تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     21-02-2019

کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال

مقبوضہ جموں و کشمیر میں جولائی 2016ء سے جو حالات چلے آ رہے ہیں اُن کے پیشِ نظر 14 فروری کو پلوامہ میں بھارت کی سنٹرل ریزرو پولیس کے قافلے پر جو خود کش حملہ ہوا‘ اُس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ 26 ماہ کے اس عرصے کے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز نے نہتے کشمیری شہریوں کی پُرامن تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ سینکڑوں کشمیری نوجوان گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ گولیوں کے علاوہ پیلٹ گن کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں عورتوں، بچوں اور دیگر افراد کے نہ صرف جسم اور چہرے بری طرح زخمی ہوئے بلکہ متعدد کو بینائی سے محروم کر دیا گیا۔ برہان مظفر وانی کی شہادت نے کشمیری نوجوانوں میں بھارتی قبضے کے خلاف نفرت کا جذبہ اتنا بھڑکا دیا ہے کہ پولیس اور فوج کے دستوں کی طرف سے طاقت کے بے دریغے استعمال کے باوجود یہ آگ ٹھنڈی نہیں پڑ سکی۔ اس کی وجہ سے کشمیری مجاہدین اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً شہید ہونے والے کشمیری نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پلوامہ کا حملہ انہی حالات کی پیداوار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے تشدد کا جو سلسلہ جاری ہے، پلوامہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرچہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے کیونکہ اس میں جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھی اس کی مذمت کی ہے، لیکن بھارتی حکام اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک کشمیر کے گلی محلوں اور سڑکوں پر انسانی لاشیں گرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی جس طرح پامالی کی جا رہی ہے، پوری بین الاقوامی برادری نے اس کی مذمت کی ہے اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون اور انصاف کے تقاضوں کے منافی اس طرز عمل کو ترک کرے۔ کشمیری اور خود بھارت کے انصاف پسند حلقے بھی اب بھارتی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ طاقت کے بے دریغ استعمال کی بجائے، کشمیریوں سے بات چیت اور اس مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ کشمیر کی موجودہ صورت حال اور بڑھتے ہوئے تشدد پر جن ملکوں نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ باہمی کشیدگی کم کرنے اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں، ان میں امریکہ، روس، چین اور خود اقوام متحدہ بھی شامل ہے۔ لیکن بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اس کا رویہ بدستور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت پلوامہ کے واقعہ پر بھارتی حکومت کا رد عمل ہے۔ 
بی جے پی کی حکومت نے کسی بھی قسم کے شواہد کے بغیر فوری طور پر پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا ہے‘ بلکہ بدلہ لینے کی دھمکیاں دی ہیں۔ اس قسم کے رد عمل سے کشیدگی اور بھی بڑھے گی اور اگر کسی مہم جوئی سے کام لیا گیا تو حالات خطرناک حد تک خراب ہو سکتے ہیں جو نہ پاکستان، کشمیری عوام اور نہ ہی بھارت کے حق میں بہتر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ایک دفعہ پھر بھارت پر زور دیا ہے کہ بے بنیاد الزام تراشی کی بجائے، مسئلے کے اصل محرکات کا جائزہ لیا جائے اور مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے‘ مگر پلوامہ کے حملے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں، ان کے پیش نظر بھارت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی‘ وہ اپنے رویے میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرے گا‘ بلکہ بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کو دیئے جانے والے موسٹ فیورٹ نیشن (M.F.N) سٹیٹس کی واپسی کی اطلاع اور اسلام آباد سے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دہلی واپس بلائے جانے کے اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ بھارت نے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا تیز کر دیا ہے۔ بھارت کی ڈپلومیسی کی کوشش یہ ہے کہ وہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کر دے کہ پاکستان مختلف حلقوں کی طرف سے متواتر مطالبے کے با وجود اپنی سرزمین سے ہمسایہ ملکوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ 
کشمیر کا مسئلہ در حقیقت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مسئلہ ہے‘ جس کا بھارت دہائیوں سے مرتکب ہو رہا ہے، لیکن بھارت نے اسے بڑی مکاری سے پاکستان کے ساتھ اسے دنیا کے سامنے ایک دو طرفہ مسئلے کے طور پر پیش کیا ہے۔ پاکستان اور کشمیری عوام کے نقطہ نظر سے اس مسئلے کے ساتھ سب سے بڑی نا انصافی یہ ہے کہ اسے ایک انسانی اور بین الاقوامی مسئلہ پیش کرنے کی بجائے، دو ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دو طرفہ مسئلہ سمجھا جا رہا ہے۔ اس طرح بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ پلوامہ کے واقعہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں یہ کنفیوژن صاف نظر آتی ہے۔ بجائے اس کے کہ عالمی برادری اور بڑی طاقتیں کشمیریوں کے حقوق پر پڑنے والے ڈاکے اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا نوٹس لیں، اس واقعہ کو ایک دہشت گردانہ کارروائی کے طور پر سمجھا جا رہا ہے، اور اس کے حوالے سے پاکستان پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ دہشت گردی‘ جس کے بارے میں دنیا بہت حساس ہے، کی آڑ میں بھارت عالمی برادری کی طرف سے کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر تنقید سے بچنا چاہتا ہے‘ مگر بھارت کی یہ کوشش بھی ناکام ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپنی ایک رپورٹ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر ہونے والی خلاف ورزیوں پر سے پردہ اٹھایا تھا۔ اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی ملکوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات پر زور دیا تھا۔ اس رپورٹ نے بھارت کو دفاعی انداز اپنانے پر مجبور کر دیا تھا کیونکہ کشمیر میں ہونے والے جرائم سے پردہ اٹھ گیا تھا؛ تاہم پلوامہ کے حملے کے بعد کی صورت حال ایک دفعہ پھر بھارت کے حق میں جا رہی ہے‘ کیونکہ دنیا اسے جدوجہدِ آزادی کے ایک کارنامے کی بجائے، دہشت گردی کی کارروائی سمجھ رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کو دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس کسی نے یہ کارروائی کی ہے یا اس کی منصوبہ بندی اور اعانت کی ہے اس نے نہ صرف کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ پاکستان کیلئے بھی ایک مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے‘ کیونکہ پاکستان اندرونی، خاص طور پر معاشی محاذ پر جن مسائل سے دوچار ہے، ان کی روشنی میں ملک کو کشیدگی سے پاک علاقائی ماحول کی ضرورت ہے‘ مگر پلوامہ حملے کے بعد بھارت بوکھلاہٹ کے عالم میں جو اقدامات کر رہا ہے ان سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ مئی میں پارلیمانی انتخابات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان طرفہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا‘ مگر اب نہ صرف یہ امید دم توڑتی نظر آ رہی ہے بلکہ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی میں پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت جو اہم اور مفید سی بی ایم (C.B.M) طے پائے تھے، ان پر عملدرآمد میں مشکل پیدا ہو جائے گی۔ سب سے زیادہ کاری ضرب کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار لوگوں کی آمدورفت اور تجارت کیلئے جو انتظامات مظفر آباد سری نگر بس سروس اور بارٹر ٹریڈ کی شکل میں موجود تھے، ان پر پڑے گی۔ اس طرح ان درپردہ کوششوں کو ہی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، جو خطے میں کشیدگی کم کرنے اور پاک بھارت تنازعات بشمول کشمیر کو پُرامن طور پر حل کرنے کی غرض سے کی جا رہی تھیں۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک بات مسلمہ ہے اور اس پر تمام فریقوں کا اتفاق ہے کہ اسے طاقت کے استعمال سے یا تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا واحد حل سیاسی ہے جس کو تلاش کرنا پاکستان اور بھارت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اور اس کے لیے محاذ آرائی کی بجائے دونوں ملکوں کو مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved