تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-04-2013

انتقام میں مزہ تو بہت ہے لیکن…

ہم نے کام بہت سہیڑ لیے ہیں۔ کیا انہیں نبیڑ پائیں گے؟ انتخابات پورے ملک کی چولیں ہلا دیتے ہیں۔ ہم نے صرف ایک بار عام انتخابات کھلے ماحول میں کرائے تھے۔ ان کے دوران ہمارا سارا سیاسی‘ معاشرتی اور انتظامی ڈھانچہ بکھر گیا تھا اور پھر یوں ہوا کہ اسے بکھیرنے والے ‘ خود بوکھلا گئے اور ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ سماجی‘ معاشی اور انتظامی ڈھانچے کے بکھرے ہوئے تنکوں کو چن کر دوبارہ ترتیب سے کس طرح لگائیں؟ہم سب کچھ بکھیر کے بیٹھ گئے اور دشمن نے اطمینان سے آگے بڑھ کر ہمارے نصف سے زیادہ ملک پر قبضہ کر لیا۔ ہمارے ہزاروں سپاہیوں کو قیدی بنایااور 5ہزار مربع میل سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لیا۔منتخب وزیراعظم نے ریزہ ریزہ ہوکے بکھیرے ہوئے‘ اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے چن کر‘ انہیں جوڑا ۔ دو آمروں نے 14سال لگا کر جو تباہی پھیلائی تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے صرف 14 مہینے میں اسے جوڑ کر بحالی کے راستے پر ڈال دیا اور 1977ء تک پاکستان دوبارہ ایک قابل عمل ملک بن چکا تھا۔ پاکستان اور بھارت ،جو آزادی کے بعد صرف 24برسوں کے دوران کئی جنگیں لڑ چکے تھے، باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ عظیم لمحہ آ گیا‘ جب برصغیر کے لیے امن‘ ترقی اور خوشحالی کے نئے نئے راستے کھولے جا سکتے تھے۔ یہ تھا افغانستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب کا ظہور، جب کابل کے شاہی خاندان کو اقتدار کے محلات سے نکال باہر کیا گیا اور انقلابی لیڈروں نے افغانستان میں عوامی حکومت قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوتے‘ تو وہ اس تاریخی لمحے کو افغانستان‘ برصغیر اور وسطی ایشیا میں آباد کروڑوں انسانوں کو تعاون اور ترقی کے راستے پر ڈال کر ایک نئی دنیا آباد کرنے کی راہیں نکالنے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ نور محمد ترکئی پاکستان کے لیے اجنبی نہیں تھے۔ وہ ایک عرصے تک پشاور میں رہ چکے تھے اور صوبہ خیبرپختونخوا کی اشرافیہ اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ افغانستان اور پاکستان کے عوام میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ ہمارے تہذیبی اور تاریخی رشتے بہت قدیم اور قریبی تھے۔ افغان عوام کے انقلاب کا خیرمقدم کر کے‘ ہم ان رشتوں کو مزید تقویت دے سکتے تھے اور باہمی تعاون کا راستہ اختیار کر کے عوامی اتحاد کے ذریعے‘ خطے میں قیام امن کے نئے امکانات کو حقیقت میں بدل سکتے تھے۔ افغانستان کی انقلابی قیادت اور ذوالفقار علی بھٹو کی فہم و فراست کی یکجائی‘ خطے میں تعاون کی ایک نئی فضا کو جنم دے سکتی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ افغانستان کا انقلاب برپا ہوتا‘ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور امریکہ کے ایک آزمودہ پٹھو کو‘ جس نے فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں کر کے ‘ امریکہ اور اس کے حاشیہ برداروں کا اعتماد حاصل کر لیا تھا‘ پاکستان میں نئی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تیار کیا گیا اور پھر ہماری ہی سرزمین کو افغانستان کی عوامی حکومت کے خلاف سازشوں کا مرکز بنا کر ‘ ایک ایسی جنگ کا آغاز کر دیاگیا‘ جس سے ہم آج تک نکل نہیں پائے اور خدا جانے کب تک اس جنگ کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ امریکہ نے ضیاء الحق کو آلہ کار بنا کر ‘ سوویت یونین سے ویت نام کی شکست کا انتقام ‘ افغانستان میں لے لیا اور سوویت افواج کی افغانستان سے پسپائی کے ساتھ ہی خود بھی اس خطے سے لاتعلق ہو گیا۔ لیکن دو سپرپاورز کی جنگ ختم ہونے کے بعد ہم نے تباہی و بربادی کی جو مشینری تیار کی تھی یعنی مجاہدین کے نام پر بے مغز اور بے سمت مسلح گروہ ‘ وہ ہمارے گلے پڑ گئے۔ ہم نے اپنے ملک کی قیمت پر نام نہاد مجاہدین کے جو گروہ تیار کیے تھے اور جنہیں استعمال کر کے ضیاء الحق نے افغانستان پر اپنی ایک پٹھو حکومت قائم کرنے کی کوشش کی‘ وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے اور ساتھ ہی شمال کے جنگجوئوں کے ساتھ نئی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ زدہ افغانستان میں عالمی دہشت گردوں نے اپنے پنجے گاڑ لیے اور نیویارک میں دہشت گردی کے ایک بڑے منصوبے پر عمل کر کے ‘ایک سپرپاور کو مشتعل کیا اوراس نے غضبناک ہو کر افغانستان میں فوجیں اتار دیں۔ تب تک پرویزمشرف ملک پر قبضہ کر چکا تھا۔ آمریتوں نے ہمیں جس عذاب میں ڈال دیا تھا‘ اس کی آگ ابھی تک بجھنے میں نہیں آ رہی۔ آج ہماری یہ حالت ہے کہ روز پاک فوج کے جوان اور سپاہی امن قائم کرنے کے لیے ‘ اپنے ہی ملک کے اندر جام شہادت نوش کر رہے ہیں اور ملک کے دوسرے حصوں میں پُرامن شہری‘ گو لیوں‘ بموں اور راکٹوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سرمائے نے ہمارے ملک سے منہ پھیر لیا ہے۔ بڑی صنعتیں اور کارخانے لگنا بند ہو چکے ہیں۔ ہماری قومی آمدنی‘ ہماری ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہ گئی۔ دنیا جو ہمیں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر کے خیرات دے دیا کرتی تھی‘ اب اسے ہم سے کوئی کام نہیں رہا۔ ہمارے عاقبت نااندیش حکمران‘ جو یہ باور کیے بیٹھے تھے کہ امریکہ اپنی فوجوں کی واپسی کے لیے ہمارا محتاج ہو گا اور ہم ایک بار پھر اپنی خدمات کا معاوضہ وصول کر کے‘ عیش کریں گے۔ وہ خواب بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری‘ جنہیں ہمارے حکمران‘ اپنا دوست سمجھتے ہیں‘نے بھی آج لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ہے کہ افغانستان سے ہماری فوجوں کے انخلا میں بھارت کا کردار زیادہ موثر ہو گا اور بعد از انخلا‘ افغانستان کی صورتحال پر کنٹرول پانے کے لیے‘ امریکہ اور بھارت پہلے ہی سے مل کر انتظامات کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج بھارت اور امریکہ کے تعلقات وہی نوعیت اختیار کر چکے ہیں‘ جو 1970ء میں سوویت یونین اور بھارت کے تعلقات کی تھی۔ جب 1970ء کے انتخابات ہوئے‘ اس وقت پاکستان اتنی بری حالت میں نہیں تھا‘ جس میں آج ہے۔ تب ہماری فوج بھی منظم‘ مستحکم اور کسی طویل جنگ کے نقصانات سے محفوظ تھی۔ ملک کا وہ حصہ ‘ جہاں جی ایچ کیو واقع تھا‘ انتہائی پُرامن تھا۔ ہماری صنعتیں تیزی سے ترقی کر رہی تھیں۔ معیشت عالمی تعاون کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ اس کے باوجود انتخابی مہم کے دوران شکستگی کے آثار ابھرنے لگے۔ ایک بحران کا پیدائشی عمل شروع ہونے لگا اور جیسے ہی انتخابات کے نتائج آئے‘ وہ بحران سطح پر نمودار ہو گیا اور پھر پاکستانی ریاست کو تشکیل دینے والے‘ وہ سارے عناصر تنکوں کی طرح بکھرنے لگے‘ جو کسی بھی ملک کے استحکام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ آج ہم انتخابی عمل میں اتر چکے ہیں۔ فاٹا میں باغیانہ مزاحمتوں کو دبانے کے لیے فوج کی ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کراچی میں رینجرز‘ جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گردوں کا سامنا کر رہی ہے اور خدانخواستہ بدنظمی میںاضافہ ہوا تو براہ راست فوج کی مداخلت لازم ہو جائے گی۔ بلوچستان میں انتخابی عمل معطل یا منسوخ ہونے کا نتیجہ شدید خونریزی کی صورت میں نکلے گا۔ خیبرپختونخوا میں پہلے ہی جنگ کی صورتحال ہے۔ پنجاب میں دہشت گردی کا عفریت کسی بھی وقت سر اُٹھا سکتا ہے۔ ملک اور صوبوں میں نگران حکومتیں بیٹھی ہیں‘ جن کے سر کے اوپر آسمان نہیں اور پیروں کے نیچے زمین نہیں۔ ان کی قوت فیصلہ نگران وزیرِاعظم کے اعصاب کی طرح ’’مضبوط‘‘ ہے۔ ایسی حالت میں ہم نے پاک فوج کے سابق سربراہ پرویزمشرف کو دبوچ کر‘ اس کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا ہے‘ جو ہمارے دو منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ کیا گیا تھا۔ انتقام کے جذبے میں بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن اس جذبے کی تسکین کے لیے حکمت عملی سے کام نہ لیا جائے تو یہ انتقام کا ہدف بننے والے سے زیادہ‘ انتقام لینے والے کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔پرویزمشرف کتنے ہی ناپسندیدہ حکمران رہے ہوں‘ آج وہ ایک نہتے اور بے اختیار انسان ہیں۔ لیکن پاک فوج کے سابق سربراہ کی حیثیت سے ان کی شناخت آج بھی باقی ہے۔ ایک ایسی فوج جو بالواسطہ یا بلاواسطہ 33سال سے جنگ میں مبتلا ہو اور مسلسل قربانیاں پیش کر رہی ہو اور اس کی ایک شناخت کو اس طرح گلیوں میں پامال کیا جا رہا ہو‘ اس پر کسی ردِعمل کا پیدا نہ ہونا‘ غیر فطری ہو گا۔ ہمارے جو بھی عناصر پرویزمشرف سے اپنا اپنا انتقام لے رہے ہیں‘ وہ غیرشعوری طور پر ملک کو ایک بڑے بحران کی طرف دھکیلنے میں لگے ہیں۔ میں نہیں جانتا یہ بحران کب اور کس طرف سے نمودار ہو گا؟ لیکن ایک بات میں یقین سے کہوں گا کہ اس بحران کا پیدا ہونایقینی ہے۔ اگر اس کی نشوونما کو روکنے کے لیے ابھی سے ہنگامی تدبیریں نہ کی گئیں‘ تو اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے دامن کے چاک اور گریباں کے چاک

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved