تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-02-2019

اعتدال کہاں منہ چھپائے بیٹھا ہے؟

لوگ سیاست کو رویا کرتے تھے کہ وہاں کسی بھی معاملے میں توازن دکھائی نہیں دیتا۔ اہلِ سیاست کے رویوں میں توازن کا پایا جانا بسا اوقات خوش گوار حیرت کا سبب بنتا تھا۔ ایک زمانے سے ہم دیکھتے آرہے تھے کہ اہلِ سیاست جب اپنی پر آتے ہیں تو ہر منطقی حد سے گزر جاتے ہیں‘ پھر یوں ہوا کہ پورے معاشرے کی عمومی روش انتہا پسندی سے عبارت ہوگئی۔ بات بات پر مشتعل ہو جانا محض سیاست دانوں‘ وڈیروں‘ جاگیر داروں یا انڈر ورلڈ کے لوگوں کا وتیرہ نہ رہا۔ ذرا سی بات پر بدکنا‘ بھڑکنا عوام کے مزاج کا حصہ بنتا گیا اور دو عشروں کے عمل میں معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اب اگر کسی معاملے میں سنجیدگی اور شائستگی سے بات کرے تو لوگ پلٹ کر حیرت سے دیکھتے ہیں۔
ایک دور تھا کہ انسان اچھی طرح جانتا تھا کہ کس بات کو کہاں تک جانے دینا ہے اور کس بات پر آپے سے باہر ہونا ہے۔ بات بات پر آپے سے باہر ہو جانے والوں کو ذہنی مریض تصور کیا جاتا تھا۔ یہ معاملہ تعلیم سے کہیں بڑھ کر تربیت کا تھا۔ گھر‘ گلی اور خاندان میں انسان کو غیر محسوس انداز سے سکھایا جاتا تھا کہ معاملات کو اُن کی منطقی حدود میں رکھنا لازم ہے اور یہ کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں صرف خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
زندگی کا ہر معاملہ درست رہنے کے لیے اعتدال کا محتاج ہے۔ درمیانی روش اپنائے بغیر انسان ڈھنگ سے بڑھ نہیں سکتا۔ اعتدال ہو تو زندگی میں توازن برقرار رہتا ہے‘ مگر ہاں‘ اعتدال کی راہ پر گامزن رہنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس راہ میں بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے‘ قدم قدم پر ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ تعلیم اور تربیت دونوں کے معیار کا اعلیٰ ہونا لازم ہے۔ تربیت میں چند آنچ کی کسر رہ جانے سے زندگی بھر الجھنیں دامن گیر رہتی ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود تربیت کے حوالے سے ناپختگی کا مظاہرہ کرنے پر مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ تربیت میں رہ جانے والی کمزوریاں تعلیم کو بھی داؤ پر لگادیتی ہیں۔
آج کا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اعتدال کس کونے میں منہ چھپائے بیٹھا ہے۔ آخر ایسا کیا ہوگیا ہے کہ جسے دیکھیے وہ اعتدال کی راہ سے ہٹ کر کسی نہ کسی حوالے سے انتہا پسندی کو گلے لگائے ہوئے ہے؟ ہم اپنے بیشتر معاملات میں شدید مشکلات سے صرف اس لیے دوچار ہوتے ہیں کہ جہاں اعتدال کا مظاہرہ کرنا ہو وہاں بھی شدت پسندی کو بہترین آپشن سمجھ کر اپنا بیٹھتے ہیں اور جہاں ایک خاص حد تک شدت پسندی دکھانا ہو‘ وہاں حد سے گزر جاتے ہیں۔ جب مجموعی رویہ انتہا پسندی کا ہو تو معاملات کا بگڑنا کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں لگتا۔ ہر معاملہ ہم سے مجموعی طور پر معتدل رویے کا طالب ہوتا ہے۔ ہم اور یہ دنیا کیا‘ پوری کائنات اعتدال کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ اعتدال ہی سے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ ہم آہنگی کس کیفیت کا نام ہے؟ جب ہم کسی بھی معاملے میں بہت پیچھے نہ رہیں اور بہت آگے بھی نہ بڑھیں‘ تب ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ عمیق غور و و فکر کی صورت میں آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہر معاملے میں معتدل رویہ ہی حوصلہ افزاء نتائج کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ہم جیسے ہی اعتدال کا دامن چھوڑتے ہیں‘ معاملات خرابی کی طرف جانے لگتے ہیں۔ معاشرے یا ماحول کی عمومی روش اعتدال کی نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ شعوری کوشش کے بغیر ہم میں اعتدال پسندی پیدا بھی نہیں ہوتی۔
بیشتر معاشرتی اور معاشی معاملات میں میانہ روی غیر معمولی مثبت نتائج پیدا کرتی ہے۔ نفسی امور میں بھی میانہ روی ہی درست طریق ہے۔ مجموعی طور پر پوری زندگی ہی ہم سے اعتدال چاہتی ہے‘ مگر بعض معاملات میں اعتدال جادو کا سا اثر رکھتا ہے۔ معاشرتی تعلقات اور بالخصوص قریبی رشتوں میں اعتدال کا دامن تھامے رہنے سے معاملات خرابی سے محفوظ رہتے ہیں۔
آج پاکستانی معاشرہ شدید عدمِ اعتدال کی گرفت میں ہے۔ عمومی رویوں میں انتہا پسندی اس حد تک در آئی ہے کہ بہت سوچنے اور کوشش کرنے پر بھی معاملات کو درست کرنے کی راہ نہیں سُوجھتی اور کبھی کبھی تو معاملات کا کوئی سِرا ہاتھ ہی نہیں آتا۔ روزمرہ معاملات میں بھی لوگ اعتدال کا دامن چھوڑنے میں دیر نہیں لگاتے۔ معمولی باتوں پر بھی بھڑک اٹھنا‘ آپے سے باہر ہو جانا عام سی بات ہے۔ کسی چھوٹے سے نقصان پر اِتنا شدید ردِ عمل ظاہر کیا جاتا ہے کہ غیر معمولی نقصان واقع ہوکر رہتا ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ لوگ بار بار نقصان سے دوچار ہوکر بھی معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن نہیں ہوتے‘ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے پر مائل نہیں ہوتے۔
ہمیں یومیہ بنیاد پر کئی ایسے کام کرنے ہوتے ہیں ‘جن میں اعتدال کا دامن چھوڑنے کی صورت میں معمولی سا معاملہ بھی کسی بڑے نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔ گفتگو‘ عمل اور ردِ عمل تینوں میں ہمیں غیر معمولی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ گفتگو کے حوالے سے احتیاط نہ برتنے کی صورت میں عمل متوازن نہیں رہتا اور یوں ہمیں ردِ عمل بھی جھیلنا پڑتا ہے۔
گھر سے باہر دیکھیے تو رشتہ داروں‘ پڑوسیوں‘ دوستوں اور معاشی سرگرمیوں کے ساتھیوں سے تعلقات متوازن رکھنا تنے ہوئے رسّے پر چلنے جیسا عمل ہے۔ توازن بگڑا اور گئے نیچے۔ کبھی کبھی اعتدال کی راہ سے بھٹکنے کے بعد منہ سے نکلنے والا محض ایک لفظ برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیتا ہے اور کبھی کبھی یہ نقصان ایسے غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ہے کہ ہمیں خاصی دیر کے بعد کچھ معلوم ہو پاتا ہے۔
مطالعہ کیجیے‘ مشاہدے کی منزل سے گزر جائیے یا پھر دنیا گھوم کر دیکھ لیجیے ... آپ بالآخر اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ زندگی کے بازار میں سِکّہ‘ اگر چلتا ہے تو اعتدال کا‘ توازن کا۔ جہاں توازن اور اعتدال نہ ہو وہاں صرف خرابیاں ڈیرے ڈالتی ہیں۔ نجی‘ معاشرتی اور معاشی ... تینوں طرح کے معاملات میں توازن ہی کے دم سے خرابی کی راہ مسدود ہو پاتی ہے۔
ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں ‘وہ اس اعتبار سے بہت عجیب ہے کہ محض ایک کوتاہی غیر معمولی پس ماندگی کا سبب بن جاتی ہے۔ فی زمانہ ہر شعبہ غیر معمولی دباؤ کے نشانے پر ہے۔ ہر انسان مختلف جہتوں سے آنے والے دباؤ اور تناؤ کی زد میں رہتا ہے۔ ایسے میں فکر و نظر اور ذوقِ عمل کو متوازن رکھنا فن کا درجہ اختیار کرگیا ہے‘ جو اس فن میں مہارت رکھتا ہے وہی کامیابی کی طرف بڑھتا ہے۔ عمومی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ لوگ ذرا سے دباؤ کے سامنے بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
آج کی زندگی اپنی تمام جہتوں کے حوالے سے اس امر کی متقاضی ہے کہ معاملات کو درست رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی جائے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے لٹریچر شائع ہوتا ہیں‘ لیکچرز دیئے جاتے ہیں اور ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں۔ زور اس نکتے پر ہے کہ انسان خود کو اعتدال کی راہ پر گامزن رکھے اور کسی بھی معاملے میں بے جا طور پر ڈُھل مُل رویہ اختیار کرکے معاملات کو خرابی کی طرف نہ دھکیلے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved