تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     16-02-2019

آزادی غیر مشروط نہیں ہوتی مگر…

ارباب اختیار ٹھیک کہتے ہیں۔ اظہار کی آزادی لا محدود نہیںہوتی۔ غیر مشروط نہیں ہوتی۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ جمہوری ملک کے آئین میں یہ بات درج ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ اس پر پابندی لگانے کی کوئی ایسی وجہ ہونی چاہیے، جسے ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں جائز قرار دیا جا سکے۔ پابندی لگانے کی ایسی ٹھوس وجہ ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران جو واحد وجہ ڈھونڈی جا سکی، وہ دہشت گردی تھی۔ یہ ایک ٹھوس وجہ تھی، جسے ہر ذی شعور انسان نے تسلیم کیا۔ 
آزادی لا محدود نہیں ہوتی۔ ارباب اختیار نے یہ بات سوشل میڈیا کے تناظر میں کی ہے۔ عام دھارے کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے اب کسی کو خاص شکوہ نہیں۔ اب سوال سوشل میڈیا کا ہے۔ کیا سوشل میڈیا آزاد ہے؟ سوشل میڈیا سمجھ لیں‘ سائبر سپیس میں ہر ایک کی ایک نجی سپیس ہے۔ یہ باہمی ستائش، تصاویر کی نمائش اور گالی گلوچ کے لیے یقینا آزاد ہے۔ مگر یہ جب اس سے آگے نکل کر کسی سنجیدہ بحث میں شامل ہو تو اس کی آزادی کا امتحان شروع ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عام دھارے کا میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، سب پر غالب اثر انہی قوتوں کا ہوتا ہے، جن کا سماج میں غلبہ ہے۔ جو قوتیں، زیادہ طاقت، وسائل اور اثر و رسوخ رکھتی ہیں‘ وہ عام لوگوں کی نسبت میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ 
لکھاریوں کو اس پر ناراض ہونے کے بجائے حقائق کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق ہر دور میں، ہر شخص کو اس وقت تک میسر رہا ہے، جب تک وہ مقتدر طبقوں کو چیلنج نہ کرے۔ یعنی جدید جمہوری زبان میں جب تک اس کی لاٹھی اشرافیہ کی ناک کو نہ چھوئے۔ 
تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ مراعات یافتہ طبقات اور ان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کے درمیان تاریخ کے ہر دور میں کشمکش رہی ہے۔ خواہ یہ قدیم یونان ہو یا مصر کی تہذیب ہو۔ رومن سلطنت سے لے کر برطانوی راج تک تاریخ کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا، جب یہ کشمکش بند ہوئی ہو۔ 
اظہار کی آزادی کی جہدوجہد کے کئی ادوار ہیں۔ مگر آج کے دور میں اس کو دو ادوار میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا سے پہلے کا دور اور سوشل میڈیا کے بعد کا دور۔ ان سب ادوار کا جائزہ لیا جائے تو آزادیٔ اظہار کی جدوجہد کی کئی درد ناک اور حیرت انگیز کہانیاں موجود ہیں۔ 
جس دور میں انسان نے ابھی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا، توآزادیٔ اظہار کا واحد واضح ذریعہ گفتگو ہوتی تھی۔ پھر یہ گفتگو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی تھی۔ اظہار کے اس ذریعے پر اگرچہ اہل حکم کے لیے پابندی عائد کرنا بہت مشکل تھا‘ مگر اظہار کرنے والوں کا مسئلہ یہ تھا کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی بات دور تک پہنچ تو جاتی تھی، مگر اس عمل کے دوران وہ بات بگڑتے بگڑتے کچھ سے کچھ ہو جاتی تھی۔ بیان کرنے والوں کے اپنے حافظے کے مطابق، یا ان کی پسند و نا پسند کے مطابق ڈھل کر ایک ایسا بیانیہ بن جاتی تھی، جس کا اصل بیان کرنے والے کے خیالات سے کم ہی تعلق ہوتا تھا۔
چھاپہ خانہ کی ٹیکنالوجی آ جانے سے لکھنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوگئیں‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقات کا کام بھی آسان ہو گیا۔ پہلے کاتب کی انگلیاں کاٹی جاتیں تھیں‘ پھر چھاپہ خانے بند کیے جانے تھے۔ 
چھاپہ خانوں پر کنٹرول کے ذریعے اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کرنا آمریت پسندوں کے لیے آسان تھا۔ حکمرانوں کو گمان تھا کہ وہ اس طریقے سے خیالات کو قابو کر سکتے ہیں، پھیلنے پھلنے سے روک سکتے ہیں۔ بڑے بڑے نابغہ روزگار لکھاریوں کی بات کو اس طریقے سے عوام تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ سولہویں سے انیسویں صدی تک کی پوری تاریخ اسی طرح کی باہمی کشمکش سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ میں ایسی لاکھوں مثالیں ہیں، جو اس کشمکش کی دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں ہیں۔ لاکھوں مثالیں ہی نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تاریخ کے ہر قابل ذکر پیغام کو پہلے پہل مراعات یافتہ طبقات نے عوام تک جانے سے روکنے کی سعی ضرور کی۔ اس کوشش میں کئی کتابوں پر پابندی لگی۔ کئی جلسوں و جلوسوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
پاکستان میں یہ کشمکش آزادی کے بعد آغاز ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ خود قائد اعظم محمد علی جناح کی اپنی زندگی میں ان کے اپنے اخبار ڈان پر یہ طبع آزمائی شروع ہو گئی تھی۔ اس وقت کے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کے بیانات اس امر کے گواہ ہیں۔ یہ سلسلہ چل پڑا تو پھر رکا نہیں۔ ہر نئے حکمران نے اس باب میں پہلے کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی۔ آمریت سے کوئی شکوہ ہی بے کار ہے۔ آمریت نہ تو آزادیٔ اظہارِ رائے کی دعوے دار ہوتی ہے، اور نہ ہی اس سے یہ توقع رکھی جانی چاہیے۔ تاریخ میں کچھ استثنائیں ضرور ہوتی ہیں‘ مگر یہاں جمہوریتوں نے بھی میڈیا کی آزادی کے باب میں بسا اوقات آمریتوں کو مات کیا۔ آمریت کے خلاف جمہوریت کی لڑائی لڑنے والوں کو رسم زبان بندی کا شکوہ رہا۔ مگر جب وہ اقتدار میں آئے تو بسا اوقات اس رسم پر پہلے سے زیادہ سختی سے عمل ہوا۔ اس کی ایک مثال ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی، جو تاریخ میں پہلی بار آمریت سے کھلی لڑائی کے بعد آزادانہ انتخابات کے ذریعے ایوان میں آئی تھی‘ مگر اس دور میں کئی اخبار زیر عتاب آئے۔ کئی لکھاری پابند سلاسل ہوئے۔ 
ضیاالحق کے دور میں تو ہر ریکارڈ توڑ دیا گیا۔ اس دور میں حکمرانوں نے میڈیا کے باب میں اپنی پالیسی کی کوئی توجیہہ بھی پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس دور میں میڈیا کو کھل کر بتا دیا گیا تھا کہ کیا نہیں چھاپا جا سکتا۔ خود چھاپہ خانوں نے جس مستعدی سے ان احکامات پر عمل کیا‘ اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس دور میں چھاپہ خانے خود سنسر بورڈ بن گئے تھے، جن کی جانچ پڑتال کا معیار خود مارشل حکام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ ظاہر ہے ان کے سر پر مارشل لاء کا خوف سوار تھا۔ چھاپہ خانہ بند ہو جانے اور روزگار چلا جانے کا ڈر تھا۔ اور بعض صورتوں میں گرفتار ہونے اور قلعے کی ہوا کھانے کا خطرہ بھی موجود تھا۔ حکمران جب چھاپہ خانوں کے مالکان اور ملازمین میں اتنا ڈر و خوف پیدا کر چکے تو ان کا کام آسان ہو گیا تھا۔ اس طرح یہ سلسلہ چھاپہ خانوں سے ہوتا ہوا الیکٹرانک میڈیا تک آیا۔ الیکٹرانک میڈیا مشرف دور میں ابھرا۔ اس دور میں اس میڈیا نے شاید اپنی آزادی کا عروج دیکھا۔ زیادہ کریڈٹ تو ان صحافیوں کو جاتا ہے ، جنہوں نے اس باب میں آزادی کی طویل جدو جہد کی۔ مگر مشرف کو اس کے حصے کا کریڈٹ نہ دینا بھی نا انصافی ہو گی۔ ہوتے ہوتے یہ سلسلہ آج کے دور کے سوشل میڈیا تک آ پہنچا۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران جمہوری حکومتوں کے سائے میں سوشل میڈیا کو لگام دینے پر بہت غور و غوض ہوا۔ سائبر سپیس کے بارے میں کئی قوانین بنائے گئے۔ اس باب میں کئی سرگرم لوگوں کے خلاف عملی اقدامات بھی کیے گئے۔ ایسا دو جمہوری ادوار میں ہوا۔ اب ایک تیسری جمہوری حکومت ہے۔ اب ارباب اختیارکا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی لا محدود نہیں ہوتی۔ مگر یہ ہمارے لیے کوئی اعلان یا خبر نہیں۔ یہ ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ آزادی لا محدود نہیں ہوتی۔ 
مگر ہم اہل حکم سے سو فیصد متفق ہیں کہ منافرت پھیلانے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ دنیا کے ہر جمہوری اور ترقی یافتہ ملک کے آئین میں یہ بات لکھی ہے۔ مگر منافرت کیا ہے اور کیا نہیں ؟ یہ طے کرنا ایک باریک اور حساس کام ہے۔ اس کے لیے ایک باقاعدہ میکانزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ منافرت روکنے کی آڑ میں آزادیٔ اظہارِ رائے، سیاسی اور شہری آزادیوں پر بلا وجہ پابندیاں نہ عائد کی جائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved