تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-02-2019

تاریخ کے سبق

اس کے دربار میں صرف عاجزی کا سکہ کھرا ہے‘ انکسار اور خلوص کا۔
تاریخ نہیں پڑھتے‘ ہم تجزیہ نہیں کرتے۔ لیڈرانِ کرام کا ذکر ہی کیا۔ ہم اخبار نویسوں‘ شاعروں اور ادیبوں کی بات ہی کیا‘دیکھا کہ ڈاکٹر خورشید رضوی ایسی مستثنیات کے سوا‘ نامور سکالر بھی بیتے زمانوں کو کھنگالتے نہیں۔ مجھ سے معمولی آدمی الجھے رہیں تو تعجب کیا‘ گاہے وہ بھی عظیم مغالطوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ کبار صوفیا اور ماضی کے بعض روشن چراغ بھی‘ جن سے رہنمائی کی ہم تمنا رکھتے ہیں۔
کیا یہ ہمارے قومی مزاج کا مسئلہ ہے؟
قرآن کریم ہے۔ سحر دم کسی ایک آیت پر غور کر لیا جائے‘ تو معانی کے کتنے جہان روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حدیث رسولؐ ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی آخری کتاب کا نور ہی ان جملوں میں جگمگاتا ہے۔ فرمایا: جامع کلمات مجھے عطا کئے گئے۔
تاریخ بھی تو لازم ہے۔ اللہ کی آخری کتاب اسے ''ایام اللہ‘‘ کہتی ہے۔ ارشاد کیا: زمانے کو برا نہ کہو‘ میں ہی زمانہ ہوں۔ تاریخ بہرحال تاریخ ہے‘ بدلتے زمانے۔ بین السطور پہ اگر کوئی غور کر سکے اس کے درون میں چراغ جلتے ہیں۔
سرسری ہم جہاں سے گزرے 
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
ایک عہد کروٹ بدلتا اور دوسرا طلوع ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ مرتا اور دوسرا نمودار ہوتا ہے تو کیوں؟
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گربنوازند گدارا
ہاںِ! اقبالؒ تاریخ کے شناور تھے۔ عہد رفتہ کے کتنے ہی کرداروں کو اپنے اوراق میں زندہ کیا۔ گزرے زمانوں کے زعماء سے گفتگو کی اور موتی بکھیر دئیے۔
امان اللہ خان کے دور میں افغانستان کے سفر کی روداد رقم کرتے ہوئے‘ سید سلیمان ندوی نے لکھا: غزنی میں ثنائی کے مزار کی پائنتی پر کھڑے‘ حکیم الامت بچوں کی طرح روئے۔ واپس آئے تو نظم لکھی۔
ثنائی کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالہ
ثنائی کا قصہ عجیب ہے۔ غزنی کے دربار میں ملک الشعراء تھے۔ سلطنت کے سب سے بڑے شاعر۔ وجیہہ و شکیل‘ عالی نصب اور قادرالکلام۔شاندار بگھی میں سوار ایک شام دربار کو جاتے تھے کہ ایک میخانے کے مقابل ''لائی خوار‘‘ کی آواز کان میں پڑی۔ ان کا نام وہ دہرا رہا تھا۔ برا بھلا کہہ رہا تھا۔ تجسس نے روک لیا۔ بگھی پہ ظاہر ہے کہ پردے پڑے تھے۔ اس عہد کے شرفا کا یہی دستور تھا۔ اس بادہ نوش کو لائی خوار کہتے ہیں‘ جو بھیک میں مانگی مے پئے۔
گدائے میکدہ ام لیک وقت مستی بیں
کہ ناز بر فلک و حکم برسر ستارہ کنم
مے کا گدا ہوں‘ مگر مستی کے عالم میں آسمان پہ قدم رکھتا اور ستاروں پہ حکم چلاتا ہوں۔ ماورالنہر سے لاہور تک پھیلی سلطنت میں غالباً یہ مسعود غزنوی کا عہد تھا۔ اس عظیم فاتح محمود غزنوی کا جانشین ایک ہزار برس پہلے جس کی تگ و تاز نے پاکستان کی دوسری اینٹ رکھی۔ پہلی ان عرب لشکروں نے اڑھائی سو برس تک سندھ میں‘ جن کی حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں۔ وادیٔ سندھ اور گنگا جمنا کے میدان ہی افضل و برتر تھے۔ دنیا کی ساری معیشت کا لگ بھگ ایک چوتھائی۔ سکندر اعظم سے لے کر‘ ترکوں اور افغانوں تک‘وسطی ایشیا سے یورپ کے فاتحین تک‘ دنیا بھر کے لشکر جن کے لئے بے تاب رہے۔ کتنے ہی اجڑ گئے‘ کتنے ہی سنور گئے۔ کتنوں نے ہندوستان کو پامال کیا ۔ کتنوں نے آباد کیا۔
پوری کہانی ابوالمجدد بن اعظم حکیم ثنائی غزنوی کو بعد میں معلوم ہوئی۔ بادہ فروش سے لائی خوار نے کہا: ''ایک پیالہ بادشاہ کے اندھے پن کے نام پر‘‘۔ اس نے پوچھا ''کیسا اندھا پن؟‘‘ اس نے کہا: اندھا ہی تو ہے کہ بھوک نے غزنی میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور وہ ہندوستان فتح کرنے جاتا ہے۔
کجا است پایۂ تختِ قرن
برائے فتح می ایم
کہ ہیچ تانش بکشائم
اس عہد کا پایۂ تخت کہاں ہے؟ اسے میں تسخیر کرنے آتا ہوں کہ اس کی تنگ دامنی کو وسعت عطا کروں۔ غزنی میں کون سے چاند ستارے ٹانک دئیے ہیں کہ دور کی سرزمین کا قصد ہے۔
پھر انڈیل کر اس نے کہا: ''ایک پیالہ ثنائی کے اندھے پن کے نام پر‘‘ ... ''ثنائی میں کیسا اندھاپن‘‘۔ لائی خوار اب ترنگ میں تھا۔ اس نے کہا: اندھا ہی تو ہے‘ دنیا بھر کی نعمتیں‘ اللہ نے عطا کیں۔ بادشاہ کے قدموں میں کیوں جا بیٹھا۔
وہیں سے ثنائی لوٹ آئے او رعمر بھر دربار کا رخ نہ کیا۔ فصیح اور عالم تو تھے ہی‘ باطن میں سوز جاگا تو مرجع خلائق ہو گئے۔ جواں سال تھے‘ خوبرو تھے۔ بادشاہ نے اپنی بہن سے شادی کی پیشکش کی تو یہ کہا:''جہاں پناہ آپ نے تاخیر کر دی‘‘۔
محمود غزنوی ایسے تاریخ ساز جنرل کا بھائی‘ مگر مسعود ایک متذبذب حکمران تھا۔ بادہ و جام کا مارا‘ خوشامدیوں میں گھرا۔ عیش و نشاط کا دلدادہ۔
میںتجھ کو بتاتا ہوں کہ تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل‘ طائوس و رباب آخر
سیاست اور اقتدار کیا ‘ زندگی کے کسی میدان میں خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ لاہور پہ حکمران سکھ سرداروں نے ستم دکھائے ‘ ٹیکس کی شرح 50 فیصد تک بڑھا دی تو لاہور کے ہندوئوں‘ سکھوں اور مسلمانوں نے گوجرانوالہ کی ''مثل‘‘ کے رنجیت سنگھ کو شہر پر قبضے کی دعوت دی۔ سراج الدولہ کے دربار سے تنخواہوں میں تاخیر ہونے لگی تو میر جعفر اور کلکتہ کے ہندو سیٹھوں نے لشکر میں رستے بنا لیے۔ پلاسی کے میدان میں اس لئے وہ ہارا کہ چھ ماہ کی تنخواہ واجب الادا تھی جو میر جعفر اور انگریزوں کے ایما پر سیٹھوں نے ادا کی۔وعدہ لیا کہ جنگ میں وہ شریک نہ ہوں گے۔آدھے سے زیادہ یورپ کو فتح کرنے والے نپولین نے کہا تھا: فوج پیٹ کے بل رینگتی ہے۔
مسعود کے تذبذب نے سلاجق کو بغاوت پر آمادہ کیا۔ سلطنت پہ گرفت کمزور تھی۔ انتشار پھیلا تو دریا کے اس پار چرواہے فوج میں ڈھلے۔ الپ ارسلان ایسا سردار میسر آیا تو بغداد تک کی سر زمینیں پامال کر دیں۔ اپنے عہد کا سب سے بڑا حکمران‘ جس کی دلاوری‘ آنے والے زمانوں میں بھی ضرب المثل رہی۔ چار ہزار کے لشکر سے‘ رومیوں کی ایک لاکھ سپاہ کو شکست فاش سے دوچار کر دیا تھا۔
الپ ارسلان کی موت میں ایسا ایک سبق پوشیدہ ہے کہ غور کرنے والے غور کریں تو کبھی تکبر کا شکار نہ ہوں۔وزیر اعظم کا استقبال کرنے کے لیے ارکان اسمبلی قطار میں کھڑے تھے۔ انضمام الحق ان کے ہمراہ تھے۔ ''انظی‘‘۔ اس نے کہا ''میری اجازت کے بغیر کرسیوں پر بیٹھ نہیں سکتے۔ یہ ہوتا ہے اقتدار‘‘۔
ہونق سا ایک آدمی ارسلان کے دربار میں لایا گیا۔ ایک معمولی جرم کا مرتکب۔ بادشاہ برہم تھا۔ کہا: تمہاری سزا موت ہے۔ جواب میں اس نے گالی بکی۔ پہلو میں پڑی کمان اٹھا کر اس آدمی نے تیر چلایا جس کی تیر اندازی کے چرچے چہار عالم میں تھے۔ نشانہ خطا ہوا تو برق رفتاری سے مجنون سے آدمی نے خنجر نکالا اور سلطان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
وجیہہ اور توانا فاتح کی لاش تخت پہ پڑی تھی۔ باکسر محمد علی کلے کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ چاند پر آدمی کے اترنے کا منظر اتنے بڑے ہجوم نے دیکھا یا اس کے میچ دیکھا کرتے۔ آخر کو اس حال میں پہنچا کہ رعشہ کے مارے ہاتھ کانپتے رہا کرتے۔ کافی کی پیالی تھام نہ سکتا۔
کچھ بھی باقی نہیں بچتا‘ کچھ بھی نہیں۔ آدمی کا اپنا ہے بھی کیا۔ سب کچھ عطا کرنے والے کا عطا کیا ہوا۔ جب چاہے واپس چھین لے۔اس کے دربار میں صرف عاجزی کا سکہ کھرا ہے‘ انکسار اور خلوص کا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved