یہ بحث ہر دور میں جاری رہی ہے کہ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے اور قابلِ ذکر مقام تک پہنچنے کے لیے فطری طور پر غیر معمولی صلاحیت کا پایا جانا لازم ہے یا پھر معاملہ یوں ہے کہ معمولی صلاحیت کو بھی غیر معمولی بنایا جاسکتا ہے۔ ٹیبل ٹینس کے معروف برطانوی کھلاڑی میتھیو سیڈ کا استدلال ہے کہ فطری صلاحیت کا پایا جانا اچھی بات ہے‘ لیکن اگر کوئی فطری طور پر غیر معمولی صلاحیت کا حامل نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے شعبے میں آگے نہیں جاسکتا۔ میتھیو سیڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ فطری صلاحیت سے کہیں زیادہ اہم ہے لگن اور مشق‘ یعنی یہ کہ انسان بھرپور مشقت کے ذریعے کسی بھی بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ میتھیو سیڈ نے جو کچھ کہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں۔ اس حقیقت کو ایک دنیا جانتی اور سمجھتی ہے کہ جو لوگ بھرپور مشق کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور اچھے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ وہ بھرپور کامیابی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں اور پھر اُنہیں غیر معمولی مقام تک پہنچنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
میتھیو سیڈ نے اپنی کتاب ''باؤنس‘‘ میں اس امر پر بحث کی ہے کہ فطری صلاحیت کا گراف بلند نہ ہونے کی صورت میں بھی انسان غیر معمولی کامیابیوں کا حصول یقینی بناسکتا ہے۔ ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ کسی نے کمتر صلاحیت کے باوجود اتنی محنت کی کہ دن اور رات ایک کردیئے اور یوں اپنے آپ کو منوایا۔ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں سے چند ایک ہی میں غیر معمولی فطری صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ عمومی نوعیت کی صلاحیت کے حامل افراد پوری لگن کے ساتھ کام کرتے ہیں اور کسی سے راہ نمائی پاکر آگے بڑھتے ہیں تو کامیابی تک پہنچنا اُن کے لیے خاصی نمایاں حد تک ممکن ہو جاتا ہے۔
میتھیو سیڈ نے کھیلوں کی دنیا سے کئی مثالیں پیش کی ہیں‘ جن میں بورس بیکر‘ ٹائیگر وڈز اور ولیم سسٹرز کی مثالیں نمایاں ہیں۔ ان سب نے اپنے اپنے شعبے میں نام کمانے کے لیے بہت چھوٹی عمر سے محنت کی اور جب وہ میدان میں اترے تک تب تک کئی ہزار گھنٹے کی مشق کرچکے تھے۔ مشق ہی نے اُن کے کھیل میں وہ شان اور تمکنت پیدا کی جسے دیکھ کر دنیا عش عش کر اُٹھی۔ چھوٹی عمر میں غیر معمولی مشق سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں قدم رکھتے وقت انسان اچھی خاصی مہارت حاصل کرچکا ہوتا ہے‘ یعنی بہت زیادہ سیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو دوسروں سے زیادہ کام آئے یعنی آپ میں غیر معمولی مہارت ہو تو لازم ہے کہ آپ دوسروں سے زیادہ کام بھی کریں۔ دوسروں سے ممتاز ہونے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ انسان اپنے کام کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ کام میں کھوٹ ہو تو شہرت داغ دار ہو جاتی ہے۔
برطانوی فٹ بالر ڈیوڈ بیکم کہتے ہیں کہ انسان کو دوسروں سے ممتاز کرنے والی صرف ایک چیز ہے ... محنت‘ محنت اور صرف محنت۔ اگر کوئی یہ طے کرلے کہ اُسے دوسروں سے آگے نکلنا ہے تو محنت کرنا پڑے گی۔ بھرپور محنت ہی اُسے مقصد کا تعاقب کرنے کی تحریک دیتی رہے گی۔ جہاں مقصد کے تعین کے ساتھ محنت کرنے کا جذبہ ہوگا وہاں کسی بھی طرح کی منفی سوچ نہیں پائی جائے گی۔ اگر ایسی حالت میں بھی کوئی منفی انداز سے سوچ رہا ہو‘ تو سمجھ لیجیے کہ مقصد کا تعین ڈھنگ سے نہیں ہو پایا یا پھر کام کرنے کی لگن میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔
ڈیوڈ بیکم نے کام کی ایک بات اور کہی ہے ... یہ کہ بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے حوالے سے محنت کے سوا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محنت کے مرحلے کو skip کرکے وہ کچھ پاسکتا ہے تو اُسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے۔
میتھیو سیڈ نے اپنی کتاب میں اس نکتے پر بھی بہت زور دیا ہے کہ انسان کو آگے بڑھنے کے لیے سب سے بڑھ کر اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ بزرگوں سے مشاورت بھی مفید ہے ‘مگر مشاورت پر انحصار پذیر رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان اپنے طور پر سیکھے اور محنت کرے۔ ایسا کرنے والے زیادہ کامیاب دیکھے گئے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں مثالی کامیابی کے لیے بہت کچھ جاننا‘ سمجھنا اور سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ کوئی اگر چاہے تو اس عمل کو کسی بھی مرحلے پر روک سکتا ہے‘ ترک کرسکتا ہے۔ ایسا کرنے کا خمیازہ بھی اُسے لازمی طور پر بھگتنا پڑے گا۔ نئی ٹیکنالوجی اور نئی تکنیک انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں جدید ترین ٹیکنالوجی پر نظر رکھنا پڑتی ہے ‘تاکہ دوسروں سے آگے نکلا جاسکے یا کم از کم اُن کے ساتھ ساتھ چلنا ہی ممکن بنا رہے۔
میتھیو سیڈ نے اپنی کتاب میں سیکھنے کے عمل پر خوب بحث کی ہے‘ تاکہ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے والوں کو اندازہ ہو کہ آگے بڑھنے کے لیے انہیں کیا کیا کرنا ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ کبھی کبھی ہار کر بھی انسان کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کسی بھی محاذ پر‘ کسی بھی معرکے میں شکست سے دوچار ہونے پر انسان اپنی خامیوں کا جائزہ لیتا ہے تو یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ غلطیوں اور کوتاہیوں کے اعادے سے کیوں کر بچنا ہے۔
نئی نسل کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ شکست بھی زندگی کا حصہ ہے۔ کسی بھی حوالے سے ملنے والے ناکامی سفر کا خاتمہ نہیں‘ بلکہ محض ایک سنگِ میل ہے۔ جس طور کامیابی کا نشا چڑھا رہتا ہے ‘اُسی طور انسان کو ناکامی بھی یاد رکھنی چاہیے ‘تاکہ اُس سے سیکھے اور کسی بھی غلطی یا کوتاہی کو دُہرانے کا مرتکب نہ ہو۔
میتھیو سیڈ نے اِس نکتے پر بھی بحث کی ہے کہ چھوٹی عمر میں غیر معمولی کامیابی کی صورت میں کی جانے والی ستائش انسان کا دماغ خراب کردیتی ہے اور وہ بنتے بنتے بگڑنے کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ غیر معمولی ستائش‘ شہرت اور پرستاروں سے ملنے والی محبت کو برداشت اور ہضم کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوا کرتی۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کسی کو کیریئر کی ابتداء ہی میں غیر معمولی کامیابی ملی۔ شہرت آئی تو پرستار بھی ساتھ لائی۔ جب پرستاروں کی تعداد بڑھی تو محنت کی لگن کا گراف نیچے آگیا۔ کامیابی اور شہرت کو ہضم کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ چھوٹی عمر میں انسان تیزی سے بہک جاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کامیابی کے خیر مقدم کی تیاری نہ کی گئی ہو تو یہی کامیابی زندگی بھر کی ناکامی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ بہت سے نوجوان کسی شعبے میں اچانک ابھر کر اُسی طور گمنام ہوجاتے ہیں‘ جس طور کوئی شہابِ ثاقب اچانک نمودار ہوکر دُھویں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ محض فطری صلاحیتوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے؛ اگر کسی میں صلاحیت کم پائی جائے تو حوصلہ افزائی کے ذریعے اُسے صلاحیت کو پروان چڑھانے کی تحریک دی جانی چاہیے تاکہ اُس میں کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا ہو۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی دکھائی دے رہی ہے‘ وہ صلاحیت سے کہیں زیادہ محنت کا نتیجہ ہے۔ محض فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کا سوچا جائے ‘تو ہوچکی ترقی اور چل چکی یہ دنیا...!
محض فطری صلاحیتوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے؛ اگر کسی میں صلاحیت کم پائی جائے تو حوصلہ افزائی کے ذریعے اُسے صلاحیت کو پروان چڑھانے کی تحریک دی جانی چاہیے تاکہ اُس میں کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا ہو۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی دکھائی دے رہی ہے‘ وہ صلاحیت سے کہیں زیادہ محنت کا نتیجہ ہے۔ محض فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کا سوچا جائے ‘تو ہوچکی ترقی اور چل چکی یہ دنیا...!