تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-02-2019

جذبات یا دانش؟

ایران نہ عرب، ملک کو دلدل سے نکالنا ہے تو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ بے شک عدل کے ساتھ۔ مگر خوف یاہیجان میں موزوں تجزیہ ممکن ہوتا ہے اور نہ کارگر حکمت عملی کی تشکیل۔ اللہ کی کائنات میں حکمرانی دانش کی ہے، جذبات کی نہیں۔
حکومت پہ نکتہ چینی بجا۔ اپنے گریباں میں بھی جھانکنا چاہئے۔ ستّر فیصد معیشت کالی ہے۔اربوں روپے کے پلاٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں میں خریدنے والے سیٹھ ایک دھیلا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ غریب آدمی ہرحال میں ادا کرتا ہے۔ چار چار کنال کے مکانوں میں بسر کرنے والوں کے بچّے مہنگے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ تعطیلات یورپ میں‘ بیگمات زیوروں سے لدی پھندی، قیمتی گاڑیاں۔ خورونوش اور شادی بیاہ پہ لاکھوں نہیں، کروڑوں کے اخراجات۔ مسلم برصغیر کے امراض میں سے ایک دکھاوا ہے، شان و شوکت کا اظہار۔
صحت مند معیشت کے لیے امن درکار ہے، استحکام اور ٹیکس کی ادائیگی۔ معیشت کے موجودہ حجم کے مطابق یہ بارہ ہزار ارب ہونا چاہئے۔ ایک ڈالر قرض کی ضرورت نہ رہے۔ پندرہ ارب ڈالر ہر سال آسانی سے واپس کیے جا سکیں۔ گلیوں میں آوارہ پھرتے اڑھائی کروڑ بچّے، درس گاہوں میں دمک سکیں۔ تعلیم کا معیار بھی بلند سے بلند تر ہوتا جائے۔
خیرمقدمی بینر اذیت ناک ہیں۔ مہمان کا اکرام پیغمبروں کی سنت ہے مگر ایسی لجاجت۔ غیر ملکیوں سے مرعوبیت اس خطۂ ارض کی خصوصیت ہے مگر احتیاج!۔ احتیاج شیر کو لومڑی بنا دیتی ہے۔ آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ اصل آزادی قلب و دماغ کی ہوتی ہے، محض خود حکمرانی کی نہیں۔ 
ایک قوم کا داخلی تصادم، خود شکنی کا بہترین نسخہ ہے۔ حکومت نے اپوزیشن رہنمائوں کو سرکاری عشائیے میں مدعو کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف فرقہ پرست گروہ، جو عربوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں لگے ہیں۔
ایران کی جائز شکایات کا مداوا چاہئے۔ سامنے کی سچائی مگر یہ ہے کہ کبھی کسی حال میں ہم سے وہ راضی نہ ہو سکا۔ اس وقت بھی نہیں، جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں، جب اسلحے سے لدی گاڑیاں بھیجی گئیں۔ جب کہ عراق سے جنگ جاری تھی۔ عین حالتِ جنگ میں ان کے پائلٹ پاکستان میں تربیت پاتے رہے۔پانچ برس ہوتے ہیں، یہی نو روز کے دن تھے۔ مشہد میں روزنامہ خراسان کے جواں سال مدیر سے ناچیز نے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ ایک سطر آپ کے اخبار میں، پاکستان کے حق میں نہیں چھپ سکتی؟ پاکستان میں تو بہت سے لوگ ایرانی انقلاب کے گن گاتے ہیں۔'' کچھ مسائل ہیں‘‘ اس نے کہا ''مثلاً عبدالمالک ریگی، جو بلوچستان کی سر زمین کو ایران کے خلاف استعمال کرتا ہے‘‘۔ عرض کیا: کیا آپ کو خبر نہیں کہ عبدالمالک ریگی کو ایران کے حوالے کیا جا چکا؟‘‘ وہ گڑبڑایا اور بولا: مترجم سے غلطی ہو گئی، اصل میں یہ اور وہ...
پاکستان ہی نہیں، عرب ہی نہیں، ترکوں سے بھی ایران کے مراسم خوشگوار نہیں۔ آذر بائیجان سے کشیدگی ہے، مشرق بعید کے مسلم ممالک انڈونیشیا اور ملائیشیا حتیٰ کہ وسطی یورپ میں بوسنیا سمیت کسی ایک سے بھی نہیں۔ صدام حسین کی قیادت میں ایران پر حملہ کر کے عربوں نے ظلم کا ارتکاب کیا تھا۔ عرب ایران کشمکش بارہ سو برس سے چلی آتی ہے، مگر پاکستان تو اس کا بد خواہ نہیں۔ سالِ گزشتہ اسلام آباد میں ایرانی سفیر کا پیغام ملا۔ از راہِ لطف وہ ملاقات کے خواہاں تھے۔ بہت ادب سے معذرت کر لی۔
بھارت سے ایران کی گاڑھی چھنتی ہے۔ اس کی خواہش بھی ہے کہ چاہ بہار کی بندرگاہ کو مستحکم کر کے، گوادر کو بے معنی کر دیا جائے۔ بے معنی ہو نہیں سکتی۔ ان سمندروں کو اس نے ڈھالا ہے، ذرے ذرے پر جس کا حکم اترتا ہے۔ چاہ بہار کے زمینی راستے سے وسطی ایشیا کا رخ کرنے والوں کو سولہ گھنٹے زاید صرف کرنا پڑتے ہیں۔ افغانستان میں مفاہمت کے امکان نے بھارت کو بوکھلا دیا ہے۔ اس کی نہیں امریکہ اور روس کی آرزو بھی یہ ہے کہ چین کو افغانستان سے دور رکھا جائے۔ 
افغانستان کی مٹی بانجھ ہے۔ ظہیر الدین بابر نے اپنی خود نوشت میں لکھا: اخراجات زیادہ، آمدن کم۔ اس خاک کے نیچے مگر سونے کے انبار پڑے ہیں۔ سونے سے کہیں زیادہ قیمتی دھاتوں کے۔ افغان قوم ایسے مفلس کی مانند ہے، جو سونے کے پلنگ پہ بھوکا پڑا ہو۔ مٹی میں ملی دولت کھودی جائے تو تاریخ میں پہلی بار افغان خوش حال اور خور سند ہوں۔ سینکڑوں برس تک عربوں ، ترکوں اور ایرانیوں نے اس خطّے پر حکومت کی ؛ تا آنکہ احمد شاہ ابدالی نے انہیں آزادی بخشی۔ قندھار میں اس کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے: ''شاہِ افغانستان و ترکمانستان‘‘۔ 
دو ہزار برس پہلے، وادی سندھ پر ایرانیوں کی حکومت تھی تو یہ خطہ خراسان کہلاتا، اس قدیم شہر ملتان تک۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان ہے کہ آخری زمانے میں لشکر خراسان سے اٹھیں گے اور دمشق میں یہودیوں کا صفایا کر دیں گے۔ دوسری طرف سے ترک آئیں گے۔ منکرینِ حدیث پہ اللہ رحم کرے، رحمۃ للعالمینؐ کا فرمان اصحاب ؓ نے تب سنا ،ہندوستان اور ترک سر زمینوں میں جب ایک بھی مسلمان موجود نہ تھا۔
پلوامہ حملے کے ہنگام، نیشنل گارڈز کے ایرانی سربراہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی سر زمین تہران میں تخریب کاری کے لیے برتی گئی۔ ایران میں دہشت گردی اتنی ہی قابلِ نفرت ہے، جتنی پاکستان یا کسی بھی دیس میں۔ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ قاتل جہنم میں ڈالے جائیں گے، پروردگار کے عتاب کا شکار ہوں گے۔ جس نے ایسا کیا ہے تو وہ بھگت لے گا، عرب پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔ گز بھر کا اسرائیل پون صدی سے ان پر تازیانے برساتا ہے۔ 
مگرپاکستان کا گناہ کیا ہے؟ امریکی سرپرستی میں بلوچستان میں بھارتی اور افغان دہشت گردی کو روکنے کے لیے، پاکستان 2470 کلو میٹر طویل دہری آہنی باڑ نصب کر رہا ہے، خندقیں کھود رہا ہے۔ راتوں کی سیاہی میں افغان سر زمین سے حملہ آور، ویرانوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ایران سے بھی، جی ہاں کل بھوشن یادیو ایران سے آیا تھا۔ سپہ سالار جنرل راحیل نے ایرانی صدر سے اس پر احتجاج کیا تو وہ گڑبڑا گئے تھے۔
یمن میں، بحرین میں، شام اور لبنان میں، ایران کا عربوں سے تصادم ہے۔ ہم اس میں فریق نہیں۔ الحمدللہ ہماری سول سروس اور فوج میں فرقہ واریت کا گزر نہیں۔ سکندر مرزا، یحییٰ خان، موسیٰ خان اور آصف علی زرداری سمیت ، ایک مکتب فکر کے لوگ حکمران اور سالار رہے۔ دوسرا کوئی اعتراض ہو تو ہو، مسلک کا کبھی نہ تھا۔ ہونا بھی نہیں چاہئے کہ یہ جہل کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ بی بی سی کے نامہ نگار نے قائداعظم سے پوچھا: To which school of thought you belong? فرمایا: جس سے اللہ کے آخری رسولؐ کا تعلق تھا۔
بھیک کے لیے پھیلے 22 کروڑ پاکستانیوں کے ہاتھوں کو دیکھ کر دل رو دیتا ہے۔ دانائے راز کے اس فرمان کی پوری معنویت آج اجاگر ہوئی۔ 
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے 
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
یمن کی جنگ میں ہم فریق ہیں نہ انشاء اللہ کبھی ہوں گے۔ عرب اس میں حق پر ہیں اور نہ ایرانی۔ بیچارے یمنی بھگت رہے ہیں مگر سعودی عرب کو اصل خطرہ اسرائیل سے ہے۔ اسرائیل کے سرپرست امریکہ پر انحصار نے انہیں اپاہج کر رکھا ہے۔ پاکستان سے دو ایک لاکھ فوج کی وہ استدعا کر چکے۔ ہم ایران کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا بھارت سے معانقہ فرماتے تہران کے اہل ِتقویٰ نے کبھی کشمیر میں کٹنے مرنے والوں پہ ترس کھایا؟ ہماری کبھی پروا کی؟ ریاض کے حکمران زراعت کیلئے، دو لاکھ ایکڑ چاہتے ہیں ،ریگستان میں۔ دو لاکھ کیا، دس لاکھ ایکڑ دے دیئے جائیں۔ اس ایک شرط پر کہ اتنی ہی مزروعہ اراضی میں وہ فوارے‘ نصب کر دیں گے۔ 80 فیصد پانی بچ رہے گا۔یافت 40 فیصد بڑھ جائے گی۔بلوچستان، سرائیکی پٹی ، پنجاب اور سندھ میں ، اڑھائی کروڑ ایکڑ زمین پیاسی پڑی ہے۔
ایران نہ عرب، ملک کو دلدل سے نکالنا ہے تو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ بے شک عدل کے ساتھ۔ مگر خوف یاہیجان میں موزوں تجزیہ ممکن ہوتا ہے اور نہ کارگر حکمت عملی کی تشکیل۔ اللہ کی کائنات میں حکمرانی دانش کی ہے، جذبات کی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved