تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     19-02-2019

’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘

20 فروری کے دن معروف شاعر غلام محمد قاصر ؔکی برسی ہے۔قاصرؔستمبر 1944ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پہاڑ پور کے انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔دس سال کی عمر میں یتیم ہو گئے‘بیوہ ماں نے محنت مزدوری کر کے دونوں بچوںکی پرورش کی۔قاصرؔ نے پہاڑپور ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد1960ء میں گورنمنٹ پرائمری سکول مریالی میں اَن ٹرینڈ ٹیچر کی ملازمت حاصل کرکے عملی زندگی کا آغاز کیا۔کچھ عرصہ وہ لاہور میں کسی پرائیویٹ ادارے کے ساتھ بھی وابستہ رہے‘ جہاں ان کی ملاقات محبوب خزاں اوراحمدندیم قاسمی سے ہوئی‘جنہوں نے ان کی شخصیت کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔اسی دوران قاصر نے ایف اے‘بی اے اورپھر ایم اے اردو کے امتحانات پرائیویٹ پاس کئے۔1974ء میں انہیں گورنمنٹ کالج مردان میں اردو کے لیکچرر کی ملازمت مل گئی‘تاہم کچھ تکنیکی وجوہ کی بنا پہ کئی ماہ تک ان کی تنخواہ رکی رہی اور انہیں مالی مشکلات کے دوران ان کی والدہ وفات پا گئیں ‘ جنہوں نے کئی دکھ جھیل کر انہیں پالا تھا۔شیریں ماں کی موت کے المیہ کو انہوں نے پہلے شعری مجموعہ ''تسلسل‘‘ میں بعنوان‘ایک ذاتی نظم‘ میں یوں بیان کیا:
دعا کو ہاتھ اٹھاتا ہوں دعائیں اس کی خاطر ہیں
میں گویا ہوں کہ میری سب صدائیں اس کی خاطر ہیں
محبت ان کی خاطر ہے‘وفائیں اس کی خاطر ہیں
کہ میری ابتدائیں‘انتہائیں اس کی خاطر ہیں
کہتے ہیں قاصر پیدائشی شاعر تھے‘بچپن میں وہ اردو اور سرائیکی نوحے لکھتے رہے‘ لیکن ملازمت کی خاطر جب وہ خاندان سمیت ڈیرہ اسماعیل خان شہر اُٹھ آئے تو یہیں پر انہوں نے اُردو میں سنجیدہ شاعری کی ابتدا کی۔پہلی بار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں 1966ء میں ہونے والے کل پاکستان مشاعرہ میں اپنی مشہور زمانہ غزل ''شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے‘‘سنا کے ملک بھرکے ادبی حلقوں کی توجہ پائی۔ان دنوں ڈیرہ اسماعیل خان ترقی پسند تحریکوں کا مرکز تھا اسی لئے اُس تاریخی مشاعرے میں حبیب جالب‘زیبا جعفری‘احمدندیم قاسمی‘عبدالحمید عدم‘منیرنیازی‘نصیرالدین نصیر‘ادا جعفری اور مرتضیٰ برلاس جیسے کئی مشہور شعراشریک ہوئے تھے۔قاصر بھی زندگی بھر ادب کی ترقی پسند تحریکوں سے وابستہ رہے ‘ان کا پہلا شعری مجموعہ'' ‘تسلسل‘‘بائیں بازو کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا اورپی ٹی وی اور پاکستان ریڈیو کے علاوہ ان کا کلام آل انڈیا ریڈیو سے بھی نشر ہونے لگا۔1975 ء میں انہوں نے شادی کر لی۔ سرکاری ملازمت کا زیادہ عرصہ انہوں نے مردان‘پشاور‘خیبر اور پبّی میں گزارا‘ لیکن اپنے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان کو فراموش نہ کر سکے۔ایک نظم ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘میں انہوں نے اپنی جنم بھومی کا تذکرہ کچھ یوںکیا:
افلاس کی خاکستر میں یہاں غیرت کے شرارے ملتے ہیں
ظلمات کے طوفانوں میں عیاں پُرنور ستارے ملتے ہیں
شب رنگ افق میں بھی پنہاں‘امید کا سرخ سویرا ہے
اس بات کا لیکن دھیان رہے یہ طُور نہیں ہے ڈیرہ ہے
نوے کی دہائی میں انہیں جگر کا کینسر لاحق ہو گیا‘طویل عرصے تک مرض سے لڑنے کے بعد 20 فروری1999 ء کی شام انہوں نے پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں وفات پائی۔انہیں حیات آباد فیز ٹو کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔قاصر کے تین شعری مجموعوں میں''تسلسل‘‘ ''دریائے گماں‘‘ اور'' آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے ‘‘شامل ہیں۔غلام محمد قاصر نے پی ٹی وی کے لیے ڈرامے بھی لکھے جن میںبول اور بھوت بنگلہ سیریزکافی مقبول ہوئیں۔ قاصر کی وفات کے بعد ان کے بچوں نے ''کلیات قاصر‘‘ کے نام سے ان کا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام شائع کرایا۔غلام محمد قاصر طبعاً نہایت کم گو‘سنجیدہ اورپراسرار شخصیت کے مالک تھے۔انہیں پیراسیکالوجی اور علم الاعداد سے خاص شغف تھااس لیے ان کی شاعری میں ابہام اور سنجیدگی کی یبوست نمایاں نظر آتی ہے۔بظاہر وہ اپنے ادبی رجحانات میں کسی سے متاثر نظر نہیں آتے اور قُدما کے چبائے ہوئے لقموں کو چبانے کی بجائے وہ اپنی شاعری میں نئی علامتیں‘تلازمات‘ تشبیہات اور استعارے استعمال کرتے ہیں۔؎
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتا
ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
فیض ؔاور فرازؔ کی مانند وہ عوامی رنگ تو نہیں لے سکے‘ لیکن پروفیسر طارق ہاشمی کہتے ہیں کہ غلام محمد قاصرؔ کی شاعری کو جدید اُردو ادب میں خاص مقام حاصل رہے گا۔شاعرانہ بیباکی کے برعکس وہ نہایت دھیمے انداز کے شرمیلے شاعر واقع ہوئے‘اس لیے ان کے کلام پہ ابہام کے سائے چھائے نظر آتے ہیں اور ان کی شخصیت بلیک ہول کی مانند اندر کو اسقدرسمٹی ہوئی تھی کہ عمر بھر وہ اپنے شاعرانہ وجدان اورالہام کے شراروںکوکھل کے بیان نہیں کر سکے۔''ہرعہد نے زندہ غزلوںکے کتنے ہی جہاںآباد کئے‘پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘۔وہ ادب کی مقامی روایات سے بالکل الگ تو نہیں ہو سکے‘ لیکن زندگی بھر انہیں میکدے کا پتا ملا نہ پھولوں کی نزاکتوں اور بلبل کی نغمہ سرائی سے لطف اندوز ہونے کی جسارت کر پائے۔؎
کون غلام محمد قاصرؔ بیچارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
وہ ٹوٹ کے غم کا اظہار کرتے ہیں نہ جھوم کے خوشی کے گیت لکھنے کے عادی تھے۔ان کی شاعری کو پڑھ کے ایسا لگتا ہے کہ وہ پریشان خیالی‘دل نچھاور کرنے کی روایتی روش اور عاشقانہ خودسپردگی کو پسند نہیں کر‘تے بلکہ زندگی کے لطیف احساسات کو سنبھالنے‘سنوارنے اور افکار کو منظم رکھنے کو فوقیت دیتے رہے‘اس لیے عمر بھر ان کی شخصیت بکھری نہیں۔
درد و غم کی کہانی پرانی ہوئی
آج ساری زمین آسمانی ہوئی
ان کے ذاتی دوست کہتے ہیں کہ حقیقت پسند انسان کی طرح وہ امید و یاس کے درمیاں زندہ رہے‘البتہ ان میں خودداری اور انفرادیت کا احساس قدرے گہرا تھا اس لیے ان کا اسلوب روایات کی قید سے نجات کے رجحان اور عجائب پسندی کی جستجو سے ممّلو نظر آتا ہے۔
خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تیری تصویر تھک گئی
یہ شعر عجائب پسندی کی نمایاں مثال ہے ‘جس کا مرکزی خیال‘ نظری یا صوتی مماثلت سے عاری اور سرحد امکان سے دور ہے‘ کیونکہ نہ تو خوشبو عکس کی گرفت میں آ سکتی ہے نہ تصویر کا تھکنا سمجھ میں آتا ہے‘ لیکن اس سب کے باوجود ادب میں ان کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ احمدندیم قاسمی جیسے بلند پایا ادیب نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے قاصرؔ جیسے شاعر کو متعارف کرانے پہ فخر رہے گا۔ طارق ہاشمی کہتے ہیں ''کچھ شعرا اپنے عہد کے ادبی ماحول میں جگہ بنا لیتے ہیں ‘لیکن ادب میں ان کی گنجائش نہیں بنتی اور کچھ شعرا؛ اگرچہ اپنے عہد کے ادبی ماحول میں پوری جگہ نہیں لے پاتے لیکن ادب کی تاریخ میں ان کا مقام بلند رہتا ہے‘ قاصرؔ کا شمار انہی شاعروں میں ہو گا‘ جنہوں نے ادب میں مقام پیدا کیا‘‘۔
کچھ شعرا اپنے عہد کے ادبی ماحول میں جگہ بنا لیتے ہیں ‘لیکن ادب میں ان کی گنجائش نہیں بنتی اور کچھ شعرا؛ اگرچہ اپنے عہد کے ادبی ماحول میں پوری جگہ نہیں لے پاتے ‘لیکن ادب کی تاریخ میں ان کا مقام بلند رہتا ہے۔ قاصرؔ کا شمار انہی شاعروں میں ہو گا‘ جنہوں نے ادب میں مقام پیدا کیا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved