تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-04-2013

یونان کی نتاشہ اور اٹلی کا ماریو

بھارت اور اٹلی کے درمیان حالیہ دنوں میں ہونے والی سفارتی جنگ نے مجھے 2007ء میں اپنے لندن گولڈ اسمتھ کالج کے یونانی اور اٹالین دوستوں کی یاد دلا دی ہے کہ کیسے ہمارے اٹلی کے کلاس فیلو ماریو سے کوئی یورپی لڑکی دوستی کے لیے تیار نہ تھی۔ اٹلی کے ایک جہاز کے دو افسروں نے اس وقت بھارتی مچھیروں کو گولی مار دی جب وہ سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اٹلی کے اہکاروں نے سمجھا کہ وہ بحری قذاق ہیں جو انہیں اغوا کرنا چاہتے ہیں۔ بندوق نکالی اور فائر داغ دیے۔ دونوں غریب مارے گئے۔ یہ بات کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچی کہ بھلا دو افراد کیسے ایک جدید بحری جہاز کو اغوا کر سکتے ہیں۔ وہ بھول گئے کہ ہندوستان خود قذاقوں کا شکار رہا ہے یہاں کے باسی کبھی خود قذاق نہیں بنے۔ خیر ملزم گرفتار ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد انہیں اٹلی کے سفیر کی ضمانت پر اٹلی جانے دیا گیا کہ وہ لوٹ آئیں گے لیکن پھر انہوں نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔ہو سکتاہے کہ بھارت کے لوگ اٹلی کے لوگوں کی روایتی چالاکیوں سے واقف نہ ہوں لیکن پورا یورپ انہیں اچھی طرح جانتا ہے۔ اسی لیے کوئی لڑکی تک ان کی دوست نہیں بنتی۔ گولڈ اسمتھ کالج میں زیادہ تر طالب علم یورپ کے ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ میری دوست کیتھرین یونان سے تھی جبکہ ماریو اٹلی سے تھا۔ کیتھرین کی اکثر یونانی دوست دوسری کلاسوں میں پڑھتی تھیں لہٰذا جب وہ ان کے گروپ میں جاتی تو مجھے بھی ساتھ لے جاتی اور میں روایتی مشرقی انداز میں ہوں ہاں کر کے ان کی گفتگو سنتا رہتا۔ انہیں بڑی دیر بعد احساس ہوتا کہ مجھے تو یونانی نہیں آتی لہٰذا وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کوشش کرتے جو محض چند لمحوں تک برقرار رہتی جلد ہی وہ دوبارہ یونانی زبان میں بات کرنے لگتے تھے اور میں مسکرا کر ان کے چہروں کے تاثرات سے بھانپنے کی کوششوں میں لگا رہتا کہ اب کیا بات ہو رہی تھی۔ میرے لیے چہروں کے تاثرات پڑھنا ایک شغل بن گیا تھا۔ ایک دن کیتھرین نے مجھے احساس دلاتے ہوئے کہا‘ ’’یہ کوئی اچھی بات نہیں‘ تم میری دوستوں کے چہروں کو تکتے رہتے ہو‘‘۔ میں پریشان ہو گیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ مطمئن نہ ہوئی اور بولی: یورپ ہو یا مشرق، اس معاملے میں سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کیتھرین کی دوست نتاشہ سب سے تیز تھی۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ مختصر سے عرصے میں دس بارہ دوست بدل چکی ہے۔ میں نے حیران ہوکر کیتھرین سے پوچھا کہ باس! یہ کیا چل رہا ہے؟۔ وہ مسکرائی اور کہا: ’نتاشہ سے خود کیوں نہیں پوچھتے‘۔ پھر شرارت سے بولی لیکن تمہارا کوئی چانس نہیں لہٰذا اس سے دور رہو۔ میں نے کہا: میرا کیوں چانس نہیں ہے؟۔ وہ بولی: مانا کہ وہ بہت کمینی ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ اپنی دوست پر ہاتھ صاف کرے۔ ایک دن میں نے کیتھرین کی موجودگی میں نتاشہ سے پوچھ لیا کہ یہ کیا چکر ہے۔ نتاشہ نے قہقہ لگایا اور کہا: کیتھرین نے تمہیں نہیں بتایا کہ اس کے پیچھے کیا راز ہے! میں نے کیتھرین کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولی: دراصل ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ لڑکی تیس سال کی عمر تک جو چاہے کر سکتی ہے؛ تاہم اگر وہ تیس برس کی ہو جائے اور اپنی مرضی کا دولہا نہ تلاش کر سکے تو پھر اس کے والدین کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ جہاں چاہیں اس کی شادی کر دیں۔ اس بے چاری کے تیس برس پورے ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں لہٰذا یہ پاگل ہوگئی ہے اور شادی کے بندھن میں بندھنے سے قبل کالج کی حد تک سب کو فتح کرنے کے موڈ میں ہے۔ میں آنکھیں پھاڑے نتاشہ کو دیکھتا رہا لیکن اس نے قہقہہ لگایا اور پوچھنے لگی کہ رئوف! ہم نے پاکستان آنا ہے‘ سنا ہے وہاں لاہور میں موسیقی کا بہت بڑا میلہ لگتا ہے‘ وہ دیکھنا ہے۔ میرے یورپی کلاس فیلوز اٹلی کے ماریو سے دور دور رہتے۔ اس سے کوئی لڑکی دوستی کرنے کو تیار نہ تھی جبکہ میں گاڈ فادر ناول پڑھنے کے بعد اس سے دوستی کر چکا تھا اور اس کے اندر کا ڈان تلاش کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ ایک دن نتاشہ کو شتر بے مہار پھرتے دیکھ کر ماریو نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کیے تو ردعمل میں اس نے ماریو کی کلاس لینی شروع کر دی۔ ماریو بے چارہ شرمندہ ہو کر اُٹھ گیا۔ میں نے شرارت سے کہا: نتاشہ کیا فرق پڑتا ہے‘ جہاں پورا کالج تمہارا دوست ہے وہاں ایک ماریو بن جائے گا تو کیا قیامت آ جائے گی۔ کیتھرین نے میری بات سن کر زور سے قہقہہ لگایا لیکن نتاشہ نے گالی دے کر کہا: نہیں کسی سے بھی دوستی کر لوں گی لیکن اٹلی کے کسی نوجوان سے نہیں کروں گی۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی: تم نہیں جانتے یہ اٹالین لڑکے بیوقوف بنانے کا فن بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سب لوگ ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔ اس پر نتاشہ نے کہا کہ اٹالین سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ میں نے ماریو پزو کا عظیم ناول ’گاڈ فادر‘ پڑھ رکھا تھا اور ماریو کو پسند کرنے کی وجہ بھی اس کا اٹالین ہونا تھا کیونکہ وہ جب سنجیدگی سے گفتگو کرتا تھا تو لگتا ایک ذہین بندہ بول رہا ہے۔ میں نے ایک دن ماریو سے کہا: یار تم کیوں یورپی لڑکیوں کے پیچھے پڑے ہو‘ وہ تو تمہیں گھاس نہیں ڈالتیں۔ وہ بولا: میرے پیارے یہی تو سارا مزہ ہے۔ اٹالین ہونے کا کیا فائدہ کہ بندہ ایک لڑکی بھی دوست نہ بنا سکے۔ میں نے کہا: ماریو پیارے! مسئلہ یہ ہے جن لڑکیوں کو تم چرانے کی کوشش کر رہے ہو وہ تمہارے ڈی این اے سے واقف ہیں اور یہ تمہارے چکر میں نہیں آئیں گی۔ بہتر ہو گا تم کسی اور پر اپنے تیر آزمائو۔ وہ یکدم سنجیدہ ہوا اور بولا: بات پتے کی ہے۔ میرا جی چاہ رہا کہ تمہاری کافی کے پیسے میں ادا کروں! کہیں تم بھی اٹالین ڈی این اے… ؟ میں نے کہا: جو کچھ میں نے نتاشہ سے سن لیا ہے اس کے بعد اللہ نہ کرے۔ چند دن بعد میںنے ماریو کو ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ گھومتے دیکھا۔ مجھے دیکھا تو میری طرف پلٹا۔ تعارف کرایا اور کہا: اس سے ملو، میری دوست روزینہ‘ اس کا تعلق لبنان سے ہے۔ اس سرو قامت لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر میں نے خود کو کوسا کہ ماریو کو کیوں مشورہ دیا۔ وہ یورپی لڑکیوں کے پیچھے لگا ہوا تھا‘ لگا رہتا۔ اس روز مجھے محسوس ہوا کہ خوبصورتی کے معاملے میں لبنان کا کوئی جواب نہیں۔ ماریو بولا: یار رئوف تم نے کیا اچھا مشورہ دیا تھا۔ ایسے ہی ان بیوقوف یونانی لڑکیوں پر وقت ضائع کر رہا تھا۔ دیکھا کتنی خوبصورت دوست مل گئی ہے۔ دو مچھیروں کی ہلاکت کے بعد اٹلی نے بھارت کے ساتھ جو کچھ کیا‘ اسے جس طریقے سے چکر دیتا رہا اس نے مجھے برسوں بعد نتاشہ کی بات یاد دلا دی کہ بعض چیزیں خدا انسان کے ڈی این اے میں ڈال کر پیدا کرتا ہے!! اب میرے بے چارے اٹالین دوست ماریو کا کیا قصور!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved