زبان اورمعاشرے میں ایک باہمی ربط ہے‘ جس سے یہ ایک دوسرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ جیسے سماجی عناصر‘مثلاً :عمر‘ کلاس‘ مذہب زبان کے استعمال میں اپنی جھلک دکھاتے ہیں‘ اسی طرح زبان بھی معاشرے پرایک غیرمحسوس طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔زبان کے متعلق ایک قدامت پسندانہ تصوریہ ہے کہ یہ محض ابلاغ کاایک ذریعہ ہے اوریہ ایک غیرفعال ( (passive غیرجانبدار (neutral) اورحتیٰ کہ ایک غیرسیاسی(apolitical) چیز ہے۔ اس قدامت پسندنظریہ کا ایک اہم مفروضہ یہ ہے کہ کچھ زبانیں اعلیٰ وبرترہیں اور کچھ زبانیں کم تر درجے کی ہوتی ہیں۔زبان کے اس فرسودہ تصور کو کوسیپر(Sapir)اوروورف(Whorf) کی اہم تحقیق نے ردکردیا ۔اس تحقیق کے مطابق زبان ہرگزغیرفعال(passive)اورغیرجانبدار(neutral) شے نہیں اورنہ ہی اس کا کام محض خیالات‘ محسوسات‘ اور جذبات کی ترسیل ہے ‘بلکہ زبان حقیقتوںکی تشکیل (construction of realities) اوران کے تسلسل (perpetuation) میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اس طرح زبان ایک ایسے اظہاریے کے طور پر ابھرتی ہے‘ جس کا براہِ راست تعلق طاقت (power) اور سیاست(politics) سے ہے۔
یوں زبان کسی بھی معاشرے کااہم جزو ہوتی ہے‘ جوانفرادی اورقومی سطح پرشناخت کامظہر(Indetity Markes)ہوتی ہے‘ اسی طرح زبان استعمال کرنے والے کے عقائد(Beliefs)زبان اوردنیا کی تفہیم میں ایک اہم رشتہ ہوتا ہے‘ لہٰذا دنیا کی تفہیم ہرزبان میں رائج خیالات سے مختلف انداز میں تشکیل پاتی ہے۔ یوں زبان انفرادی اورمعاشرے کی سطح پر ایک اہم کردارادا کرتی ہے‘ کیونکہ ہرزبان کے ساتھ اس کی اپنادنیاکاتصور بھی جڑاہوتاہے۔ اس وقت دنیامیں بہت سی زبانیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ زبانوں کے معدوم ہونے کاعمل پچھلے کچھ عرشوں سے تیزہوگیاہے۔ زبانوں کے انسائیکلوپیڈیا Ethnologueکے مطابق‘ دنیامیں سات ہزار سے زیادہ زبانیں بولی جارہی ہیں‘ لیکن کچھ زبانوں کے بولنے والے بہت زیادہ اورکچھ کے بہت کم ہیں۔معروف تحقیق ڈیوڈکرسٹل (David Crystal) کے مطابق ‘دنیا کی چار فیصد زبانوںکودنیاکے 96فی صد لوگ بولتے ہیں۔ یونیسکوکی ایک رپورٹ کے مطابق دنیامیں تقریباً اڑھائی ہزار زبانوں کو معدوم ہونے کاخطرہ ہے۔
تاریخی اعتبار سے زبانوں کے حوالے دوطرح کے رویے پائے جاتے ہیں‘ جس میں ایک روایتی رویہ چھوٹی زبانوں کواہمیت نہیں دیتا۔ اس رویے کو ہم (Melting pot Approach)کہہ سکتے ہیں جس کے مطابق چھوٹی زبانوں کوبڑی زبانوں میں ضم ہوجاناچاہیے۔یہ رویہ استعماری طاقتوں میں عام نظرآتا ہے جواپنی ثقافت اوراپنی زبان کے ارفع سمجھتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ علاقائی ثقافتیں اورزبانیں بھی اپنی شناخت بھول کر ایک بڑی ثقافت اورزبان کاحصہ بن جائیں۔ اس رویے کے پس منظر میں وہ احساس برتری کارفرماہے‘ جسے معروف دانش ور ایڈورڈ سعید نے (Positional Superiority)کانام دیاہے۔ یوں ہردورمیں معاشرے کے زورآور(Dominat)گروہ اپنی زبان کم زورگروہوں پر مسلط کرتے آئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ زبان کا طاقت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے زبان کی مددسے ایک خاص قسم کا (Discourse) ترتیب پاتاہے ‘جو طاقت(Power)کے ہم قدم چلتا ہے۔
یوں زبان کنٹرول(Control) اوربالادستی(Hegemony) عمل میں بنیادی کردارادا کرتی ہے۔ زبان کے اس پہلوکے حوالے سے بہت سے دانش وروں‘ مثلاً: گرامچ (Gramsci)ڈریڈا (Derida)فوکو (Foucault) اورفیرکلاف(Fairclough) نے خاص طورپر بحث کی ہے کہ کیسے زبان کی مددسے زورآور گروہ کم زورگروہوں پر اپنی بالادستی قائم رکھتے ہیں۔ زبانوں کے اس استعماری رویے کے برعکس ایک مکتب ِ خیال یہ سمجھتا ہے کہ کسی معاشرے میں تنوع ہی اس کاحسن ہوتاہے‘ جس طرح چمن میں رنگ برنگ کے پھول اپنی بہاردکھاتے اورچمن کاحسن بڑھاتے ہیں‘ اسی طرح دنیامیںمختلف زبانوں کاوجود دنیامیں تنوع کے لیے ضروری ہے۔
لیکن تشویشناک امریہ ہے کہ دنیا کی بہت سی زبانیں معدوم ہورہی ہیں ۔ زبانوں کے معدوم ہونے میں قدرتی ثقافتی‘ سماجی‘ معاشی اور جغرافیائی عوامل کا کردارہے۔ ان عناصرمیںسب سے اہم عنصر عملیت پسند (Pragmatism) ہے‘ جوگلوبلائزیشن کی بنیادہے۔ سماجی ثقافتی اورجغرافیائی عناصربھی گلوبلائزیشن کے عمل سے غیرمحسوس طریقے سے جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں انگریزی اوراُردو زبانیں پاکستانی کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں‘ مثلاً :پنجابی‘ بلوچی‘ پشتو‘ سرائیکی کی نسبت زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں‘ کیونکہ ان کے ساتھ بہت سے فوائد(Perks) وابستہ ہیں ‘اس بات کاادراک بھی بہت ضروری ہے کہ زبان بولنے والے کے معاشی ومعاشرتی مرتبے کاتعلق براہ راست اس کی زبان کی قدرومنزلت سے منسلک ہے؛ اگرکسی مخصوص گروہ کامعاشی ومعاشرتی رتبہ بلندہے تواس کی زبان بھی بہت اعلیٰ وارفع اورطاقتور سمجھی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات توکلی طورپررواضح ہوجاتی ہے کہ کوئی زبان اپنی اصل میں کم تر یا بر ترنہیں ہوتی‘ بلکہ زبان بولنے والے کامعاشی ومعاشرتی مرتبہ ہی زبان کی معاقشرتی حیثیت کاتعین کرتا ہے۔ تمام زبانیںمساوات کی بنیادپر ایک جیسی ہیں اوران سب کااحترام کیاجانا ضروری ہے۔
انسائیکلوپیڈیا (Ethnologue)کے مطابق‘ اس وقت پاکستان میں 74زبانیں بولی جارہی ہیں یہ سب زندہ زبانیں ہیں ۔ان میں سے66مقامی زبانیں ہے اورآٹھ غیرمقامی ہیں۔ ان میں سے 9معدوم ہونے کے قریب ہیں اور 2 مررہی ہیں۔ یہ زبانیں زیادہ ترپہاڑوں میں بولنے والے لوگوں کی زبانیں ہیں۔ گلوبلائزیشن کے ردعمل کے طورپرخاندانوں کی مرکزیت اور ان کی زبانیں خطرے میں ہیں۔ ان خاندانوں کے نوجوان میںاعلیٰ تعلیم کے حصول یا نوکری تلاش کرنے میں بڑے شہروں کارخ کرتے ہیں‘ جہاں ان کاواسطہ انگریزی یا اُردو سے پڑتاہے۔زبانوں کے معدوم ہونے میں ایک اوراہم کردار پالیسی سازاداروں کاہے‘ جوکچھ زبانوں کے حوالے سے غیرمعمولی بے حسی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ بے حسی کا یہ رویہ وفاقی اورصوبائی سطحوں پرایک معمول کی بات ہے۔ ان اداروں نے زبانوں کے تحفظ کے لیے کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے۔اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل251بہت واضح الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ صوبائی زبان کی تدریس اورفروغ کیلئے عملی اقدامات کئے جائینگے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ''قومی زبان کاتشخص متاثرکئے بغیرصوبائی اسمبلی قانون کے مطابق ‘ایسے اقدامات کی تشخیص کریگی ‘جن سے قومی زبان کے علاوہ صوبائی زبان کی تدریس‘ فروغ اوراستعمال کوجلاملے گی۔‘‘اب یہ صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبانوں کی حفاظت کے قوانین پاس کریں۔
یہاں یہ امر اہم ہے کہ ایک زبان کی موت صرف الفاظ کے ایک ذخیرے کی موت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ ایک شناخت ایک ورلڈ (World View)اورایک تاریخ کی موت ہوتی ہے؛ اگرہمیں اپنی زبانوں کاتحفظ کرنا ہے ‘تواس کیلئے فوری اقدامات کرناہوںگے۔ اس کے مختلف گروہوں اورتنظیموں کوکام کرناہوگا‘ جس کیلئے ریاست کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔
پاکستان مختلف زبانوں کاگلدستہ ہے‘ جس میں ہرزبان کااپنارنگ اپنی خوشبواوراپناذائقہ ہے؛ اگراس گلدستے کے رنگوں کوشاداب رکھنا ہے‘ توہمیں قومی زبان کے علاوہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں کی افزائش کابھی اہتمام کرنا ہوگا۔معروف امریکی شاعرایذراپاؤ نڈ کاکہناہے کہ دنیا کی دانائی صرف ایک زبان تک محدود نہیں اورکوئی ایک زبان اس اجتماعی فہم کااظہار نہیں کرسکتی۔