وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو بات میڈیا سے گفتگو میں کہی، شاید وہی بات وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی کہی ہو جس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کی تفصیلات طے کی گئیں، تو کیا وزیر خارجہ کی تجویز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی تھی؟ ملتان کا مخدوم ذاتی زندگی میں بھی خاصا وضعدار واقع ہوا ہے۔ 1993 کے انتخابات میں ملتان کی ''مقامی سیاست‘‘ کے باعث، شاہ محمود کے لئے مسلم لیگ سے وابستگی مشکل ہو گئی، لیکن پیپلز پارٹی میں شمولیت سے قبل انہوں نے ماڈل ٹائون آ کر اپنے لیڈر سے ''اجازت‘‘ لینا (یا اطلاع دینا) ضروری سمجھا۔
2011ء کے اوائل میں، زرداری+گیلانی حکومت سے علیحدگی کے بعد شاہ محمود قریشی کا نیا انتخاب (ایک بار پھر) نواز شریف کی مسلم لیگ تھی۔ اس کے لیے وعدے وعید بھی ہو گئے تھے لیکن 30 اکتوبر کے مینار پاکستان کے سونامی جلسے کے بعد تحریک انصاف ان کی نئی سیاسی ترجیح تھی لیکن شمولیت کے باقاعدہ اعلان سے قبل، انہوں نے جاتی امرا جا کر میاں نواز شریف کو ''اعتماد میں لینا‘‘ ضروری سمجھا۔
شاہ محمود قریشی کا تعلق طویل سیاسی ماضی رکھنے والے خانوادے سے ہے، سیاسی وفاداریوں کے حوالے سے جس کی تاریخ کوئی ایسی قابلِ رشک نہیں رہی، لیکن وہ جہاں بھی رہے، وضعداری کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اپنی سابقہ جماعتوں (مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی) پر تنقید ان کا حق ہے، اور وہ اس کا استعمال بھی کرتے ہیں لیکن اپنی سابق سیاسی قیادت پر تنقید میں وہ انگریزی محاورے کے مطابق Below The Belt نہیں جاتے۔
ان کے سیاسی مشورے، سیاسی اپروچ کا مظہر ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے، چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کے طور پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے تقرر کے لیے عمران خان کو قائل کرنے میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وفاقی وزیر پرویز خٹک کے ساتھ شاہ محمود نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ شیخ رشید اس کی ''ذمہ داری‘‘ ان پر عائد کرتے ہیں، شیخ کے بقول جن کا نام لیتے ہوئے (محاورے کی زبان میں) ان کے پر جلتے ہیں۔
اب سعودی ولی عہد کے لیے سرکاری تقریبات میں اپوزیشن کو مدعو نہ کئے جانے پر میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود کی ''ذاتی رائے‘‘ تھی کہ اپوزیشن کو ضرور دعوت دی جانی چاہیے کہ قومی مفادات، سیاسی و جماعتی اختلافات سے بالا تر ہوتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے خود مہمانِ معظم کی عزت اور توقیر میں بھی اضافہ ہوتا۔ قومی مفادات کو سیاسی اختلافات سے بالا تر رکھنے کی مثالوں سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ بھٹو اور جماعت اسلامی میں اختلافات، دشمنی اور عداوت کو پہنچے ہوئے تھے، لیکن سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اعظم اندرا گاندھی سے شملہ مذاکرات کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں الوداع کہنے کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد بھی لاہور ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ نواب زادہ صاحب 1965ء کی جنگ کی مثال دیا کرتے تھے، صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت کی شکست کے لیے ایوب خان کی حکومت نے دھونس اور دھاندلی کا ہر حربہ روا رکھا، پھر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں سرکاری مشینری نے اپوزیشن کے کشتوں کے پشتے لگائے، اس پر اپوزیشن، ایوب خان کی شکل دیکھنے کی روادار نہ تھی‘ لیکن 6 ستمبر 1965ء کو بھارتی حملے کے بعد اپوزیشن قیادت کو ایوب خان سے ملاقات کی دعوت قبول کرنے میں لمحہ بھر کا تامل نہ تھا۔ اگلے روز کے اخبارات میں ایوب خاں کے ساتھ سید مودودی، چودھری محمد علی، نواب زادہ نصراللہ خاں اور چودھری غلام عباس (کشمیری لیڈر) کی تصویر نے قومی اتحاد و یک جہتی کا ولولہ انگیز اظہار کیا۔
قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ، پلوامہ واقعہ پر، مودی حکومت کے جارحانہ رویے کے بعد تو اور بھی ضروری ہو گیا تھا۔ اس حکومتی ''استدلال‘‘ کو مضحکہ خیزی اور ہٹ دھرمی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ''کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والوں کو سرکاری تقریبات کی دعوت کیسے دی جا سکتی تھی‘‘؟ کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والی یہی قیادت، منتخب ایوانوں میں موجود ہے۔ وزیر اعظم جس ایوان کے قائد ہیں، اسی ایوان میں شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہیں‘ جن کی جماعت ملک کے سب سے بڑے صوبے میں تمام تر مشکلات کے باوجود، سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ زرداری اور بلاول بھی اسی منتخب ایوان کا حصہ ہیں۔ کل کلاں مودی کا رویہ زیادہ جارحانہ ہو جاتا ہے، تو کیا وزیر اعظم پاکستان تب بھی قومی اتحاد و یک جہتی کے اظہار کے لیے، اپوزیشن کو ساتھ بٹھانے کی بجائے، نظر انداز کرنے کی یہی روش اختیار کریں گے؟
تاہم اپوزیشن کو معزز مہمان سے ملاقات کا موقع چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر قیادت پارلیمانی وفد میں شرکت سے مل گیا۔ کہا جاتا ہے، اس ملاقات کا اہتمام خود سعودی سفیر کی دعوت پر کیا گیا تھا۔ وفد میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر عثمان سوری تو موجود تھے، لیکن قومی اسمبلی سے اپوزیشن کی نمائندگی نہیں تھی۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق اور مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مشاہداللہ خان نے اپنی لیڈرشپ کی طرف سے سعودی مہمان کو خیر مقدمی جذبات پہنچائے۔ جواب میں سعودی ولی عہد نے نوازشریف کے لیے محبت اور احترام کے جذبات کا اظہار کیا اور سعودی رسم کے مطابق سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ شریف فیملی سے ہمارے قریبی مراسم ہیں‘ جسے ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مشاہداللہ خان نے ولی عہد کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف مبذول کروائی اور درخواست کی کہ وہ بھارتی قیادت سے ملاقات میں اس پر بھی بات کریں۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمن کا نام بھی وفد میں شامل تھا‘ لیکن انہوں نے سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو سرکاری تقریب میں مدعو نہ کئے جانے پر احتجاجاً شرکت نہ کی۔
وزیر اعظم عمران خان اس دعوے میں حق بجانب تھے کہ سکیورٹی وجوہات نہ ہوتیں تو سعودی ولی عہد ہزاروں لاکھوں لوگوں کو سڑکوں اور چوراہوں پر اپنے لیے چشم براہ پاتے۔ انہوں نے یہ دلچسپ دعویٰ بھی کیا کہ ولی عہد پاکستان میں الیکشن لڑیں تو خان صاحب سے زیادہ ووٹ حاصل کریں؛ تاہم سرکاری سطح پر معزز مہمان کے خیر مقدم کے لیے جو اہتمام کیا گیا‘ اس سے نئے پاکستان میں، پرانے پاکستان کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے۔ ''نئے پاکستان‘‘ کے وزیر اعظم، معزز مہمانوں کے خیر مقدم کے لیے پروٹوکول کی نئی روایات کو جنم دے رہے ہیں (یہ دنیا بھر میں شاید پہلی مثال ہے)۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کی تشریف آوری پر بھی جناب وزیر اعظم نے ایئر پورٹ سے پرائم منسٹر ہائوس تک گاڑی خود ڈرائیور کی۔ اسی روایت کو اب سعودی ولی عہد کی آمد پر آگے بڑھایا۔ وزیر اعظم کی طرف سے معزز مہمانوں کے لیے ذاتی تعلقِ خاطر کا یہ اظہار بجا لیکن سٹیٹ ٹو سٹیٹ معاملات میں پروٹوکول کے تقاضے شاید کچھ اور ہوتے ہیں۔ میٹھا کسے اچھا نہیں لگتا، لیکن حد سے زیادہ مٹھاس بد ذوقی کی علامت اور بدمزگی کا باعث بنتی ہے۔ ہارون الرشید صاحب نے دریا کو کوزے میں بند کردیا، ''مہمان کا اکرام پیغمبروں کی سنت مگر ایسی لجاجت؟... اور پھر اصل بات بھی کہہ دی، احتیاج شیر کو لومڑی بنا دیتا ہے‘‘۔ لیکن ہمیں تو ٹی وی پر ایئرپورٹ اور پرائم منسٹر ہائوس کے مناظر دیکھ کر اچھا لگا۔ اسلام آبادی دوست بتا رہے تھے، تم یہاں آتے تو دیکھتے سارا شہر دلہن بنا ہوا تھا۔ ٹی وی پر روشنیوں میں نہائے ہوئے پرائم منسٹر ہائوس کے دلکش مناظر تھے۔ ثقافتی طائفوں کا فن الگ تھا۔ تینوں مسلح افواج کے گارڈ آف آنر کی اپنی آن بان شان تھی۔ اگلے روز چھ گھوڑوں کی بگھی میں پرائم منسٹر ہائوس سے پریذیڈنٹ ہائوس آمد بھی، اپنی نوعیت کا منفرد معاملہ تھا۔ یہ سب کچھ اس پرائم منسٹر ہائوس میں ہو رہا تھا جسے ''نئے پاکستان‘‘ والوں نے گالی بنا دیا تھا۔ ہمیں سابق صدر ممنون حسین یاد آئے، ایوان صدر میں اخبار نویسوں کے ساتھ ایک ملاقات میں وہ کہہ رہے تھے: یہ عظیم الشان عمارات حکومت کی نہیں، ریاست کی شان و شکوہ کی علامت ہوتی ہیں۔ غریب اور پسماندہ اقوام بھی جس کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان عظیم الشان عمارات میں لوگ آتے ہیں اور اپنی مدت گزار کر چلے جاتے ہیں۔ یہاں انہیں بھارت کے مزاحمتی شاعر راحت اندوری یاد آئے۔
جو آج صاحبِ منصب ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے