تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     20-04-2013

ہماری اوقات کیا ہے!

یہ صرف تیرہ سیکنڈ کی جنبش تھی۔ درودیوار ہنڈولے کی طرح ہلنے لگے تو کسی کو اپنی ہستی یاد رہی، نہ بڑی بڑی بڑھکیں۔کسی نے قبر میں سوئے اپنے لیڈروں کو پکارا ،نہ کوئی اپنی پارٹی کا پرچم لے کر باہر آیا۔کسی کو یہ تک یاد نہ رہا کہ اس گھڑی ملک سے دور بیٹھا اس کے غم میں گُھلنے و الا قائد اسے کیا ہدایات دیتا ہے۔جو جس بھی شغل میں مصروف تھا…گناہ کی گندگی میں غلطاں تھا یا نیکی کرنے میں مصروف ، سرپٹ بھاگتا ہوا ،کلمۂ طیبہ کا ورد کرتا ہوا ، کائنات کے حقیقی مالک سے استغفار کرتا ہوا ،اپنی پُرتعیش آرام گاہوں کو چھوڑ کر نیلے آسمان تلے پناہ کی طلب میں آکھڑا ہوا۔یہ ہے بندۂ خاکی کی کل اوقات! میرا اللہ چاہے تو اسے ایسا کردے کہ ایک عمر سجدے سے سر نہ اٹھائے، خوف سے کانپتا اور گڑ گڑاتا ہوا معافیاں مانگتا رہے۔ کون تھا جو اس زلزلے میں چین سے بیٹھا رہا ہو؟ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے کہ جن سے کہا جاتا کہ اللہ سے اجتماعی استغفار کروتاکہ وہ تم پر اپنی رحمتیں نازل کرے تو وہ تمسخر اُڑاتے ہوئے کہتے :’’ کیا اللہ کا عذاب صرف مسلمانوں کے لیے رہ گیا ہے؟ عذاب میں غریب لوگ ہی کیوں مرتے ہیں؟ ایک دن آئے گا جب انسان زلزلوں پر بھی قابو پالے گا، پھر دیکھنا ۔ ترقی یافتہ ممالک کو دیکھو جنہوں نے مضبوط عمارتیں بنائیں، انہیں زلزلے میں کچھ نہیں ہوتا۔ بس عمارت ہوا میں جھولے کی طرح جھولتی رہتی ہے اور سب محفوظ رہتے ہیں۔‘‘ جس زمانے میں یہ لوگ اپنی طاقت کے نشے میں چُور ایسے دلائل دے رہے تھے، عین اسی زمانے میںمیرا اللہ زلزلے سے بچنے کے لیے بہترین انتظام رکھنے والے ملک جاپان میں سمندر کی لہروں کو حکم دے رہا تھا کہ اس قدر بلند ہو جائو کہ ان کی آسمان کو چھوتی عمارتیں تمہارے اندر چھپ جائیں۔ سب عمارتیں وہیں موجود رہیں لیکن اللہ کے حکم کی تابع سمندر ی لہروں کا بلند ہو کر واپس آنا ان کے غرور و تکبر کو ملیا میٹ کرنے کے لیے کافی تھا۔اس سے چند سال پہلے بھی اللہ نے اپنی ہیبت وجبروت کا نظارا تھائی لینڈ ، انڈونیشیا اور دوسرے کئی علاقوں میں دکھایا تھا جب بستیوں کی بستیاں موت کے سناٹے میں ڈوب گئی تھیں۔امریکہ کا بحرہند میں سب سے بڑا فوجی اڈہ سمندر برد ہوگیا تھا۔اس کے بعد دنیا میں سونامی وارننگ سنٹر بنائے گئے۔ہوائوں کا رُخ بتانے ، سمندر کی موجوں کے اُتار چڑھائو کا وقت سے پہلے اندازہ لگانے اور لوگوں کو خبردار کرنے کا نظام وضع کیاگیا۔یہ سب کچھ کرنے کے باوجود جاپان کا المیہ ایک دم ہوگیا،لیکن پھر بھی کسی نے اللہ کی کبریائی کے سامنے سربسجود ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔سب جاپانی قوم کے جذبے کی تعریف میں مگن ہوگئے۔اگر کوئی ان علم و ہنر اور سائنس و ٹیکنالوجی کے بتوں کو پوجنے والوں کو ان تیرہ سیکنڈوں کے دوران دیکھ لیتا، ان کے چہروں پر خوف کی لکیروں کو پڑھ لیتا تو حیران رہ جاتا۔کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے قلم استغفاراور اللہ سے گناہوں کی معافی مانگنے کے تصور کا مذاق اُڑاتے نہیں تھکتے ، جو ہر اُس شخص کو جاہل ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں جو یہ کہہ دیتا ہے کہ ہماری تباہی و بربادی اور قدرتی آفتیں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں اور اللہ سے استغفار ہماری نجات کا راستہ ہے۔وہ جواباً کہتے ہیں: کتنے جاہل لوگ ہیں ، بے عملی کا درس دیتے ہیں۔ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو بنگالیوں اور بلوچوں سے اپنی زیادتیوں پر اجتماعی معافی مانگ لیتی ہے لیکن تکبر سے تنی ہوئی گردنیں اللہ کے سامنے جھکانے سے شرماتی ہے ،ان تیرہ سیکنڈوں میں کسی کو نہ اپنے تنے ہوئے سر کا خیال رہا ،نہ اپنی سائنسی تاویلات کا پاس۔سب اس طرح میدانوں میں جمع تھے جیسے حشر کا صور پھونکا جاچکا ہو۔ یہ زلزلہ ان علاقوں میں کیوں آیا، جہاں مسلمان بستے ہیں؟یہ وہ لوگ ہیں جن تک ہدایت کار نور پہنچ چکا ہے،جنہوں نے زبان سے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی مالک ، فرمانروا ، مختار کل اور بادشاہ ہے ، جنہوں نے موجودہ دور کی لغت کے مطابق اللہ کے آئین یعنی قرآن مجید سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ انسان خود کوئی آئین بنائے، کچھ لوگ اس پر کار بند رہنے کا حلف اٹھا کر اس کی خلاف ورزی کریں تو دنیا کے ہر ملک میں وہ غدار کہلاتے ہیں اور ان کی سزا موت ہے ، لیکن افسوس ، اللہ کے آئین کے تحت حلف اٹھا کر ہر وہ کام کرتے رہتے ہیں جو اس کے خلاف ہے اور پھر بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض نہیں ہوگا، اس کا غیظ و غضب ہم پر نازل نہ ہوگا۔لیکن اللہ اور انسان میں بہت فرق ہے۔انسان اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک غدار کو سزا نہ دلوا دے جبکہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔اسی لیے وہ فرماتا ہے: ’’ اللہ تمہیں عذاب دے کر آخرکیا کرے گا ،اگر تم شکر گزار بنو اور صحیح معنوں میں ایمان لائو، اللہ تو بڑا قدر دان ہے‘‘ (النسا 147) ۔وہ بار بار اپنی نشانیوں سے بندوں پر واضح کرتا ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہے ، تمہارے سروں پر سے عذاب نازل کرے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے ۔زمین کی جنبش اس کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ہوائوں کا چلنا اور خوفناک ہونا ، بادلوں کا آفت میں بدلنا ، یہ سب اس کی نشانیاں ہیں۔وہ اپنے آئین پر حلف اٹھانے والوں کو طویل مہلت دیتا ہے۔بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جو اللہ کی مہلت کی طوالت کو ہنسی میں اُڑا دیتی ہیں۔وہ لوگ جو انہیں ان کے اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے تھے کہ اللہ سے معافی مانگو ، یہ لوگ ان سے سوال کرتے تھے کہ کب آئے گا وہ عذاب جس سے ڈرا رہے ہو؟قرآن میں یہ طرز تخاطب بار بار ان لوگوں سے ہے جو انبیاء ؑ سے یہی سوال کرتے تھے کہ ’’ کب آئے گی وہ گھڑی جس سے تم ڈراتے ہو ‘‘ اور اللہ انبیاء ؑ کو یہی فرماتا ، انہیں کہہ دو کہ اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے اور ہم تو بس صاف صاف ڈرانے والے ہیں۔انسان کا تکبر جب اس قدر بڑھ جائے کہ اللہ کی نشانیاں دیکھ کر بھی اس کو خوف محسوس نہ ہو تو عذاب کا فیصلہ اٹل ہوجاتا ہے۔بار بار زمین کی جنبش ان لوگوں پر بھی عیاں ہے جن کی آنکھیں اس کے خوف سے تررہتی ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ کی وارننگ ہے۔خواب میں سوئی ہوئی مسلم امت کا جگانے کا بگل ہے۔لیکن کیا کریں ، یہ امت تو تیرہ سیکنڈ کے زلزلے کے بعد صرف ایک گھنٹے کے لیے بیدار ہوتی ہے اور پھر غفلت کے خراٹے لینے لگتی ہے۔انہیں دولت ، طاقت ، شہرت ، حیثیت اور اقتدار کا نشہ جاگنے ہی نہیں دیتا۔دوسری جانب وہ بھی ہیں جنہیں اللہ کی یہ وارننگز سونے ہی نہیں دے رہیں۔انہیں اللہ کی ناراضگی کا احساس ہے اور قوم کی غفلت کا بھی ادراک ہے۔وہ سورۃ الزمر کی یہ آیات پڑھتے ہیں تو ان کی ہچکی بند ہوجاتی ہے: اور اپنے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس جو بہترین باتیں نازل کی گئی ہیں ان کی پیروی کرو ،قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے (55)۔خوف کا عالم اس لیے کہ اب شاید مہلت نہ مل سکے ، اب شاید خبردار کرنے کا وقت گزر چکا۔اصل علم تو اللہ کو ہے۔وہ غفور الرحیم ہے ۔اے اللہ !ہمیں معاف کردے ، ہم پر رحم کردے ، ہم تیرے غضب کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ہماری اوقات تو تیرہ سیکنڈ کے جھٹکوں نے کھول کر رکھ دی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved