سترہ فروری کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو روزہ سرکاری دورۂ پاکستان سے دونوں مسلم ممالک کے دیرینہ‘ دوستانہ و برادرانہ تعلقات میں پہلے سے پائی جانے والی گرم جوشی اور ثبات کی تجدید ہوئی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس دورے سے یہ تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک اب پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی انشا اللہ دور رس اثرات و نتائج کی حامل ہو گی۔ سعودی حکومت نے جس طرح پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی ہے‘ وہ پاکستان کے معاشی استحکام کا سبب بنے گی۔ اس سے قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان ستمبر اور اکتوبر 2018ء میں سعودی عرب کے دورے کر چکے ہیں‘ جن میں ان کی سعودی قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ سعودی عرب نے نومبر‘ دسمبر 2018ء میں پاکستان کو اشد ضرورت کے موقع پر تین ارب ڈالرز کی مالی مدد فراہم کی تھی‘ جب اسے دوسرے ممالک سے حاصل کیے گئے عالمی قرضوں کی ادائیگی کے لیے شدید دبائو کا سامنا تھا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو آئندہ دو تین سال کیلئے تین ارب ڈالرز کا ادھار تیل بھی دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے بھی ہمارے ملک کی معیشت کو سنبھلنے اور مستحکم ہونے کا موقع ملے گا۔
یہ بالکل واضح ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے اس دورے سے دونوں ممالک کے مابین سیاسی اور معاشی افق پر تعاون میں وسعت پیدا ہوئی ہے‘ جس کے بعد سعودی عرب گوادر میں ایک آئل ریفائنری سمیت پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس سرمایہ کاری کے تسلی بخش نتائج سامنے آنے کے بعد توقع ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں مزید سرمایہ کاری بھی کرے گا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی باتوں اور بیانات میں اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
دونوں ممالک میں پُر جوش تعلقات کے ڈانڈے قیام ِپاکستان سے بھی پہلے کے زمانے سے ملتے ہیں‘ جب سعودی شاہی خاندان نے مسلم لیگ کی جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لیے کی گئی سیاسی جد وجہد کے ساتھ اظہار ہمدردی و یک جہتی کیا تھا۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سعودی عرب نے اس آزاد ریاست کو تسلیم کرنے میں ایک دقیقہ بھی فروگزاشت نہیں کیا۔ شاہ سعود بن عبدالعزیز پہلے سعودی حکمران تھے‘ جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ 1954ء میں کراچی تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد پاکستان کی طرف سے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان پہلے سربراہ مملکت تھے جنہوں نے 1960ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
شاہ فیصل نے 1966 اور 1974ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جون 1972ء میں بطور صدر اور ستمبر 1975ء میں بطور وزیر اعظم پاکستان سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ شاہ خالد بن عبدالعزیز اکتوبر 1976ء میں پاکستان تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران اسلام آباد میں فیصل مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہ خوبصورت مسجد سعودی فنڈنگ سے تعمیر کی گئی تھی۔ ولی عہد (جو بعد میں شاہ بھی بنے) فہد بن عبدالعزیز 1980ء اور شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز 2006ء میں پاکستان کے دورے پر یہاں تشریف لائے تھے‘ جب کہ ولی عہد (جو اب سعودی عرب کے شاہ اور خادم حرمین شریفین ہیں) سلمان بن عبدالعزیز نے 2014ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
جنرل ضیاالحق نے اپریل 1978ء میں سعودی عرب کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ بعد میں بھی وہ کئی مرتبہ سعودی عرب تشریف لے گئے۔ اس وقت سے لے کر اب تک تمام پاکستانی سربراہانِ مملکت اور سربراہانِ حکومت سعودی عرب کے دورے کرتے رہے ہیں۔ دو طرفہ اور کثیر جہتی امور پر مشاورت کے سلسلے میں وفاقی وزراء کی سطح پر بھی دورے ہوتے رہے ہیں‘ یعنی سعودی عرب کے وزرا پاکستان‘ اور پاکستان کے وزرا سعودی عرب کے دورے کرتے رہے ہیں۔ اعلیٰ عسکری حکام بھی باقاعدگی سے ایک دوسرے کے ممالک کے دورے کرتے رہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات نہایت گہرے اور مستحکم ہیں‘ جو اب مزیس مستحکم ہونے جا رہے ہیں۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کے تنازع کے دوران بھی سعودی عرب پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا رہا اور سعودی قیادت نے دسمبر 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کو عالم اسلام پر حملہ قرار دیا تھا۔ 1971ء کے سانحے اور صدمے پر قابو پانے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور سفارتی اور معاشی مدد کی تھی۔ یہی نہیں سعودی عرب نے دیگر مسلمان ممالک کو بھی پاکستان کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا تھا۔ سعودی عرب کے ایماء پر ہی فروری 1972ء میں جدہ میں منعقدہ اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں پاکستان کے حق میں قرار داد منظور کی گئی تھی۔ شاہ فیصل نے لاہور میں فروری 1974ء میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کانفرنس میں اقوام عالم کو دکھایا گیا کہ تمام اسلامی ممالک پاکستان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ سعودی عرب نے اس وقت تک بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا‘ جب تک کہ خود پاکستان نے فروری 1974ء میں اسے تسلیم نہیں کر لیا تھا۔ 1972-73 کے حج کے دوران سعودی عرب نے پاکستان سے مشاورت کے بعد ہی بنگلہ دیشی پاسپورٹ کو قبول کیا تھا۔
1970 اور 1980ء کی دہائیوں میں دونوں ممالک میں اقتصادی تعاون میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو گرانٹ اور سرمایہ کاری کی صورت میں اعانت فراہم کی۔ انہی دو عشروں کے دوران بڑی تعداد میں پاکستانی ہنر مند اور کارکن سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ گئے۔ بڑی تعداد میں پاکستانی اب بھی مختلف شعبوں میں سعودی عرب میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں جب کبھی زلزلے یا سیلاب کی شکل میں کوئی قدرتی آفت آئی تو سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ سعودی عرب نے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور فلاح عامہ کے دیگر منصوبوں کے لیے بھی دل کھول کر فنڈز مہیا کیے۔
1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بڑی تعداد میں سعودی طلبا و طالبات میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے پاکستان آیا کرتے تھے۔ چونکہ اب خود سعودی حکومت نے اپنے ہاں اعلیٰ معیار کی تعلیم و تربیت کی سہولتیں فراہم کر دی ہیں‘ اس لئے اب اس تعداد میں کمی واقع ہو گئی ہے۔
1967ء میں ہونے والے تکنیکی تعاون کے معاہدے کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے مابین دفاع اور سکیورٹی کے میدانوں میں تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دور سے ہی سعودی فوجی اہل کار پاکستان کے عسکری تربیتی اداروں میں ٹریننگ کیلئے آ رہے ہیں‘ جن میں ملٹری اکیڈمی کاکول اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسر وقتاً فوقتاً سعودی عرب میں ٹریننگ کی ذمہ داریاں نبھاتے رہتے ہیں۔
1979ء میں جب ایک انتہا پسند گروہ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا‘ تو پاکستانی فوج نے ہی یہ محاصرہ ختم کرنے میں سعودی عسکری اداروں کی مدد کی تھی۔ جب عراق کے صدر صدام حسین نے 1990ء میں کویت پر قبضہ کر لیا تھا تو پاکستان نے سعودی عرب کو پاکستانی فوجیوں کی مدد فراہم کی تھی۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سعودی عرب نے مسلمان ممالک پر مشتمل جو مشترکہ عسکری بندوبست کیا ہے پاکستان اس میں بھرپور انداز میں شریک اور شامل ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب‘ دونوں برادر مسلم ممالک نے بار ہا ایک دوسرے کی سکیورٹی اور علاقائی سلامتی کے دفاع کے عزم کا اظہار اور اعادہ کیا ہے؛ تاہم پاکستان نے سعودی عرب کے علاقائی ایجنڈے سے خود کو الگ تھلگ رکھا ہے‘ اور عرب ممالک کے باہمی سیاسی اور عسکری تنازعات میں ملوث ہونے سے گریز کیا ہے۔