کسی کی مصیبت جب‘ کسی جواز کے بغیر‘ کسی اور کے سر ڈال دی جائے‘ تو کہاوت کے پیرائے میں کہا جاتا ہے؛ طویلے کی بلا بندر کے سر۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ کسی زمانے میں گھوڑوں کے حوالے سے کسی وباء کے پھیلنے کی صورت میں بروقت اطلاع کے لیے ہر اصطبل کے باہر ایک بندر باندھ دیا جاتا تھا۔ گھوڑوں کو لگنے سے پہلے بیماری بندر کو نشانہ بناتی تھی اور یوں گھوڑوں کو بیماری سے محفوظ رکھنے کی تیاری شروع کردی جاتی تھی‘ یعنی بیماری تو تھی گھوڑوں کی‘ مگر بندر بے چارہ مفت میں مارا جاتا تھا۔
آج بھی یہی قصہ ہے۔ کرے کوئی‘ بھرے کوئی کے مصداق کسی کے اعمال کی سزا کسی کو بھگتنا پڑتی ہے‘ جو اپنے تئیں ملک کے سیاہ و سفید کا مالک گردانتے ہیں‘ وہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں اور خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیا بیورو کریسی اور کیا اہلِ سیاست ... اس معاملے میں سبھی ایک پیج پر ہیں!
اپوزیشن میں پیپلز پارٹی نمایاں اور متحرک ہے۔ تحریکِ انصاف سے تھوڑا بہت ٹاکرا اگر ہو رہا ہے ‘تو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں ہی کا ہو رہا ہے۔ پرائم ٹائم کے ٹی وی ٹاک شوز میں دونوں جماعتیں اپنے مرغے خوب لڑا رہی ہیں۔ ع
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
کے مصداق دونوں جماعتیں اپنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتی ہیں اور قوم کی دل بستگی کا سامان ہوتا ہے۔ سیاست یا ہو میڈیا ... دونوں میں سے کسی بھی محاذ پر خاموشی اچھی نہیں لگتی‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خاموشی اِن دونوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یہی سبب ہے کہ میڈیا کے میلے کی رونق بڑھاتے رہنے کے لیے سیاسی جماعتیں میدان میں کھڑی رہتی ہیں۔ میڈیا کا بھی بھلا ہو جاتا ہے اور اہلِ سیاست کی بھی دلی مراد بار بار یعنی یومیہ بنیاد پر بر آتی ہے۔ خیر‘ بات شروع ہوئی تھی‘ اس بات سے کہ کسی کا کیا کوئی بھگتتا ہے اور پھر ''سلسلۂ کالم‘‘ طویلے اور بندر تک پہنچ گیا۔ کل کی بات ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات (یعنی ترجمان) بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ (پنجاب کے وزیر اطلاعات) فیاض الحسن چوہان کو ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہے! اپنے بیان میں مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ فی زمانہ جادو ٹونے کی بات کو توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا جانے والا چھچھورپن ہی کہا جاسکتا ہے۔ مرتضیٰ وہاب کا مزید کہنا تھا کہ جب انسان کا ظاہر و باطن منافقت اور دشمنی سے آلودہ ہو تو نفسی امور کے ماہرین ہی موزوں اور معیاری علاج تجویز کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بیمار ذہنیت کے لوگ سیاست میں متحرک ہیں۔
واضح رہے کہ یہ بیان فیاض الحسن کے اُس بیان کے جواب میں تھا ‘جس میں اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اُن پر جادو کرایا جارہا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُن کے کمرے سے کچھ ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کا ماتھا تو بعد میں ٹھنکا‘ پہلے ہم متوجہ ہوئے تھے کہ ایسا احمق کون ہوسکتا ہے‘ جو جادوگروں پر جادو کرانے کی جسارت کرے!
فیاض الحسن چوہان بھی خیر سے اُن ہستیوں میں سے ہیں ‘جن پر کوئی بھی سیاسی جماعت بجا طور پر ناز کرسکتی ہے! مسلم لیگ ن میں جو مقام رانا ثناء اللہ خان کا ہے‘ وہی یا اُس سے ملتا جلتا مقام تحریک انصاف میں فیاض الحسن چوہان کا ہے۔ رانا ثناء اللہ خان کی طرح فیاض الحسن چوہان بھی چونکہ راجپوت ہیں ‘اس لیے زبان کو تلوار کی طرح استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں! اُس کے اِس اعتقاد سے اُن کی پارٹی کی مراد بر آئی ہے۔ دونوں راجپوتوں نے میڈیا پر ایسا سمان باندھ رکھا ہے کہ ع
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ دونوں کے مزاج میں وہی انداز پایا جاتا ہے‘ جس کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا ؎
پُر ہوں میں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے‘ پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
مرتضٰی وہاب نے فیاض الحسن چوہان کو ماہرِ نفسیات سے ملنے کا مشورہ دے کر طویلے کی بلا بندر کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے! فی زمانہ کسی بھی ماہرِ نفسیات میں اتنی صلاحیت ہے‘ نہ سکت کہ کسی سیاست دان کو راہِ راست پر لانے کا سوچ بھی سکے؛ اگر کسی ماہرِ نفسیات کو کسی سیاست دان کی تحلیلِِ نفسی پر مامور کرنے کی کوشش کیجیے ‘تو وہ یہ کہتے ہوئے پتلی گلی سے نکل لیتا ہے ع
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
یہ حقیقت سے فرار نہیں‘ بلکہ حقیقت پسندی ہے۔ آج کے سیاست دان اپنی ذات میں تضادات کا مجموعہ ہیں۔ اُن کے افکار و اعمال کا تضاد ایسا گورکھ دھندا ہے کہ جو لوگ غور کرنے کی ٹھانتے ہیں اُن کا نشان نہیں ملتا! ؎
لوٹ کر پھر نظر نہیں آئی ... اُن پہ قربان ہوگئی ہوگی
فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں کہ اُن پر کوئی جادو کرا رہا ہے۔ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ سیاست دان وہ صاحبانِ کمال ہیں ‘جن سے جادوگر بھی بہت کچھ سیکھنے کے متمنّی رہتے ہیں! تعلیمی اداروں میں بچوں اور نوجوانوں کے سامنے جادو کے نام پر ہاتھ کی صفائی دکھانے کے ماہر زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں کہ ٹوپی سے کبوتر اور جیب سے انڈا نکال کر دکھاتے ہیں۔ سیاسی طلسمات کے جادوگر تو بھرے خزانے کو خالی کر ڈالتے ہیں اور کسی کو بروقت خبر نہیں ہو پاتی! یاد رہے کہ اس ''وصفِ حمیدہ‘‘ کو ہاتھ کی صفائی نہیں کہا جاسکتا‘ کیونکہ یہ تو ''ڈراما اِن ریئل لائف‘‘ کا درجہ رکھتا ہے! یعنی جو چیز گئی وہ تو گئی‘ اب واپس نہیں آنے کی۔ قوم ایک بار پھر الزامی سیاست کے گورکھ دھندے میں الجھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تماشا کئی بار ہوچکا ہے۔ لوگ ریلیف چاہتے ہیں‘ مگر کسی صورت حقیقی ریلیف کا خاطر خواہ حد تک اہتمام نہیں ہو پارہا۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ ؎
فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
نہیں خبر روشِ بندہ پروری کیا ہے
قوم بے چاری دم سادھے ہوئے بہت کچھ دیکھ رہی ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ قومی معیشت کا بحران حقیقی مفہوم میں کب دور ہوگا اور ہم استحکام کی منزل کی طرف واقعی کب بڑھ پائیں گے۔ جن سے یہ توقع ہے کہ حالات کی درستی کے لیے پورے خلوص اور سنجیدگی سے کچھ کریں گے‘ وہ ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو‘ ذہنی مریض اور خدا جانے کیا کیا قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔
کون کس حد تک ذہنی مریض ہے اور کسے ذہنی امراض کے معالج کی کس حد تک ضرورت ہے قوم کو اس سے کیا غرض؟ ذہنی مریض بھی قبول ہیں اگر قوم کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہوں‘ ملک کو استحکام دینے کی نیت اور سکت رکھتے ہوں۔ ٹوپی سے کبوتر اور رومال سے انڈا نکال کر دکھانے والے شعبدہ بازوں کی نہیں‘ بلکہ اب تو اُن کی ضرورت ہے جو اپنی لیاقت سے مِٹّی کو سونا بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ سب سے بڑا عصری تقاضا یہ ہے کہ ہم عصری تقاضوں کو سمجھیں اور اُن کے مطابق خود کو بدلنے کی کوشش بھی کریں۔ بہت کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ ایسے میں محض تماشائی بنے رہنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ سیاست کے نام پر ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بنانے اور الزامات کا کیچڑ اچھالنے کی ''تابندہ روایت‘‘ اب ترک کی جانی چاہیے۔