جعلی حکومت کو نکال کر ہی دم لیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم جعلی حکومت کو نکال کر ہی دم لیں گے‘‘ جبکہ دم نہ لینے کی پریکٹس ابھی سے شروع کر دی ہے‘ انشاء اللہ چار پانچ سال تک اس میں طاق ہو جائیں گے اور یہ کام خالی پیٹ ہی سے کیا جا سکتا ہے‘ جو کہ کافی عرصے سے ہوں اور ایسے لگتا ہے کہ پیٹ ساتھ ہے ہی نہیں اور پیٹ ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہوں؛ حتیٰ کہ اب دوڑ بھی لگا سکتا ہوں ؛حالانکہ آدمی صرف اسی وقت دوڑتا ہے‘ جب کوئی اُس کے پیچھے دوڑ رہا ہو‘ مثلاً :پولیس وغیرہ ؛حالانکہ پولیس کو تفتیش بیٹھ کر کرنی چاہئے؛ البتہ گلا بیٹھ جائے ‘تو اشاروں سے کام لینا پڑتا ہے؛ اگرچہ اشارے کرنا بھی کوئی اچھی بات نہیں‘ کیونکہ اشارے وہاں کرنا چاہئیں‘ جہاں ان کی اشد ضرورت ہو اور اس لیے کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور اگر ایسا ہی ہے ‘تو ایجاد کا کوئی باپ بھی ہوتا ہوگا‘ جس کا آج تک نام نہیں سُنا۔ آپ اگلے روز مردان میں ملین مارچ جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان کو اپنا گھر درست کرنا چاہیے: مشاہد حسین سید
ن لیگ کے رہنما مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو اپنا گھر درست کرنا چاہیے‘‘ کیونکہ جہاں تین بار وزیراعظم رہنے والے کے خلاف کرپشن کے مقدمات چلائے جا رہے ہوں‘ اس گھر کی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے؛ حالانکہ سب سے پہلے تھانیداروں اور پٹواریوں کو پکڑنا چاہیے‘ جبکہ ہمارے قائد ملک کو صرف ترقی کی راہ پر گامزن کر رہے تھے‘ جبکہ ترقی کا عمل کرپشن کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے‘ تاہم لوگ کرپشن کو دیکھتے ہیں‘ ملکی ترقی کو نہیں؛ حالانکہ ترقی کے دوران یہ اپنے آپ ہی ہوتی رہتی ہے ‘کیونکہ بالکل آٹومیٹک چیز ہے اور اس کے لیے ہاتھ ہلانا نہیں پڑتا ‘جبکہ آقائے محترم تو رشوت کے پیسے کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے ‘بلکہ یہ اوپر اوپر ہی اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتا تھا‘ جیسے آج کل فالودہ فروشوں اور چائے بیچنے والوں کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے نکل رہے ہیں اور اکاؤنٹ ہولڈر کو اس کا پتا ہی نہیں ہوتا۔آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ جاری کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی اپنا عروج واپس لانے کی جنگ لڑ رہی ہے: حسن مرتضیٰ
پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی اپنا عروج واپس لانے کی جنگ لڑ رہی ہے‘‘ اور اس جنگ کے سپہ سالار زرداری صاحب ہیں ‘جو عروج حاصل کرنے کی کوشش میں روز بروز زوال پذیر ہو رہے ہیں؛ حالانکہ جعلی اکاؤنٹس کے سلسلے کو انہوں نے نقطہ کمال تک پہنچا دیا تھا؛ اگرچہ وہ اس زوال کو بھی کمال ہی سمجھتے ہیں‘ کیونکہ اُن کے وکلاء نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس کیس کو چٹکیوں میں اُڑا کر رکھ دیں گے‘ جبکہ ہم سب کا خیال ہے کہ جیسے میاں نواز شریف کو ان کے وکلاء نے اس حالت کو پہنچایا ہے‘ ان کے وکیل بھی اُنہیں ہنس کر دکھا دیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سعودی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہم نے طے کیا تھا: رانا ثناء اللہ
سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''سعودی سرمایہ کاری کا منصوبہ لیگی دور حکومت ہی میں طے پایا تھا‘‘ لیکن ہمارے قائد خدمت کے مقدس کام میں ہی اتنے مصروف ہو گئے تھے کہ یہ منصوبہ اُن کی ترجیحات میں بہت نیچے چلا گیا تھا ‘کیونکہ خدمت کے اس انبار کو ٹھکانے لگانا بھی ایک دقت طلب مسئلہ تھا‘ جس سے وہ سرخرو ہوئے اور وہ سرخرو ہونے کی اس عادت کی وجہ سے عدالتوں سے بھی سرخرو ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے‘ کیونکہ جتنے مقدمات بقایا ہیں اور جنتے ابھی نکلنے والے ہیں‘ سرخروئی بھی اُسی حساب سے حاصل کی جائے گی ‘جو کافی برسوں کو محیط ہو سکتی ہے؛ چنانچہ اس دفعہ وہ ملک سے باہر جانے میں ہی سرخرو ہوں گے‘ جس کی بات حکومت کے ساتھ پکی ہو گئی ہے ‘کیونکہ وہ کچی بات میں یقین نہیں رکھتے اور ترقی کے سلسلے میں بھی انہوں نے جو کچھ کیا پکے پیروں سے ہی کیا ہے‘ جس کے ہم چشم دید گواہ ہیں‘ لیکن یہ گواہی دینے کو تیار نہیں ہیں‘ کیونکہ ہم کوئی چیز دینے کے نہیں ‘بلکہ لینے کے حق میں ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پورے پاکستان کو پولیو فری بنانا ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پورے ملک کو پولیو فری بنانا ہے‘‘ اگرچہ میں صرف صوبائی وزیر اعلیٰ ہوں‘ لیکن اپنی کارکردگی سے متاثر ہو کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پورے ملک سے ہی اس کا صفایا کر دیا جائے کیونکہ سارے صوبائی مسائل تو نمٹا دیئے ہیں‘ اس لیے اب پورے ملک کی طرف توجہ دینا چاہتا ہوں‘ جبکہ کار گزاری کے لحاظ سے پنجاب میرے لیے بہت چھوٹا صوبہ تھا اور زرداری صاحب کا بھی یہی خیال ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ مجھے ہی تعینات کر دیں ‘کیونکہ وہ اپنے روحانی معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور ایک طویل چلّہ کشی کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پر جو کسی نے جادو کیا ہے‘ اس کے تدارک کا ذمہ بھی انہوں نے اُٹھا لیا ۔ آپ اگلے روز لاہور میں فیصل آباد اور راولپنڈی میں پولیس کیسز ظاہر ہونے پربرہمی کا اظہار کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
محبت ہے ‘مگر اُس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے منتشر ہونے سے ڈرتا ہوں