راولپنڈی سے نصیر احمد ناصر کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ''تسطیر‘‘ کا تازہ شمارہ آ گیا ہے۔ پونے نو سو صفحات پر پھیلے ہوئے اس رسالے کی قیمت 900 روپے رکھی گئی ہے۔ میں اتنے لحیم شحیم رسالوں کے حق میں نہیں ہوں کہ 900 روپے کا رسالہ کوئی سر پھرا ہی خریدے گا۔ میں سرپھرا ہونے کے باوجود‘ اگر خریدنا پڑتا تو اسے ہرگز نہ خریدتا‘ پھر اسے پڑھنے کے لیے ایک رحل کی بھی ضرورت ہے ‘جو رسالے کے ساتھ ہی مہیا کی جانی چاہئے تھی۔ مندرجات کی فہرست ماشاء اللہ اتنی طویل ہے کہ کالم میں مصنفین کے سارے نام نقل کرنا بھی ممکن نہیں ہے‘ تاہم حمد و نعت کے بعد مدیر کی تحریر ہے۔ لمسِ رفتہ کے نام سے 9 مضامین ہیں۔ اس کے بعد شمس الرحمن فاروقی اور انور سین رائے کے ساتھ انٹرویوز ہیں‘ پھر ادیبوں کا بچپن کے عنوان سے فتح محمد ملک سے گفتگو ہے۔ اس کے بعد تین سفر نامے ہیں۔ اس کے بعد امیر تیمور کی آپ بیتی‘ فکر و فلسفہ پر مضمون‘ نقد و نظر کے عنوان تلے9 مضامین‘ پھر نقد و نظر 2 کے تحت 7 مضامین‘ 2 طویل نظمیں‘ اس کے بعد مختلف شعراء کی کم و بیش 115 نظمیں‘ پھر خصوصی تانیثی مطالعہ کے تحت خواتین شعراء کی 118 نظمیں‘ اس کے بعد 32 افسانے ہیں‘ پھر خواتین کے 29 افسانے ہیں‘ اس کے بعد 33 نظموں کے تراجم ہیں‘ اس کے بعد مختلف شعراء و شاعرات کی 93 غزلیں ہیں‘ پھر‘ خاکہ ہے اور موسیقی پر مضمون اور آخر میں میل باکس کے عنوان تلے قارئین کے مکاتیب۔ بہر حال‘ میرا شکریہ ادا کیجیے کہ جملہ مصنفین کے اسمائے گرامی بتا کر میں نے آپ کو بیہوش ہونے سے بچا لیا ہے‘ تاہم آپ کی تھکاوٹ اتارنے کے لیے حصۂ غزل میں سے یہ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔ کسی اگلے کالم میں کچھ منتخب نظمیں بھی پیش کی جائیں گی:
مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں
مرے ہتھیار سب کے سب پُرانے ہو گئے ہیں
کہانی پر سوال ایسے کہانی نے اٹھائے
نئی اک داستاں کے تانے بانے ہو گئے ہیں (جلیل عالیؔ)
ساز ہے‘ آواز ہے مضراب چوری ہو گیا
میرے سینے سے دل ِبیتاب چوری ہو گیا (خالد اقبال یاسرؔ)
اک عجب صورتِ حالات مقرر تھی یہاں
بک گئے خود کو خریدار بنانے کے لیے (کرشن کمار طور)
اپنے اندر ہی مر چکا ہوں نسیمؔ
اپنا تابوت ہو چکا ہوں میں (نسیم سحر)
یہ کون مجھ کو مرے خول سے نکالتا ہے
یہ خود سے نقل مکانی کا سلسلہ ہے کیا (علی اصغر عباس)
متّفق ہوتے نہیں ہیں کہیں دل اور دماغ
پائوں رکھتا ہوں کہیں اور کہیں پڑتا ہے
چاند کا آنا ضروری تھا مرے ملنے کو
ابر چھاتا تو کسی اور طرف سے آتا
جو موڑ تم نے مڑ لیے یہ کیا سلجھ سکیں گے اب
ہزار پیچ پڑ گئے ہیں راستا نہیں رہا (رفعت ناہید)
جم گئی ہے کائی سی دہلیز پر
تیرے قدموں کی توجہ چاہیے (اکرام بسرا)
میں کہیں برف سا جما ہوا تھا
وہ ہوا سی گزرتی جاتی تھی (سید کامی شاہ)
پھر اس کے بعد وحشتِ دل کی خبر نہیں
دیکھی گئی تھی شام ترے گھر کے آس پاس (اکرام عارفی)
میں جن کے واسطے سڑکوں پہ روندھا جا رہا تھا
وہ لوگ آج مرے واسطے کھڑے نہیں تھے (الیاس بابر اعوان)
بچھڑنے والوں کو یہ بات کون سمجھائے
دوبارہ لوٹ کے آنے میں عمر لگتی ہے (وقاص عزیز)
یہی خیال تھا میں گردشِ زماں میں ہوں
کھُلا کہ اس نے مجھے چار سو کیا ہوا ہے (مبشر سعید)
نکلنے والا ہے مشرق سے آفتاب ولیؔ
میں جانتا ہوں کہ جو ہو گا اب چراغ کے ساتھ
(شاہ روم خاں ولی)
ازبر رہیں کسی طرح پچھلی رفاقتیں
سوکھے ہوئے شجر پہ بھی اک گھونسلا رہے
جاتے ہوئے وہ نام مرے دل پہ لکھ گیا
چھوڑے ہوئے مکاں پہ مکیں کا پتا رہے (فرح خاں)
ایک عجب خاموشی ہے
بیت گیا اظہار کا دن (خواجہ وحید)
ہر ایک شخص کے دیکھے ہزار روپ یہاں
دماغ اپنا ٹھکانے پہ آ گیا توبہ (بلقیس خان)
تو بہتا پانی بن جا
میں مچھلی بن جائوں گا (عمر فرحت)
ایک دھرتی ہے جو مجھ ایسے کی پہچان بنی
ایک آکاش جو میرے حس و خاشاک میں ہے (انعام کبیر)
ایک کردار کو نکالنے سے
چاشنی بڑھ گئی کہانی کی
اشک انورؔ گرا وہاں میرا
لوگ پتھر کے تھے جہاں سارے (ملک محمد انورؔ)
ہوا کی آخری دستک بھی لوٹ آئی ہے
سمے کا ہاتھ بھی خالی ہے اور ہمارا بھی (سدرہ صابر)
آج کا مقطع
جو آخری تھا‘ ظفرؔ‘ ہمارا
وہ گیت بھی ہم نے گا لیا ہے