تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     18-02-2019

بدلتے موسموں کا دیس

بکرمی سال 2075 کا مہینہ ماگھ رخصت ہوا۔ اور ساتھ ہی شدید سردی کا موسم بھی۔ آج پھاگن کی 7 تاریخ ہے اس لیے بارشیں ہوں تو ٹھنڈ‘ دھوپ نکل آئے تو خُنّک موسم۔ پاپولر، پلواہ، کھجی، پائن سمیت پودے اور سبزہ پھوٹ پڑنے کو بے تاب ہیں۔ شگوفے اُمَڈ پڑے ہیں۔ یخ بستہ ہوائیں بادِ بہاری میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ کسانوں اور ڈھور ڈنگروں کے لیے سبزے کی آمدِ ثانی سالانہ خوشخبری سے کم نہیں ہوتی۔ شہرِ اقتدار کی مارگلہ ایونیو پر پیلے رنگ کی چنبیلی کے جلد باز پھول آمدِ بہار کا اعلان کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی پچھلے 4 روز میں اس قدر سیاسی شگوفے پھوٹے کہ تجزیہ کار نما سیاسی اداکار چکرا کر رہ گئے۔ کرپشن کے گرفتارِ اعلیٰ کے سیاسی جہاد کی ڈھیل نکل گئی‘ جس کا گواہ وہ جسمانی ریمانڈ اور جوڈیشل کسٹڈی ہے‘ جس کے 131 دنوں میں سے صرف 5 دن کا عرصہ میگا کرپشن کے اس حوالاتی کا نیب کے حصے میں آیا۔ جب کہ دنیا کی اس انوکھی جیل یاترا کا باقی سارا عرصہ سرکاری بنگلے میں گزر گیا۔ آپ کے بجٹ سے، آپ کے خرچ پر۔ ایسی انوکھی قید پر اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کوئی احتساب ہوتا ہے، کوئی جیل ہوتی ہے۔ جیسے کوئی شرم ہوتی ہے، جیسے کوئی حیا ہوتی ہے۔ 
دوسرا سیاسی شگوفہ جناح ہسپتال لاہور کے گائنی وارڈ کی یاترا میں سے نکل آیا۔ تاریخِ آدم کے سب سے لاڈلے سزا یافتہ قیدی والا۔ جس نے ٹی وی کیمروں کی پوری بٹالین۔ محافظوں کی پوری کمپنی اور رپورٹروں کے پورے برگیڈ کے ساتھ اپنی قید کے لیے کمرے کی چوائس کی۔ وی آئی پی وارڈ رَدّ ہوا۔ وی وی آئی پی سویٹ پسند نہ آیا۔ کارڈیالوجی کی سہولت قابلِ رہائش نہ سمجھی۔ دل لگا، تو وہ بھی جا کر گائنی وارڈ کے ایچ او ڈی والے دفتر سے‘ جس کی میز کرسیاں، مریضوں کا ریکارڈ اور علاج کے اَوزار سب بے چارے سٹور روم میں پہنچائے گئے۔ پھر یوں اپنے اسلامی جمہوریہ میں قانون اور دستور کی بالا دستی قائم ہو کر رہ گئی۔ کیا آج کی دنیا میں کوئی دوسرا، ایسا غازی مرد ہے‘ جو سزا یافتہ بھی ہو‘ اور اس قدر ڈھیل یافتہ بھی۔ یہ سوال آپ سے ہے اور اپنے آپ سے بھی۔
اسی ہفتے برادر اسلامی ملک کنگڈم آف سعودی عریبیہ کے وزیرِ اعظم محترم کرائون پرنس محمد بن سلمان کی تشریف آوری بھی ہوئی۔ مرحبا! یا ضیوف الکرام و صاحب السموء الملکی۔ جی آیاں نوں۔ پاک سعودی تعلقات میں محمد بِن سلمان کا دورہ ایک نیا سنگِ میل ہے۔ ساتھ عمران خان ایسا وزیرِ اعظم‘ جسے دُبئی اور لندن میں اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے بادشاہ سے بھیک چاہیے‘ نہ ہی جدہ میں عزیزیہ سٹیل ملز جیسا خاندانی کارخانہ لگانے کے لیے شاہی قرضہ۔ اس لیے آنے والے جانتے ہیں‘ وہ ایک برادر اسلامی ملک میں اہلِ وطن کے لیے آ رہے ہیں‘ اہلِ اختیار و اقتدار کے لیے نہیں۔ ساتھ اُنھیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کے پاس ایسی دولت کے ذخیرے ہیں‘ جو ایشیا میں اور دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے ملک کو نصیب ہوں۔ ان میں سے ایک ہے پاکستان کی سٹریٹیجک لوکیشن؛ دوسرے‘ پاکستان کی کل آبادی میں سے 65 فیصد یوتھ۔ زرخیز ہائی لینڈز، اونچے پہاڑ‘ تیل اور گیس کے ذخیرے‘ جن میں سے اکثر کو ابھی تک ہاتھ ہی نہیں لگایا گیا۔ جسے اس بات پر یقین نہ آئے وہ کے پی، کے ضلع کرک چلا جائے یا پوٹھوہار کے گائوں پنڈوری۔ یا پھر ایاز امیر صاحب والے چکوال کے قصبے بھون جہاں 1947ء سے پہلے ہوائی سٹرپ بھی ہُوا کرتی تھی۔ اسی تسلسل میں مجھے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بِن زید النہیان کا سٹیٹ ڈنر یاد آ گیا‘ جس میں ایک ٹیبل پر ہمارے ایئر چیف سہیل امان خان ملک اور متحدہ عرب امارات کے اہم ترین فوجی افسران، وزیرِ دفاع سمیت عرب شیوخ بیٹھے تھے‘ جن کی طرف سے اُٹھائے گئے ایک سوال کا جواب مجھے ریفر کیا گیا۔ سوال یہ تھا: پاکستان میں فروٹ اُگانے کے لیے کس علاقے میں زمین خریدنا مناسب ہو گا؟ یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے انویسٹرز بھی یہاں زمین خرید رہے ہیں‘ کیونکہ وہ ہماری زرعی زمین کو جادو نگری سمجھتے ہیں‘ جہاں دنیا کا ہر پھل، ساری سبزیاں اور اناج قدرتی طور پر اُگائے جا سکتے ہیں‘ یعنی ''Organic‘‘ طریقے سے۔ گہرے سمندر کے پانیوں پر۔ کراچی سے گوادر تک کوسٹل ایریا اور مُسلم دنیا کی سب سے بڑی پروفیشنل سپاہ۔ گھر کے بنے ہوئے اِنٹر کانٹینیٹل بیلسٹک میزائل، ہوم مِیڈ فائٹر طیارے، ٹینک اور ایٹمی صلاحیت۔ اسی لیے جدید سعودیہ کے لیڈر پرنس محمد بِن سلمان اور نئے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے مستقل معاشی پارٹنرشپ کا ادارہ سپریم کوآرڈی نیشن کونسل بنا ڈالی ہے (P.S.A,S.C.C)۔ یہی دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ گیر اکنامک اشتراک پر مبنی نئے تعلق کا نقطۂ آغاز ہے۔ یہ اشتراک پاکستان میں معاشی نمو کو نئی بلندیوں تک پہنچائے گا۔
اسی ہفتے پاک سعودی مشترکہ سپریم کوآرڈینیشن کونسل کے قیام سے کچھ حلقے پہلے چھلکے اب پریشان اور ہلکان ہیں۔ اس حوالے سے بھی کئی شگوفے پھوٹے۔ ہمارے 2 پڑوسی ملکوں میں وحشت گری کے المناک واقعات رونما ہوئے۔ دونوں نے کسی تفتیش یا تحقیق سے پہلے ہی پاکستان پر الزام دَھر چھوڑا۔ ساتھ اس الزام پر دھمکیوں کا مِرچ مصالحہ بھی ڈال دیا۔ بھارت کے اندر سے اس الزام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اہلِ قلم، اہلِ سیاست، اہلِ حرب و ضرب‘ حتیٰ کہ فاروق عبداللہ صاحب نے بھی اِسے مشکوک جانا۔ عالمی میڈیا پر اس الزام تراشی نے بھارت کی واٹ لگا دی۔ عادل ڈار نامی نام نہاد دہشت گرد 2017 سے بھارتی فوج کی زیرِ حراست نکلا۔ اس گرفتاری کی خبریں کشمیری اور بھارتی میڈیا نے پہلے سے چھاپ رکھی ہیں۔ عادل ڈار کے پاس دکھایا گیا اسلحہ امریکی ساختہ ہے جب کہ بارود بھارت کا تیار کردہ نکل آیا۔ ویسے بھی دنیا جانتی ہے سمجھوتہ ایکسپریس سے اجمل قصاب تک بھارت اپنے لوگوں کو خود ہی مار کر پاکستان پر الزام دھرنے کا بھرپور تجربہ اور مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ مودی کا ذہن ان معاملات میں سب سے تیز چلتا ہے۔ گجرات میں مُسلم قتلِ عام سے لے کر ایودھیا میں بابری مسجد تک‘ سب مودی کی C.V کا خونیں باب ہیں۔
اگلا شگوفہ پیڈ کنٹینٹ والے سیاسی فن کاروںکا تیار کردہ ہے۔ محمد بِن سلمان کی آمد کے موقع پر بے چاروں نے ہند سے پرشیا تک چارج شیٹ تیار کی۔ دلیل یہ تھی کہ سعودیہ کے ساتھ نئے سٹارٹ کی سب سے شاندار ریسپی ہے۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھ میں یہ ریسپی کسی ''شیف‘‘ نے تھمائی۔ کچھ دوسرے اسے قدیم دوستی کی بنیادی اینٹ سمجھ بیٹھے۔ اِن بھولے بادشاہوں کے لیے عرض ہے: Nation State کے دور میں ریاستوں کے تعلقات رومانس کی طرح غیر مشروط نہیں ہوتے۔ نہ ہی کوئی عالمی لیڈر عشق میرا ناں والے سجن بے پروا کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ملک مسلم ہوں یا غیر مسلم‘ باہمی مفاد ہی انہیں آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں ریاست کی کریڈیبلٹی اس کے لوگوں کے ذریعے نہیں‘ بلکہ اس کے لیڈر کے کردار کے ذریعے متعین ہوتی ہے۔ ہم اس کرۂ ارضی پر رہتے ہیں‘ جہاں 192 دوسرے ملک بھی موجود ہیں۔ ہمارے علاوہ ہر دوسری آئینی ریاست میں حکمران تاجر ہو سکتا ہے نہ ہی کوئی تاجر حکمران۔ ریاست کی سربراہی اور کاروباری ایمپائر کی ملکیت کھلا، کھلا ''Conflict Of Intrest‘‘ ہے۔ جہاں حکمران تاجر بن جائیں وہاں غیر ملکی انویسٹرز تجارت کرنے سے ڈرتے ہیں۔ پچھلے 3 عشروں سے پاکستان کا یہی المیہ رہا۔ 2 شگوفے اور بھی قابلِ توجہ نکلے۔ ایک پُر لطف اتفاق یوں ہوا کہ F.A.T.F سے پاکستان کے مذاکرات۔ ایران کے بندرگاہی شہر چاہ بہار کا حسین مبارک پٹیل اپنے اصلی نام کلبھوشن یادیو سے بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں کھڑا ہے‘ جہاں آج اس کی تاریخِ پیشی برائے سماعت مقرر ہے۔ کیا آپ اسے محض اتفاق کہنا پسند کریں گے کہ اس موقع پر بھارت کے مودی اور ایرانی فوج کے سربراہ نے ایک جیسا الزام پاکستان کو دیا۔ پاکستان بدلتے موسموں کا دیس ہے۔ اس لیے یہاں بھنورے بھی لہرائیں گے اور شِکرے بھی جھپٹیں گے۔ کروڑوں، اربوں سالوں سے قدرت کا قانون اٹل ہے۔ آتی بہار کو کبھی کون روک سکا۔
یزداں نے مسکرا کے بڑی دیر میں لکھا
اِک لفظِ آرزو مرے دل کی کتاب میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved