تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     20-04-2013

انتخابات اور دہشت گردی

انتخابات خواہ قومی ہوں یا مقامی،تشدد کا خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے۔ سو فیصد فُول پروف سکیورٹی انتظامات کے باوجود تشدد کے واقعات رُونما ہو جاتے ہیں۔جانیں ضائع ہوتی ہیں،مالی نقصان بھی ہوتا ہے ۔پاکستان کے تمام سابقہ انتخابات کی تاریخ سامنے رکھیں تو کوئی بھی انتخابی معرکہ تشدد سے خالی نہیں ملے گا۔انتخابات میں طاقت کا استعمال اور تشدد کے واقعات محض پاکستان تک محدود نہیں۔بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے۔لیکن 1952ء سے آج تک بھارت میں کوئی الیکشن تشدد سے پاک منعقد نہیںہوا۔نیپال اور بنگلہ دیش کا ریکارڈ بھی اس سے مختلف نہیں۔مگر تشدد کے واقعات مختلف نوعیت کے رہے ہیں۔ان کا بنیادی سبب فریقین میں انتخابی رنجشیں یا دھونس،طاقت اور دھاندلی کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش رہی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند روز سے انتخابی جلسوں،جلوسوں اور امیدواروں پر قاتلانہ حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ انوکھا اور تشویشناک ہے کیونکہ اس سے قبل کسی پارٹی یا گروپ کی طرف سے انتخابی عمل کو سبو تاژ کرنے کی اتنی منظم اور سفاکانہ کوشش نہیں کی گئی۔تین سیاسی جماعتیں یعنی اے این پی،پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا خصوصی طور پر نشانہ بن رہی ہیں۔ان میں سے سب سے زیادہ حملے اے این پی پر ہوئے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال منگل کے روز پشاور کے نزدیک اے این پی کے ایک انتخابی جلسہ پر خودکُش حملہ ہے جس میں 17افراد شہید ہوئے۔شہداء میں اے این پی کے کارکنان کے علاوہ بچے،عورتیں،عام شہری،صحافی اور پولیس آفیسر بھی شامل ہیں۔جناب غلام احمد بلور ،جو سابقہ حکومت میں وزیر برائے ریلوے رہ چکے ہیں،زخمی ہوئے۔اس سے قبل اتوارکے روزیعنی 14اپریل کو سوات میں اے این پی کے ایک رہنما مکرم شاہ کو قتل کر دیا گیاتھا۔ اُسی روز چارسدہ میں اے این پی کے ایک اور امیدوار قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے۔کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ یہ حملے صرف اے این پی پر ہی نہیں کیے جائیں گے بلکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کو بھی نشانہ بنایا جائے گاکیونکہ یہ تینوں سیاسی جماعتیں سیکولر نظریات کی حامل ہیں اور ملک میں ایک ایسا سیاسی نظام رائج کرنا چاہتی ہیں جو تحریکِ طالبان پاکستان کی نظر میں اسلام کے منافی ہے۔ اے این پی کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اب تک اُس کے 750کارکنان شہید ہو چکے ہیں۔ان میں سیاسی ورکر شامل ہیں اورممبران اسمبلی اور سینئر سیاسی رہنما بھی ۔اس کی مثال جناب بشیر احمد بلور تھے جنہیں گذشتہ سال دسمبر میں پشاور میں اُن کی رہائش گاہ کے سامنے ایک خود کش حملے میں شہید کر دیا گیاتھا۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی محفوظ نہیں رہیں۔چند دن قبل حیدر آباد میں ایم کیوایم کے ایک امیدوار فخر الاسلام کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ایک ماہ پہلے ایم کیو ایم کے ایک رُکن اسمبلی کو کراچی میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیاتھا۔کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے ان دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔اسی طرح سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 95 میں پیپلز پارٹی کے ایک متبادل امیدوار کو چند روز قبل نامعلوم حملہ آوروں نے اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔سرکاری ذرائع کے مطابق انتخابی جلسوں،جلوسوں اور امیدواروں پر قاتلانہ حملوں میں ٹی ٹی پی کے علاوہ لشکرِ جھنگوی کے مسلح کارکنان بھی ملوث ہیں۔ دہشت گردی کی اس لہر میں اگرچہ زیادہ نقصان اے این پی ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ہوا لیکن دوسری سیاسی پارٹیاں بھی محفوظ نہیں۔بلوچستان میں مسلم لیگ (ن)کے رہنما ثناء اللہ زہری کے انتخابی قافلے پر حملہ ہوا جس میں اْن کے بیٹے،بھائی اور بھتیجے کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں آفتاب احمد شیر پائو کی جماعت قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے ۔ ان حملوں اور جانی نقصانات کے باوجود سیاسی جماعتوں کے حوصلے بلند ہیں اور اُنہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اِن بزدلانہ حملوںسے مرعوب ہوئے بغیر نہ صرف اپنی انتخابی سرگرمیاں جاری رکھیں گی بلکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ بھی کریں گی؛تاہم ان سیاسی پارٹیوں کی قیادت نے اپنے انتخابی حکمتِ عملی تبدیل کر کے اپنے کارکنوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے اور ہدایات جاری کی ہیں کہ بڑے جلسے اور جلوسوں کی بجائے ڈور ٹو ڈور مہم چلائیں اور کارنر میٹنگزکی حکمتِ عملی اپنائیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ صرف پنجاب میں انتخابی مہم جاری ہے اور بڑے بڑے جلوس نکالے جارہے ہیں یا جلسے منعقد کیے جا رہے ہیں۔باقی تین صوبوں میں سکیورٹی کی ابتر صورتِ حال کی وجہ سے انتخابی مہم ماند پڑ چکی ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں تمام سیاسی پارٹیوں نے متفقہ طور پر دہشت گردی کے خدشے کے پیشِ نظر اپنی مہم کو چار دیواری تک محدودرکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس صورتِ حال کے باوجود کسی سیاسی پارٹی نے نہ تو اپنی انتخابی مہم معطل کرنے کے بارے میں سوچا ہے اور نہ ہی اُنہوں نے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس مشکل مرحلے پر ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ساسی پارٹیوں کا یہ جرأت مندانہ فیصلہ خوش آئند ہے۔اس سے یقیناجمہوری عمل کو تقویت ملے گی اور دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔لیکن جمہوریت پسند حلقوں کو صرف اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیوں کا مُنہ توڑجواب دینا چاہیے۔اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر دہشت گردوں اور اُن کی کارروائیوں کی بھر پور مذمت کریں اور واضح طورپر اعلان کریں کہ نہ تو انتخابات کو کسی قیمت پر موخر ہونے دیا جائے گااور نہ ہی جمہوری عمل کو کسی طور سبو تاژ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ قوم کو جمہوری اور سیاسی قوتوں کے درمیان اتحاد اوریک جہتی کی جتنی ضرورت آج ہے ملک کی پوری تاریخ میں اتنی کبھی نہ تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کا اصلی ہدف محض کوئی فرد یا پارٹی نہیں بلکہ اُن کا اصل نشانہ جمہوری قدروں اور اسلامی اصولوں پر مبنی وہ آئینی اور قانونی نظام ہے جس کا خاکہ برصغیر کے مسلمانوںکے سامنے علامہ اقبال اور قائد اعظم نے پیش کیا تھااور جس پر پوری قوم نے متعدد بار اعتماداور یقین کا اظہار کیا ۔یہ قومی اتفاقِ رائے ،جو پہلے1956ء کے دستور کی بنیاد تھا اور اب 1973ء کے آئین کی شکل میں موجود ہے،پاکستان کے اتحاد،سالمیت اور آزادی کی ضمانت ہے۔جو گروہ یا جماعت اس آئینی اور قانونی نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتی ہے وہ دراصل پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلاکرنا چاہتی ہے۔کوئی بھی مُحبِ وطن پارٹی اُسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ خاموشی اور مصلحت کی پالیسی ترک کی جائے اور تمام سیاسی جماعتیں خصوصاََ مذہبی سیاسی جماعتیں بھر پور طریقے سے دہشت گردی کی مذمت کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا خمیازہ ہمیں نہ صرف جمہوریت سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا بلکہ پاکستان میں قومی یک جہتی کا عمل ،جس کی حالت پہلے ہی کافی مخدوش ہے، بُری طرح متاثر ہو گا۔کچھ حلقوں کی طرف سے اس بات کو خاص طور پر اُچھالا جا رہا ہے کہ آخر صرف چھوٹے صوبوں میں ہی کیوں دہشت گردسرگرمِ عمل ہیںاور پنجاب میں انتخابی سرگرمیاں بلا خوف و خطر جاری ہیں۔پھر یہ سوال بھی اْٹھایا جا رہا کہ آخراے این پی،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مذہبی سیاسی پارٹیوں نے اس مسئلے پر جو چُپ سادھ رکھی ہے اُسے بھی کئی معنی پہنائے جارہے ہیں۔ایک ایسی قوم ،جو پہلے ہی مذہبی گروہ بندی اور فرقہ پرستی کی شکار ہے ،سیاسی بنیادوں پر مزید نفاق(Polarization)کی متحمل نہیں ہو سکتی۔صورتِ حال کو اگر جوں کی توں کیفیت میں رہنے کی اجازت دی گئی اور سیاسی قوتوں نے اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا اور جرأت مندانہ فیصلے سے احتراز کیا تو اس سے قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔دہشت گرد اور اُن کی سر پرست غیر جمہوری قوتیں غالباً یہی چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لیے ملک میں بم دھماکوں،خود کُش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے خوف وہراس کی فضاپیدا کی جا رہی ہے۔اب یہ ان ڈیڑھ سو کے قریب سیاسی پارٹیوں پر منحصر ہے کہ وہ جتنی گرم جوشی سے انتخابی معرکہ میں اُتری ہیں اُتنے ہی حوصلے اور بہادری کے ساتھ جمہوریت کودرپیش چیلنج کا مقابلہ کرتی ہیں یا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved