تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-02-2019

’’میلے کی سیر‘‘

نئی نسل کو تابناک مستقبل کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے جو کچھ کیا جانا چاہیے‘ وہ اب تک نہیں کیا جارہا ... یا پورے من سے نہیں کیا جارہا۔ یہ معاملہ دُور اندیشی پر مبنی سوچ اپنانے اور بھرپور منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنے کا ہے اور اس سے زیادہ افسوسناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ زندگی کو کامیاب و تابناک بنانے کے حوالے سے انتہائی بنیادی سمجھی جانے والی منصوبہ سازی کے معاملے میں بھی انتہائی درجے کی لاپروائی اختیار کیا جائے؟ 
زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے ‘یہ سوچنا نئی نسل کا بھی کام ہے‘ مگر اُس سے کہیں بڑھ کر اُن کا فریضہ ہے ‘جو جوانی کی حدود سے آگے بڑھ کر بُرد باری و دانائی سے متصف عمر تک پہنچ چکے ہیں۔ زندگی کے سرد و گرم کا مزا چکھنے والے اپنے تجربے کی روشنی میں نئی نسل کو بہت کچھ بتا اور سمجھا سکتے ہیں۔ یہ بتانا اور سمجھانا بہت سے طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ ہم ابلاغ کے ذرائع کی بے مثال ترقی کے دور میں جی رہے ہیں۔ ٹائپنگ کا مرحلہ تو خیر بہت پہلے بہت آسان ہوچکا تھا‘ اب آڈیو اور ویڈیو فائل بنانا بھی ذرا مشکل نہیں رہا۔ انگوٹھے اور انگلیوں کی ذرا سی حرکت درکار ہے‘ آپ کی حرکات و سکنات اور آواز سبھی کچھ محفوظ! انٹر نیٹ کے ذریعے کوئی بھی اپنے تجربے کو تمام جزئیات کے ساتھ بخوبی بیان کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں یہی ہو رہا ہے اور کروڑوں نوجوان بھرپور زندگی بسر کرنے کی تحریک پارہے ہیں۔ 
ہمارے ہاں نئی نسل کو سمت دکھانے کے حوالے سے اب تک کچھ خاص نہیں کیا جارہا۔ آٹھویں جماعت کے سنگِ میل سے آگے بڑھنے پر نئی نسل کو میٹرک کے مرحلے کا سامنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں ذہن سوچنے کی طرف تھوڑا سا مائل ہوتا ہے؛اگر موزوں طریقے سے راہ نمائی کی جائے تو نئی نسل کو بہت سے معاملات سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور وہ کسی خاص حوالے سے ذہن سازی میں کامیاب ہو پاتی ہے۔ 
جب کوئی لڑکا میٹرک کے بعد کالج میں قدم رکھتا ہے‘ تب اُس پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ اب اُسے زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہونا ہے‘ کچھ سوچنا ہے۔ ذہن کا کینوس تھوڑی سی وسعت اختیار کرتا ہے۔ اس مرحلے میں اُسے کسی واضح سمت کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ کیریئر کے حوالے سے سوچ اسی مرحلے میں پنپتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے اب تک کاؤنسلنگ کا رجحان عام نہیں ہوا۔ بیشتر نوجوانوں کو گریجویشن کی منزل تک پہنچنے پر بھی درست اندازہ نہیں ہو پاتا ‘کہ آگے کیا کرنا ہے‘ زندگی کس طور بسر کرنی ہے۔ 
آپ نے کبھی میلے کی سیر کی ہے؟ میلے میں ہر طرف زندگی کی بہار جلوہ گر ہوتی ہے۔ خوش گوار اور زندگی سے آراستہ ماحول میں سبھی کچھ اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ میلے کا ماحول بہت پُرلطف ہوتا ہے۔ یہ لطف صرف سیر کرنے والوں کے لیے ہوتا ہے۔ میلے کی رونق یقینی بنانے کے لیے دن رات ایک کرنے والوں کے لیے اس رونق میں کچھ خاص کشش نہیں ہوتی ہے۔ 
نئی نسل بھی میٹرک کے بعد کالج کی منزل تک میلے کی سیر ہی کر رہی ہوتی ہے۔ اُس پر گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے حوالے سے کچھ خاص ذمہ داری نہیں ہوتی۔ میلے کی سیر کا ماحول انسان کے ذہن پر برائے نام بھی بوجھ نہیں ڈالتا۔ میلے کے مختلف آئٹمز سے محظوظ ہوتے وقت ہم میں سے کم ہی لوگوں کو احساس ہو پاتا ہے کہ کل کو ہمیں بھی میلے کی رونق یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے! 
نئی نسل کو بھی یہ نکتہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اُسے عمر کے ایک خاص مرحلے کے بعد میلے کی سیر ختم کرنی ہے اور میلے کے آئٹمز میں اضافے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس دنیا میں ہماری آمد کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ دوسروں کی محنت سے مستفید ہوں اور اپنی محنت سے دوسروں کو فیض یاب ہونے کا موقع دیں۔ نئی نسل کو یہ نکتہ ذہن نشین کرانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اُسے عملی زندگی شروع کرنے کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے بھرپور تحریک درکار ہوتی ہے۔ سمت واضح نہ ہو‘ اہداف متعین نہ ہوں تو نئی نسل کے لیے آگے بڑھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ 
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کو کیریئر کے انتخاب میں جس نوعیت کی رہنمائی درکار ہوا کرتی ہے‘ اُس کا اہتمام ہمارے ہاں برائے نام ہو پایا ہے۔ کاؤنسلنگ کے ذریعے نئی نسل کو سمجھانا پڑتا ہے کہ اُن کے لیے فلاں شعبہ موزوں رہے گا اور فلاں شعبہ کسی بھی اعتبار سے موزوں نہیں ہوگا۔ رجحان کی روشنی میں کیریئر کا انتخاب اُسی وقت ممکن ہے‘ جب نوجوان لڑکا یا لڑکی اپنا ذہن کھل کر بیان کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے نہ تساہل کا۔ یہ پورا معاملہ غیر معمولی سنجیدگی کا طالب ہے۔ دنیا بھر میں معاشرے اس امر کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ نئی نسل کا ذہن مستقبل کے حوالے سے واضح ہو۔ چھوٹی عمر سے سمت کا تعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بچوں کے رجحانات کا جائزہ لے کر موزوں شعبوں کا تعین کیا جاتا ہے ‘تاکہ اُن کی صلاحیتیں پروان بھی چڑھیں اور بروئے کار بھی لائی جاسکیں۔ 
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بالکل عمومی طرز کی زندگی بسر کرنے کے لیے جو منصوبہ سازی درکار ہوتی ہے اُس کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ یہی سبب ہے کہ عام طور پر زندگی کی سلور جوبلی منانے تک بیشتر نوجوانوں کو اندازہ نہیں ہو پاتا‘ کہ اُنہیں کرنا کیا ہے۔ جن میں صلاحیت پائی جاتی ہو وہ بھی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہتر صلاحیتوں سے یکسر محروم یا کمتر صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کو کس سطح کی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ 
دنیا میدانِ عمل ہے‘ محض تفریحی مقام نہیں۔ خالص دینی اور روحانی نقطۂ نظر سے دیکھیے تو دنیا کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے 
یہ عبرت کی جا ہے‘ تماشا نہیں ہے 
اگر خالص دنیوی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس دنیا کو محض تماشا گاہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ ہمیں ایک طرف تو اس میلے سے محظوظ ہونا ہے اور دوسری طرف میلے کی رونق برقرار رکھنے پر متوجہ بھی رہنا ہے۔ زندگی کچھ دو اور کچھ لو کی طرح کا دو طرفہ عمل ہے۔ معاشرہ ہمیں بہت کچھ دیتا ہے اور ہمیں بھی معاشرے کو بہت کچھ دینا ہوتا ہے۔ یہ میلہ ہر اعتبار سے ہمارا ہے۔ اسے اپنا سمجھنے کے بعد ہی ہم اس کی رونق میں اضافہ کرنے کے حوالے سے کچھ کرسکتے ہیں۔ نئی نسل کو یہ نکتہ ہر حال میں یاد رکھنا ہے کہ اُسے میلے کی رونق میں گم ہوکر مستقبل کے حوالے سے اپنا کردار فراموش کرنے کی بجائے جلد از جلد خود کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنا ہے‘ تاکہ عصری تقاضے نبھاتے ہوئے قابلِ رشک کارکردگی یقینی بنائی جاسکے اور مستقبل کو زیادہ سے زیادہ تابناک بنایا جاسکے۔ نئی نسل کو آنے والے زمانے کے لیے تیار کرنے والوں کو بھی یاد رکھنا ہے کہ اُن کی معیاری کارکردگی ہی پر نئی نسل کی بھرپور اور قابلِ رشک کامیابی اور میلے کی رونق کے برقرار رہنے کا مدار ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved