معاشرے ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر ... یا پھر پس ماندہ‘ اُن میں کئی خواص مشترکہ ہوتے ہیں‘ مثلاً: اجتماعی سطح پر لاپروائی‘ بے حِسی اور بے اعتنائی تمام ہی معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ ''سٹیٹس کو‘‘ یعنی معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی روش بھی کم و بیش تمام معاشروں میں پائی جاتی ہے اور اسے بظاہر بُرا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ دیکھا گیا ہے کہ تبدیلیوں سے گزر کر بہتری کی طرف آنے والے ہی تبدیلیوں کے آگے بند باندھ رہے ہوتے ہیں! یہ بات افسوس ناک کم اور حیرت انگیز زیادہ ہے‘ مگر کیا کیجیے کہ معاشروں کی روش ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔
ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں‘ وہ بہت حد تک ہماری مرضی کی نہیں۔ یہ بات بھی ایسی حیرت انگیز نہیں جیسی دکھائی دیتی ہے۔ بیشتر معاشروں میں لوگ زندگی اپنی خواہشوں کے تحت کم اور دوسروں کی مرضی کے مطابق زیادہ بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ سیدھا سا جواب یہ ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے ‘یعنی تنہا نہیں رہ سکتا۔ مل کر رہنے میں بہت سی آسانیاں ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد پاکر ہم بہتر انداز سے زندگی بسر کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ یہ تو ہوا آسانی کا بیان۔ مل جل کر رہنے میں چند ایک قباحتیں بھی ہیں۔ ہم کتنا ہی چاہیں‘ دوسروں کی مرضی اور خواہشوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اس میں بُرا ماننے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے بھی تو ہماری خواہشوں اور مرضی کا خیال رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ع
کیا خوب سَودا نقد ہے‘ اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے
زندگی کے سفر کو آسان بنانے کے لیے دوسروں کی مرضی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ‘مگر یہ معاملہ توازن کا طالب ہے۔ دوسروں کی خواہشوں کا احترام صرف وہاں تک درست ہے ‘جہاں ہماری اپنی کوئی جائز خواہش مجروح نہ ہو رہی ہو یا ہماری آزادی پر قدغن نہ لگ رہی ہو۔ مل جل کر رہنا ایسا عمل ہے ‘جس سے کسی بھی طور مفر ممکن نہیں۔ انسان سب کو چھوڑ کر پہاڑ پر بھی آباد ہوسکتا ہے‘ مگر اس میں قباحتیں زیادہ ہیں۔ ہم جو کچھ بھی چاہتے ہیں اُسے پانے یا کرنے میں دوسروں سے بھرپور مدد لیے بغیر بات بنائی ہی نہیں جاسکتی۔ تھوڑا سا غور کرنے پر اندازہ ہوسکتا ہے کہ اپنے طور پر جینے میں الجھنیں زیادہ اور دوسروں کے ساتھ چلنے میں کم ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے ‘جو ہم نہیں کرسکتے۔ یہ سادہ سی حقیقت ‘جس کی سمجھ میں آگئی‘ اُس نے ابدی مسرّت کا راز پالیا۔
معاشرے میں رہتے ہوئے مکمل طور پر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہونا چاہیے اور نفی ہی میں ہے۔ جنہیں دوسروں کے ساتھ چلنا ہوتا ہے‘ اُنہیں دوسروں کے خیالات‘ رجحانات اور خواہشوں کا احترام بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ آپ کے حوالے سے دوسروں کا بھی ہے۔ وہ بھی تو آپ کے خیالات‘ رجحانات اور خواہشوں کا احترام کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ معاشرے کے عمومی دھارے میں بہتے ہوئے ہر انسان کو اپنے بہت سے معاملات میں ایثار اور ضبطِ نفس کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے؛ اگر ایسا نہ کیا جائے ‘تو بہت سے معاملات کسی جواز کے بغیر بگڑ جائیں۔
دوسروں کی مرضی کے مطابق ‘زندگی بسر کرنے کے عمل میں اگر انسان توازن کھو بیٹھے تو زندگی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ سیدھی سی بات ہے‘ آپ کے لیے اپنی آزادی سب سے بڑھ کر ہے؛ اگر دوسروں کی آزادی اور مرضی کا احترام کرتے کرتے آپ اپنی مرضی اور آزادی سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہو جائیں تو صرف اپنی نظر میں نہیں گریں گے ‘بلکہ دوسروں کی نظر سے بھی اُتر جائیں گے۔ ایسے کسی بھی انسان کو پسند نہیں کیا جاتا ‘جو اپنی نظر میں بلند ہونے کا اہتمام نہیں کرتا۔ معاشرہ ایسے لوگوں کو استحسان کی نظر سے دیکھتا ہے ‘جو اپنے خیالات سے دست بردار ہوئے بغیر دوسروں کی مرضی کا احترام کرتے ہیں اور اُن کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے صرف معقول حد تک ہی ایثار کے لیے تیار رہتے ہیں۔
آج بیشتر معاشروں میں دکھاوے کا زہر پھیلا ہوا ہے۔ لوگ اپنی آزادی داؤ پر لگاتے ہوئے دوسروں کی مرضی کے مطابق‘ یوں زندگی بسر کرتے ہیں‘ گویا اُن کی اپنی زندگی کی کوئی وقعت ہی نہ ہو۔ ایسی حالت میں دل کو سُکون اور روح کو راحت کیسے مل سکتی ہے؟ ہم سب اِس دنیا میں اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ دوسروں کے کام آئیں اور اپنے حصے کا کام بھی کر جائیں۔ سب کچھ دوسروں کی مرضی کے مطابق کیا تو پھر کیا جیا!
جب ہم اپنی ترجیحات کو نظر انداز کرکے دوسروں کی مرضی کا احترام کرنے کی روش پر کچھ زیادہ گامزن ہوتے ہیں تب معاملات کے الجھنے کی ابتداء ہوتی ہے۔ یہ دنیا خلق ہی کچھ اِس نہج کے ساتھ کی گئی ہے کہ بننے میں بہت وقت لگتا ہے اور بگڑنے کو محض ایک لمحہ درکار ہوتا ہے۔ یہ بنیادی نکتہ نظر انداز کرنے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ زندگی کا بڑا حصہ دوسروں کی مرضی کے مطابق بسر کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ نے اپنی مرضی‘ خواہش‘ نظریے اور خود مختاری سے دست بردار ہوتے ہوئے دوسروں کی مرضی اور حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ شخصی ارتقاء سے متعلق بازار میں جو کتابیں دستیاب ہیں‘ اُن میں سے بیشتر میں دوسروں کی رائے کو اہمیت دینے اور اُن کی خواہشوں کا احترام کرنے پر زور دیا گیا ہے‘ تاہم اس حوالے سے متوازن سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کو اولیت دینا صرف اُس صورت میں لازم ہے جب ہمیں اُن کی سوچ متوازن دکھائی دے رہی ہو اور اُن کے اعمال یہ بتارہے ہوں کہ وہ بھی دوسروں کو اہمیت دینے کے لیے تیار ہیں۔
زمانہ زیادہ احترام کی نظر سے صرف اُنہیں دیکھتا ہے‘ جو اپنی مرضی اور خود مختاری سے دست بردار ہونے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق بھرپور دلچسپی کے ساتھ کام کرنے سے پہلے ہی جو لوگ دوسروں کی خواہشوں کے غلام ہو بیٹھتے ہیں وہ کسی اور کا نہیں‘ اپنا نقصان کرتے ہیں۔ صرف اپنے وجود کو بھرپور ترجیح دینے اور اپنے آپ کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں پر بھرپور توجہ دینے سے گریز کرتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔ دوسروں کی ترجیحات کو اپنی ترجیحات پر فوقیت دینا زندگی کو داؤ پر لگانے جیسا عمل ہے۔ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی معقول توازن ہی ہمارے لیے امکانات کے دریچے وَا کرسکتا ہے۔
جو ہمیں ملی ہے ‘وہ زندگی کسی اور کی نہیں‘ ہماری ہے۔؛اگر ہم اس کی قدر نہیں کریں گے‘ تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہمارا قدر دان بنتا پھرے؟ دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچنے سے گریز کرتے ہوئے اپنی ذات کو یوں اہمیت دیجیے کہ دنیا بھی آپ کے بارے میں سنجیدہ ہو اور آپ سے بھرپور اشتراکِ عمل پر مائل ہو۔ ہمیں‘ اگر دنیا کو دیکھنا ہے تو اپنی نظر سے دیکھنا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا ؎
لے دے کے اپنے پاس یہی اِک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
آپ کو بیشتر معاملات میں یہی سوچ اپنانی ہے۔ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنا ہے اور اپنے خیالات و رجحانات کی روشنی ہی میں پرکھنا ہے۔ اشتراکِ عمل درست ‘مگر صرف اس حد تک کہ اپنی ذات پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔