یہ عجیب المیہ ہے کہ جب سے بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کو اقتدار ملا ہے ہے‘ اقلیتیں خاص طور سے مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔پہلے مسلمانوں کو ڈرایا گیا کہ اگر وہ متحد نہ ہوئے‘ تو بی جے پی حکومت میں آجائے گی اور اب یہ خوف دلایا جا رہا ہے کہ اگر مسلمان متحد نہ ہوئے ‘تو بی جے پی کا تسلط ختم نہ ہو سکے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیکولرازم کے تانے بانے کو ختم کرنے بھارت کو راشٹر واد کے نام پر ہندو توا کے رنگ میں رنگ دینے کے بی جے پی اور آر ایس ایس کے ارادوں سے‘ سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کا ہی ہونے والا ہے۔بھارت کی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کی ترقی کی بجائے ان کے تحفظ کی بات کرتی ہیں ‘جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نامی کوئی طوفان ہے‘ جو مسلمانوں کو بہا کر لے جائے گا۔
راہول گاندھی نے کانگرس پارٹی کے اقلیتی لیڈروں‘ کارکنوں اور عہدیداروں کے سامنے جو تقریر کی‘ وہ ہر گز کانگرس جیسی تاریخی اور سیکولر پارٹی کے سربراہ کی زبان نہیں لگی۔ انہوں نے اپنے آدھے گھنٹے کی تقریرمیں صرف اس بات پر زور دیا کہ آر ایس ایس ایک خطرناک جماعت ہے ؛اگر کانگرس کی حکومت آئی تو وہ آر ایس ایس کی غنڈہ گردی سے ملک کو نجات دلائے گی۔آر ایس ایس کے کارندوں کو اعلیٰ عہدوں تک نہیں جانے دیں گے۔ ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔راہول کی گفتگو سے ایسا لگ رہا ہے‘ جیسے بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ آر ایس ایس ہے۔راہول اپنے خطاب میں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔حیرت اس بات پر ہے کہ نا صرف کانگرس‘ بلکہ دیگر علاقائی جماعتیں بھی مسلمانوں سے ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں اور اب وہ بھی اسی ایجنڈے پر گامزن ہیں۔رام مندر کے لئے لال کرشن اڈوانی نے جوریلی نکالی تھی‘اسے لالو پرسادیادو نے بہار میں کیا روکا‘ اس کا ذکر وہ خود عرصے تک کرتے رہے اور اب ان کابیٹا یوں بڑھا چڑھا کرپیش کر رہا ہے‘ جیسے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان کر ڈالا ہو۔اجودھیا میں کارسیوکوں پر ربڑ کی گولیاں چلانے والے اس وقت کے یو پی کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادوکافی عرصے تک مسلمانوں کے جلسوںمیں اس کارروائی کا ذکر بڑے فخر سے کرتے رہے‘ مگر جب بی جے پی کے تعاون سے ریاست میں حکمران بنے ‘تو اس کا ذکر بالکل بھول گئے۔
بھارت کی کم و بیش ساری علاقائی جماعتیں مسلمانوں کو ترقی کے عمل سے دُور رکھ کر صرف یہ احسان جتا کر یا خوف دکھا کر اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہیں ‘ اسی راہ پر اب کانگرس بھی چل پڑی ہے؛ اگر کانگرس کے اعلیٰ عہدیدار ایسا سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو خوش کرنے یا ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے صرف آر ایس ایس پر شکنجہ کسنا ہی کافی ہے‘ تو یہ ان کی بھول ہے۔ مسلمان اب بیدار ہو چکے ہیں ۔ ان کے قائدین بھی سیاست کے ہر رنگ کو اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ آر ایس ایس اور اس کے نظریات اگر مسئلہ ہیں‘ تو وہ صرف مسلمانوں کا نہیں‘ بلکہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب‘ فیڈرل سسٹم اور بھارت کے مزاج کے لئے بھی بڑا ایشو ہے‘ جس کی تشکیل مجاہدین آزادی اور معماران قوم کی دانش مندی سے عمل میں آئی تھی۔ بھارتی مسلمان چاہتے ہیں کہ بھارت ہندو توا کے زیر اثر نہ رہے‘ بلکہ سیکولر ازم کا رنگ حاوی رہے۔ بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی کا اقتدار ختم ہو‘ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں بھارت کی سیکولر جماعتیں مسلمانوں کو بھیڑ بکری کے ریوڑ سمجھیں اور آر ایس ایس اور بی جے پی کے خوف سے ان کے ووٹ بینک پر قبضہ کر لیں۔
اکثر کانگرس کے لیڈر رام مند رکی تعمیر کو عدالت کے فیصلے پر موقوف قرار تو دیتے ہیں‘ لیکن کوئی بھی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ رام مندر کی تعمیر یا متنازعہ اراضی کی تقسیم پر بات بعد میں ہو گی‘ پہلے ان مجرموں کو سزا دلوائی جائے‘ جنہوں نے بابری مسجد کو دن کے اجالے میں شہید کیا تھا ۔ ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ بھارت میں کانگرس کی قیادت میں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہو‘ مگر مسلمانوں کو ان کاجائز مقام دے کر آگے بڑھنے میں کانگرس لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے اور لے رہی ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد انٹونی کمیٹی نے رپورٹ دی تھی کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کانگرس کی پیش قدمی شکست کی وجہ بنی تو پورے بھارت میں کانگرس کے کارکنوں کے چہروں پر مایوسی چھا گئی ۔ اس کے بعد تو کانگرس نے اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا شروع کر دی تھی‘ یہاں تک کہ آر ایس ایس کے خلاف اور مسلمانوں کی حمایت میں بولنے والے وجے سنگھ کی زبان بندی کرنے کی کوشش کی گئی۔یہی نہیں کانگر س نرم ہندو توا کی راہ پر چل پڑی تھی‘ جس پر آج بھی گامزن ہے۔ کانگرس کی نرم ہندو توا ‘والی روش ہی تھی کہ جب پارلیمنٹ میں تین طلاق کے مسئلے پر بحث کی بات آئی تو اس نے اپنے رکن پارلیمنٹ کو کھل کر اظہار خیال کرنے سے روک دیا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ اگر مولانا نے اس موضوع پر رائے دی تو بی جے پی پروپیگنڈا شروع کر دے گی کہ کانگرس مسلمانوں کی پارٹی بن گئی ہے۔
لگ یہی ہے کہ بھارت میں مسلمان خوف کا شکار ہیں یا پھر تمام سیاسی جماعتیں مل کرانہیں خوف کی سیاست کا شکار بنا کررکھنا چاہتی ہیں۔اس میں کانگرس سمیت تمام سیاسی جماعتیں متحددکھائی دیتی ہیں اور یکساں نظریہ بھی رکھتی ہیں۔ اس صورت حال کو بھارتی مسلمانوں کو سمجھنا چاہئے۔