھارت کے آرمی چیف سے تنہائی میں ملاقاتوں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔
حسین حقانی کو میں نے 1987 ء سے بہت قریب سے دیکھا ہے ۔اس جیسا شاطر اور مفاد پرست انسان اب تک دیکھنے کو کم کم ہی ملا ہے۔ میاں برادران کے ساتھ مل کر بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کے خلاف گھٹیا میڈیا مہم چلاتا رہا اور پھر انہی بے نظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری کا ترجمان بن بیٹھا ۔ایسے ہی جیسے کل تک ایک صاحب نے اپنے انگریزی ہفت روزہ میگزین کے ذریعے میاں نواز شریف کو دنیا کا کرپٹ ترین انسان ثابت کرنے میں دن رات ایک کئے رکھے اور آج وہی صاحب ہیں کہ انہیں دنیا کا ایماندار ترین شخص ثابت کئے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے ان صاحب اور حقانی کا ایجنڈہ بھی ایک ہی ہے ۔ا ب تو حقانی اور اس کی بیگم فرح ناز اصفہانی سمیت پاکستان میں ان کے ترقی پسند ساتھیوں کی تان ‘اسی ایک بات پر ٹوٹ رہی ہے کہ پاکستان کے قیام کے پس منظر میں کارفرما نظریہ اپنے اندر کوئی وقعت نہیں رکھتاہے۔
حسین حقانی پاکستان مخالفین کا گروپ اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کے بارے میں گھٹیا پراپیگنڈہ پھیلانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ حسین حقانی اور اس کی بھارتی سیکرٹری اپرنا پانڈے ان گنت اُوٹ پٹانگ قسم کے حوالوں سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز اوراس کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں دنیا بھر میں خوف اور بدگمانیاں پھیلانے میں دن رات مصروف ہیں۔