تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-02-2019

ریاست ہی ثقافتی ورثے کی وارث ہوتی ہے

ہنلے آن تھیمز Henley on Themes ریڈنگ سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ یعنی ٹاؤن ہے۔ ریڈنگ لندن سے تقریباً پینسٹھ کلو میٹر دور ہے اور اپنی یونیورسٹی اور جیل کے حوالے سے مشہور ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے سابقہ شوہر اور فلمسٹار اعجاز درانی منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں اسی جیل میں قید رہے۔ ہنلے دریائے تھیمز کے کنارے واقع ہے۔ میں 1999 میں برادرِ عزیز طارق حسن کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ وہ تب ریڈنگ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ ہنلے میں ہماری نظر ایک سفید رنگ کے قدیم سے گھر پر پڑی۔ باہر بورڈ لگا ہوا تھا کہ یہ گھر 700سال پرانا ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ اپنی اوریجنل حالت میں ہے‘ تاہم اس کی مرمت وغیرہ ہوتی رہی ہے۔ اب اس گھر کی دیکھ بھال ہنلے کونسل کرتی ہے یہ گھر ہنلے ٹاؤن کا ثقافتی ورثہ ہے۔
خیرپور جسے کبھی خیر پور میرس بھی کہا جاتا تھا‘ ریاست کے حکمران تالپور خاندان کے نواب جو اپنے ساتھ ''میر‘‘ لکھتے تھے کی وجہ سے اس نام سے پکارا جاتا تھا۔ ریاست کے نوابین نے مختلف محلات تعمیر کئے۔ جو اب بھی موجود ہیں مگر دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث روز بروز عمارت سے کھنڈر بننے کی طرف گامزن ہیں اور ان میں سب سے زیادہ خستہ حالت ''شیش محل‘‘ یا ''شاہی محل‘‘ کی ہے۔ خیرپور شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر کوٹ ڈیجی نامی قصبے میں دو چیزیں دیکھنے لائق ہیں۔ ایک کوٹ ڈیجی کا عجیب و غریب قلعہ اور دوسرا شیش محل۔ کوٹ ڈیجی کا قلعہ ایک لائم سٹون کی پہاڑی پر ہے اور لمبائی کے رخ واقع اس پہاڑی پر بلند ٹیلے کی چوٹی پر اسی طرح لمبائی کے رخ بنا ہوا ہے جس طرح پہاڑی کی قدرتی بناوٹ ہے۔ قلعے کی چوڑائی کہیں بھی شاید سو فٹ سے زیادہ نہیں ہے اور نہایت ہی تنگ طریقے سے بنا ہوا ہے اور یہی اس کی خوبی تھی جس نے اسے بہت محفوظ بنا دیا تھا۔ میر سہراب خان تالپور نے یہ قلعہ 1790 کے قریب تعمیر کیا۔ سو فٹ سے زیادہ بلند پہاڑی پر واقع اس قلعے میں داخل ہونے کے لیے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں اور تین مختلف حفاظتی دروازوں سے گزرنا پڑتا ہے جن پر بڑی بڑی نوکدار کیلیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ اس قلعہ کی حالت دیگر عمارتوں کی نسبت خاصی بہتر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت پاکستان کی تحویل میں ہے اور مرمت کے ساتھ ساتھ سرکاری نگرانی کے باعث ٹوٹ پھوٹ سے خاصا محفوظ ہے۔ اوپر چڑھتے ہوئے ہمارا حشر ہو گیا اور قلعہ میں پہنچ کر ہم اس کی دُہری دیواروں میں بنے ہوئے جھروکے میں بیٹھ گئے جو غالباً کبھی توپ کے استعمال کے لیے بنایا گیا تھا۔ ٹھنڈی ہوا نے طبیعت چند لمحوں میں بحال کر دی۔
قصبے کے دوسرے سرے پر سندھ کے قدیم حکمران سمرا خاندان کے نام سے آباد سمرا محلے کے پار باہر کی طرف شیش محل ہے۔ وسیع و عریض احاطے میں وقت کے ہاتھوں شکست کھاتی ہوئی خوبصورت سفید رنگ کی چوکور عمارت جس کے تین اطراف میں تین محرابوں والی گیراج نما ڈیوڑھیاں ہیں۔ چاروں طرف محراب دار برآمدہ، منقش دیواریں، لکڑی کے باریک کام والی جالیوں سے مزین دروازے اور رنگدار کاشی گری اور شیشے کے کام والی چھتیں۔ باہر کی باؤنڈری والی یعنی حفاظتی دیوار جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھی اور چاہیں تو ان راستوں سے اندر چلے جائیں۔مگر دروازے سے اندر داخل ہونے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑے۔ چوکیداری پر متعین خاندان نے بمشکل اندر آنے کی اجازت دی۔ اوپری منزل تک جانے کا شاید اب کوئی راستہ نہ تھا یا شاید کوئی بتانے پر راضی نہ تھا۔ ایسی شاندار عمارت کہ بندہ ایک بار تو مبہوت ہو جائے لیکن حالت اتنی خستہ کہ دکھ ہوا۔ یہ محل میر فیض محمد تالپور نے تعمیر کروایا تھا۔
خیرپور کے میر نواب صاحبان نے اور بھی کئی محل تعمیر کروائے۔ کوٹ ڈیجی میں ہی میر فیض محمد تالپور کا تعمیر کردہ ٹاکر بنگلہ، سفید محل حرف سفید اوطاق اور شیرپور شہر میں فیض محل کے علاوہ علی نواز خان تالپور کا اپنی بیگم کے لیے تعمیر کردہ ''بالی جو بنگلو‘‘ یعنی بالی کا بنگلہ۔ شاعر اور موسقی کے دلدادہ علی نواز تالپور کو لاہور کی ایک رقاصہ پسند آ گئی اور وہ اسے بیاہ کر لے آیا۔ پھر اس کے لیے ایک محل بنوایا جو بالی کا بنگلہ کہلاتا تھا۔ اب یہ شاید انٹر ہاؤس کہلاتا ہے۔ یہ سارے محلات اپنے طرز تعمیر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کوئی محل راجستھان کی طرز تعمیر کی جھلک رکھتا ہے اور کوئی سکھ طرز تعمیر سے متاثر ہے۔ کسی میں جودھپوری خوبصورتی نظر آتی ہے تو کسی میں بہاولپور جھلکتا نظر آتا ہے۔ لیکن ان سب محلات کو وقت دھیرے دھیرے سنگ و خشت سے مٹی میں تبدیل کر رہا ہے اور بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کی حفاظت اور مرمت کا خرچہ اب کون کرے؟ نہ ریاست رہی اور نہ وہ شاہی ٹھاٹھ باٹھ کہ میر صاحبان کی آل اولاد ان کو اسی حالت میں رکھ سکے جو حالت ریاست کے دنوں میں تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ریاست پاکستان اپنے اس ثقافتی ورثے کی وارث بنے اور ہنلے کے قدیم گھر کی طرح ان نادر روزگار محلات کی مرمت اور حفاظت کی ذمہ داری پوری کرے۔
یہی حال دنیا کے سب سے بڑے قبرستان مکلی کا ہے۔ ٹھٹھہ کے قریب ایک بہت بڑے ٹیلے پر آباد اس شہرِ خموشاں میں پتھر پر کندہ کاری سے مزین قبریں اور ان پر بنے ہوئے پیلے پتھر کے مقبرے مکمل بربادی کی تصویر ہیں۔ مائی مکلی، عیسیٰ خان ترکھان، جام نظام الدین، جان بابا، دیوان شرفا خان اور بے شمار دیگر لوگ جن میں سندھ کے گورنر، حکمران اور ان کے خاندان کے مقبرے شامل ہیں اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ قبرستان اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔
یہی حال ٹھٹھہ کی شاہجہان مسجد کا ہے۔ ترانوے گنبدوں والی سرخ اینٹ اور نیلی کاشی گری والی ٹائلوں سے تعمیر کردہ مسجد بہرحال مناسب حالت میں ہے ایرانی طرز تعمیر سے مشابہہ اس مسجد کا ایک ہال ہے اور باقی تین اطراف میں برآمدے ہیں۔ تعمیر ایسی کہ امام کی آواز ساری مسجد میں گونجتی ہے۔ مرکزی گنبد کے نیچے رنگین ٹائلوں کا انتہائی نفیس اور باریک کام۔ ایسا جیسے موز ائک بنا ہو۔ صفائی کی حالت ناگفتہ بہ اور سڑک کے پار اکلوتے باتھ روم کی یہ حالت کہ سڑک سے گزرتے ہوئے ناک پر ہاتھ رکھے بغیر گزرنا مشکل۔ اسد نے واش روم جانا تھا لیکن مسجد کے آس پاس ایسا کچھ انتظام نہ تھا۔ مجبوراً ٹور ازم کے دفتر جانا پڑا۔ یہ 1992یا 1993 کی بات ہے۔ گزشتہ ماہ شوکت گجر ٹھٹھہ سے واپس آیا تو اس نے شاہجہان مسجد کی خوبصورتی کا ذکر کیا۔ میں نے پوچھا: وہاں واش روم کا کیا حال تھا؟اس نے جو بتایا اسے سن کر احساس ہوا کہ شاہ جہان مسجد کے ٹوائلٹ کی حالت بھی اندرون سندھ کے شہروں والی ہے جو عشروں سے نہیں بدلی۔
شوکت گجر سے یاد آیا بنجوسہ جھیل برف کا میدان تھی۔ اس پر چند لڑکے بالے تصویریں بنا رہے تھے۔ شوکت نے مجھ سے کہا کہ جھیل کی جمی برف پر چڑھ کر تصویر کھنچوا لو۔ میں نے کہا:شوکت صاحب! میرے وزن میں ان لڑکوں کے وزن میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس برف کو اس وزن کا بخوبی اندازہ ہے۔ میں اوپر گیا تو دو آوازیں آئیں گی۔ پہلی تڑاق کی اور دوسری غڑاپ کی۔ اتنے ٹھنڈے پانی میں تو تیرا بھی نہیں جائے گا۔ شوکت کہنے لگا: مجھے امید نہیں تھی کہ آپ ڈر جائیں گے۔ میں نے کہا :یہ ڈرنا نہیں، سمجھداری ہے اور جھیل کی برف پر چڑھنا بہادری نہیں حماقت ہے۔ ویسے ڈرنا اسے کہتے ہیں جیسے رات ریسٹ ہاؤس کی جانب جاتے ہوئے ہماری گاڑی برف میں پھنس گئی تھی۔ تنگ اور کچا راستہ، پھنسی ہوئی گاڑی، رات کی تاریکی اور دور دور تک ویرانی۔ تمہارے چہرے پر تب بارہ بجے ہوئے تھے۔ یہ سنتے ہی شوکت بولا: برف باری رکی ہوئی ہے۔ دن کی روشنی ہے اور لوگ آ جا رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں ابھی واپس چل پڑتے ہیں۔ سنا ہے یہ راستہ دو چار ماہ بعد بن جائے گا۔ پھر اگلے سال آئیں گے اور دو چار دن رہیں گے۔ اس بار اتنا ہی کافی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ بیرون ملک سے سیاح نے کیا آنا ہے؟ اندرون ملک والے ہی اول تو سیاحتی مقامات سے پورے طور آگاہ نہیں ہیں اور اگر ہیں تو وہاں کی سہولتوں کی صورتحال اتنی ناگفتہ بہ کہ کوئی ہمت نہیں کرتا اور حکومت کو زبانی دعووں سے بڑھ کر کچھ کرناہی نہیں آتا۔ معاملات کیسے سدھر سکتے ہیں؟ ریاست کو احساس ہونا چاہئے کہ صرف وہی ریاست کے ثقافتی ورثے کی وارث ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved