امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کے چند دن بعد افغانستان کے اہم ترین صوبوں میں طالبان کمانڈرز کی بطور گورنر تعیناتی بھارت اور NDS کے لیے ناقابل برداشت ہو رہی تھی ۔ 18 فروری کو طالبان کمانڈرز کی متوقع پاکستان آمد کے ساتھ زلمے خلیل زاد کا دورہ اسلام آباد‘ بھارت کی بے چینیوں میں مزید اضافہ کر رہا تھا ۔16 فروری سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انتہائی اہم دو رروزہ دورہ پاکستان کے لیے پہنچ رہے تھے ‘جس سے پاکستان کی تباہ حال معیشت اور تجارت کو نئی زندگی ملنے کی امیدوں کے علا وہ پانی‘ بجلی اور سٹیل مل جیسے بیمار قومی اداروں کو پھر سے پروان چڑھانے کے لیے بیس ارب ڈالر کے ممکنہ معاہدوں کی جانب سب کی نظریں اٹھ رہی تھیں اور پھر دورۂ پاکستان کے اگلے مرحلے میں سعودی ولی عہد آئل ریفائنری سمیت دوسرے بہت سے سرمایہ کاری کے ایم او یوز پر دستخط کے علا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر اورسیا چن کے پر امن حل کے لیے ایک ممکنہ پلان پر نریندر مودی سے طے شدہ ایجنڈا آگے بڑھانے جا رہے تھے لیکن پلوامہ کے ذریعے سعودی ولی عہد کے ساتھ بھی بھارت نے وہی کھیل اور ہاتھ دکھادیا‘ جو امریکی صدر بل کلنٹن کے مارچ2000 ء کے دورہ بھارت سے چند گھنٹے پہلے دکھایا تھا۔ اُس وقت مقبوضہ کشمیر کے ایک سکھ آبادی والے گائوں چٹی سنگھ پورہ میں کشمیری مجاہدین کی وردیاں پہنے بھارتی کمانڈوز نے 36 سکھوں کو رات گئے ان کے گھروں سے نکال کر باہر ایک میدان میں کھڑا کیااور پھر سب کے سامنے کلاشنکوفوں کے برسٹ برساتے ہوئے انہیں قتل کر دیا۔صدر بل کلنٹن کا طیارہ ابھی نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اترنے ہی والا تھا‘ تو بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے ہوائی اڈے پر موجو د بین الاقوامی میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا '' پورا بھارت اس وقت پاکستان سے انتقام لینے کی آگ میں جل رہا ہے‘ ایسے میں کشمیر پر کسی ممکنہ سمجھوتے پر بات کرنا تو دور کی بات ہماری حکومت کشمیر کا نام لینے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ بل کلنٹن جو دو برس تک بھارت اور پاکستان سے بیک چینل رابطوں کے ذریعے کشمیر کے معاملات طے کر چکے تھے کشمیر کا نام لینے کی بجائے اپنی دخترچیلسی کے ہمراہ اپنے کریڈٹ کارڈز سے دو قالین خریدکر واپس امریکہ سدھار گئے۔
افغانستان اور ایران میں 936 کلومیٹر دشوار ترین طویل سرحد دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے میں ناکامی کا سبب بن رہی ہے ۔ ایران کی پیرا ملٹری فورس کے جوان 13 فروری کو سیستان سے خاش کی جانب محو سفر تھے کہ جیش العدل نامی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی اس بس سے ٹکرا دی‘ جس سے چالیس پاسداران انقلاب شہید ہو ئے‘ جس سے علاقے میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔اس دوران بعض وجوہات کی بنا پرسعودی ولی عہد کی پاکستان آمد میں ایک دن کی تاخیر ہوئی۔ 18 فروری سے ہیگ میں بھارتی را کے کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادیو‘ جسے مارچ 2016 ء میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا‘ اس کے رضاکارانہ اعتراف جرم پر کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں پاکستان کے خلاف کی گئی دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کو بطور را ہیڈ کنٹرول کرتا رہا ہے۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس نے بلوچستان اور کراچی میں پاک فوج ‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں پانچ سو سے زائد اہل کاروں اور شہریوں کو ہلاک کرایا ہے۔ اس کے اعترافی بیانات کی روشنی میں اسے صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد پاکستان کی ملٹری کورٹ نے اسے سزائے موت سنا دی‘ جس کے فیصلے کے خلاف بھارت نے عالمی عدالت میں اپیل کر دی‘ جس کی سماعت کے بعد عالمی عدالت نے عارضی حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل در آمد روک رکھا تھا‘ جبکہ اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت کے لیے اٹھارہ فروری کی تاریخ مقرر تھی‘ جس پر دلائل دینے کے لیے پاکستان اور بھارت کی قانونی ٹیمیں ہیگ پہنچ چکی تھیں۔ اس سے قبل پانچ فروری کو یومِ کشمیر پر لندن‘ میلان‘ امریکہ‘ سری لنکا‘ ایران اور یورپ بھر میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے زندگی بھر کے لیے بینائی سے محروم ہونے والے کشمیر کے بچوں کی تصویریں اورپلے کارڈز اٹھائے بھارت کے نازیوں سے بد تر چہرے کو دنیا بھر کے سامنے پیش کر چکے تھے۔ اس مرتبہ پانچ فروری کو امریکہ‘ یورپ کی ہر سڑک اور چوک سے بھارت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں سے لگے‘ زخم کشمیر کے معاملے میں بھارت کی نیندیں حرام کر رہے تھے۔
اس دوران 19 فروری سے برسلز میں یورپی پارلیمنٹ میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر روا رکھی جانے والی بے رحمی‘ سفاکی اور بر بریت پر مبنی حقائق پیش کئے جانے والے ہیں۔ اس کانفرنس کو رکوانے کے لیے بھارتی حکومت نے اپنا تمام بین الاقوامی اثرو رسوخ استعمال کیالیکن اسے کامیابی نہیں مل سکی‘ کیونکہ یورپی پارلیمنٹ کے بہت سے اراکین اپنی آ نکھوں سے کشمیری مسلمانوں پر بھارتی فوجیوں کے ڈھائے جانے والے بہیمانہ مظالم دیکھ چکے ہیں۔ برسلز میں کشمیر پر ہونے والی کانفرنس کو رکوانے میں ناکامی پر بھارت کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی‘ کیونکہ اس سے پہلے نومبر2018 میں خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن کی منا سبت سے 27 نومبر کو لندن میں شیریں مزاری کی قیا دت میںWomen seeks world's help to end rights abuses in IOKکے انعقاد پر برطانیہ اور یورپ کی سول سوسائٹی کے ہاتھوں بھارت کاظالمانہ چہرہ کافی نمایاں ہو چکا تھا۔
ادھر 18 سے22 فروری تک پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس شروع ہورہا ہے جس میں پاکستان کو واچ لسٹ سے ہٹائے جانے کا فیصلہ متوقع ہے۔ بھارت ایف اے ٹی ایف کا باقاعدہ رکن ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو واچ لسٹ سے ہٹایا نہ جائے؛چنانچہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ اور ایران کے علاقے سیستان میں ہونے والے حملوں کو بھارتی مفادات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔دوسری جانب کرتار پور کا خوف بھارت کو کھائے جا رہا ہے۔دنیا بھر کے سفارتی اور دفاعی تجزیہ کار وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت کسی بھی صورت کرتار پور راہداری کے لیے سہولیات مہیا کرنے کے اقدامات نہیں کرے گا‘ کیونکہ کرتار پور راہداری کی تقریب کے چند دن بعد ہونے والے ریا ستی انتخابات میں نوجوت سنگھ سدھو نریندر مودی سے راجستھان کی حکومت چھین چکے ہیں اور اس سے پہلے چار دوسری ریاستوں میں بھی مودی کی جنتا پارٹی کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ہاتھوں بری طرح پٹ چکی تھی۔ان نتائج سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بھارت کی مرکزی سرکار بھی نریندر مودی کے ہاتھوں سے نکلنے والی ہے‘ جس نے راشٹریہ سیوک کے ہاتھ پائوں پھلا دیئے تھے۔
پلوامہ اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے خطے میں ہونے والے واقعات پر اب ہر جانب سے کچھ ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ دو ماہ بعد بھارت میں ہونے والے چنائو‘ افغانستان میں مفاہمت اور سلگتے کشمیر پر دنیا کی توجہ کو ہٹانے کے لیے نریندر مودی نے اپنے ہی کسی ''کرنل پروہت اور سادھو پرگیا‘‘ کے ذریعے ایک بار پھر گودھر ا ٹرین‘ سمجھوتہ ایکسپریس ‘ گجرات اورممبئی حملوں جیسا خونی کھیل رچاتے ہوئے جنونی ہندوئوں کے اندر پاکستان دشمنی کی آگ بڑھکا کر اگلے پانچ سال کے لیے اپنی وزارت عظمیٰ کی سیٹ پکی کرنے اور پھر انتہا پسند ہندو لیڈر بن کر اپنی وزارت عظمیٰ کے بوسیدہ تاج پر کندہ راون کی تصویر رنگنے کی مشقیں کی ہوں؟نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سامنے رکھنی ہو گی جس میں انڈین آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا نے تسلیم کیا ہے کہ پلوامہ حملے کے لیے جموں شاہراہ کو وسیع کرنے کے لیے پہاڑ اڑانے والا بارود استعمال ہوا ہے جو چوری ہوا تھا اور خود کش حملہ آور عادل ڈار کا گھر جائے وقوعہ سے صرف چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔