تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-02-2019

صوبہ جنوبی پنجاب اور نمبرز گیم

صوبہ جنوبی پنجاب کا کیا مستقبل ہے؟ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے ذاتی طور پر عمران خان سے اور کوئی توقع ہو یا نہ ہو‘ کم از کم صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی حد تک میں پُر یقین تھا اور ابھی بھی پرُامید ہوں کہ اس سلسلے میں حقیقی پیش رفت عمران خان ہی کرے گا‘ لیکن موجودہ پنجاب اسمبلی کی Statistics‘ یعنی شماریات نے یہ سارا یقین اور گمان ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اوپر سے آئین میں درج نیا صوبہ بنانے کی شرائط اتنی سخت اور مشکل ہیں کہ مولوی اور مقتدی کا مکالمہ یاد آتا ہے۔ ایک جمعہ کے وعظ میں مولوی جنت میں داخل ہونے کی منظر کشی کرتے ہوئے پل صراط کا نقشہ بیان کر رہا تھا۔ کہنے لگا کہ یہ راستہ گنہگاروں کیلئے بڑا کٹھن اور مشکل ہوگا۔ یہ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا ‘جس کے اوپر سے گزرنا ہوگا۔ نیچے آگ جل رہی ہوگی اور گزرتے ہوئے کوئی سہارا ایسا نہ ہوگا کہ پل سے گزرتے ہوئے پکڑ کر پار اُترا جائے۔ الغرض اس نے اس پل سے گزرنے کی مشکلات اتنی طوالت سے بیان کیں کہ مقتدی تو لرز گئے۔ ایک مقتدی کھڑا ہو کر کہنے لگا :مولوی صاحب! صاف کہہ دیں کہ آپ نے ہمیں جنت میں جانے ہی نہیں دینا۔ یہی حال آئین میں درج نیا صوبہ بنانے کیلئے درکار شرائط کا ہے۔
سب سے پہلی اور مشکل شرط تو یہ ہے کہ جس صوبہ کی تقسیم مقصود ہے‘ اس کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اس کی منظوری دے‘ یعنی منقسم ہونے والے صوبے کی اسمبلی خود سے اس تقسیم کے حق کی قرارداد کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرے۔ اب ‘اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ یہ نیا مجوزہ صوبہ اس صوبے کے باقی ماندہ علاقے کی مرضی کے خلاف علیحدگی چاہتا ہے‘ تو اس کو اس باقی ماندہ والے علاقے کے اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہوگا۔ اس کی مثال کراچی‘ لی جا سکتی ہے۔ صوبہ سندھ سے‘ اگر کراچی کو علیحدہ کرنے کی تحریک شروع ہو اور کراچی کے اراکین اسمبلی سو فیصد بھی ایک طرف اکٹھے ہو جائیں تو وہ کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں پر مشتمل صوبہ کیلئے دو تہائی اکثریت مرتے دم تک حاصل نہیں کر سکتے۔ فی الوقت صوبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کی کل 130 نشستوں میں سے کراچی کے چھ اضلاع کراچی ایسٹ‘ کراچی ویسٹ‘ کراچی سائوتھ‘ کراچی سنٹرل‘ ملیر اور کورنگی کی کل 50نشستیں ہیں؛ اگر یہ ساری کی ساری ایک طرف کر لی جائیں اور ممکنہ طور پر حیدرآباد کی کل چھ صوبائی بھی اس کے ساتھ جوڑ لیں‘ تو یہ کل 56 سیٹیں بنتی ہیں‘ جبکہ صوبہ سندھ سے علیحدہ صوبہ نکالنے کیلئے صوبائی اسمبلی کے 87 ووٹ درکار ہیں اور دیہی و اندرون سندھ والے سندھ کی اس تقسیم کیلئے کبھی ووٹ نہیں دیں گے۔ اس طرح یہ مجوزہ تقسیم پہلے ہی مرحلے پر ناکام ہو جائے گی۔ یہ صرف ایک امکانی صورت تھی‘ جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
عموماً علیحدہ صوبائی تشخیص کا مطالبہ وہ علاقے یا اقوام کرتی ہیں‘ جو پسماندگی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے شاکی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے‘ صوبے کا اکثریتی علاقہ یا قوم تو اس صورتحال کا شکار نہیں ہوتی۔ اس صورتحال کا شکار کوئی نسبتاً چھوٹا علاقہ‘ نسبتاً چھوٹی قوم ہوتی ہے‘ جس کی اس صوبے میں نمائندگی اقلیتی صورتحال کا شکار ہوتی ہے اور اقلیتی نمائندگی اپنے حقوق کا تحفظ کرنے میں جب ناکام ہو جاتی ہے ‘تو اپنے لیے علیحدہ انتظامی یونٹ یا صوبے کا مطالبہ کرتی ہے۔ طاہر ہے ‘جو قوم یا علاقہ اپنی عددی اقلیت کے باعث اپنے حقوق اپنے لیے منصفانہ وسائل کے حقوق میں ناکام ہو جاتا ہے‘ تو پھر آخری چارہ گاہ کے طور پر وہ اس اکثریتی استحصال سے نجات کیلئے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتا ہے۔
آپ خود سوچیں استحصال کا شکار یہ اقلیتی قوم یا علاقہ اپنے صوبے کی اکثریتی نمائندگی کی موجودگی میں دو تہائی اکثریت کیسے لے سکتی ہے؟ سوائے‘ اس کے کہ سارے صوبہ کی اکثریتی سیاسی پارٹی اس کام کا بیڑہ اٹھا لے۔ تحریک انصاف صوبہ پنجاب کی حکمران پارٹی ضرور ہے‘ لیکن اسے تو پنجاب کی کل 297 صوبائی نشستوں میں سے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں تھی۔ جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کو کل 297 صوبائی نشستوں میں سے 121 نشستیں حاصل ہوئی تھیں‘ جو کل صوبائی نشستوں کا تقریباً اکتالیس فیصد تھیں۔ بعدازاں تیس آزاد ارکان میں سے اکثریت کی حمایت اور مخصوص نشستوں پر سیٹوں کے حصول کے بعد کل 371 نشستوں میں 180 نشستوں کے علاوہ مسلم لیگ ق کے دس اور چار آزاد ارکان کی حمایت کے ساتھ کل 194 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف نے حکومت بنائی۔ اس طرح اس کے پاس دو تہائی کے لئے درکار 66 فیصد کی بجائے محض 53 فیصد نشستیں ہیں۔ دو تہائی اکثریت کیلئے تحریک انصاف کو 248 نشستیں درکار ہیں ‘جو اس کے پاس نہیں ہیں۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب کی تخلیق کیلئے پیپلز پارٹی جو کبھی جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی پارٹی تھی اور اب پورے جنوبی پنجاب کے چار ڈویژن (بشمول ساہیوال) ملتان‘ بہاولپور‘ ڈیرہ غازی خان اور اگر ساہیوال بھی شامل کر لیں‘ تو اسے ان چار ڈویژنوں کے 13اضلاع کی کل 107 نشستوں میں سے محض پانچ نشستیں ملی ہیں اور پورے پنجاب میں صرف چھ صوبائی نشستیں۔ وہ یہ اپنی پانچ نشستیں ‘جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کی تشکیل کیلئے تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دے تب بھی بات نہیں بنتی۔ ہاں! ایک صورت ہے کہ مسلم لیگ ن بھی علیحدہ صوبے کیلئے ووٹ دے دے اور دو تہائی اکثریت سے صوبہ جنوبی پنجاب کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور ہو جائے‘ لیکن مسلم لیگ اس کو ایک تیر سے دو شکار کھیلے گی۔ پہلا یہ کہ وہ جنوبی پنجاب میں اپنے اس قدم سے اپنی سیاسی صورتحال بھی مستقبل کے حوالے سے بہتر کر لے اور لاہور کو بھی تحریک انصاف سے چھڑوا لے؛ اگر موجودہ اسمبلی سے صوبہ پنجاب میں سے صوبہ جنوبی پنجاب علیحدہ نکالا جائے‘ تو صوبہ پنجاب میں بزدار ہوں گے اور لاہور میں حمزہ شہباز کو وسطی شمالی پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ مل جائے گی۔
جنوبی پنجاب کے تیرہ اضلاع کی ایک سو سات نشستوں میں سے تحریک انصاف کے پاس پچاس‘ جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس چھتیس نشستیں تھیں۔ صرف جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کو جنرل ایکشن میں مسلم لیگ ن پر سولہ نشستوں کی برتری تھی اور آزاد ارکان ملا کر یہ برتری اٹھائیس ارکان کی بن جاتی ہے۔ پوری صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کی مجموعی برتری صرف اور صرف جنوبی پنجاب سے حاصل کردہ برتری کی مرہون ِمنت ہے اور اگر یہ برتری تحریک انصاف کی مجموعی برتری ‘جو صرف چودہ ارکان پر مشتمل ہے‘ سے نکال دیں‘ تو مسلم لیگ ن کو باقی ماندہ وسطی پنجاب اور پوٹھوہار میں تحریک انصاف پر برتری حاصل ہو جائے گی‘ یعنی صوبہ پنجاب تحریک انصاف کا اور صوبہ پنجاب (لاہور‘ گوجرانوالہ‘ سرگودھا‘ فیصل آباد اور راولپنڈی ڈویژن پر مشتمل علاقہ) پر مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہو جائے گی اور تحریک انصاف یہ افورڈ ہی نہیں کر سکتی۔
موجودہ پنجاب اور قومی اسمبلی سے صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی قرارداد صرف اس صورت میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہو سکتی ہے کہ مسلم لیگ ن بھی اس قرارداد کی منظوری کیلئے ووٹ دے‘ لیکن تحریک انصاف یہ چاہے گی کہ یہ قرارداد آئین کے آرٹیکل 238/239 کی روشنی میں مستقبل کے الیکشن کے بعد بننے والی پنجاب اسمبلی پر لاگو ہو اور 2023ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات بطور پانچویں صوبائی اسمبلی ہوں اور اس کے بعد صوبہ جنوبی پنجاب وجود میں آئے‘ لیکن فی الوقت اس مرحلے سے پہلے بہت سے کام کرنا ہوں گے‘ لیکن ابھی اس طرف کسی کا شاید دھیان ہی نہیں گیا یا ممکن ہے‘ سب فریقین ان ضروری کاموں سے اسی طرح آنکھیں بند کیے ہوں ‘جس طرح کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کی آنکھیں بند کرتے ہی بلی موجود سے ناموجود ہو جائے گی‘ لیکن بھلا معاملات سے اس طرح جان بچائی جا سکتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved