تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-02-2019

تاریخ کے قیدی… (2)

آسام کے مندر کا سوامی آنند کافی دیر تک سوچتا رہا ۔ ہندوستان کی آزادی کا زائچہ بنانے کے بعد اس کے اندر گھبراہٹ بڑھ گئی تھی ۔ کوئی قوت اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ فوراً کچھ کرے‘ وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کو روکے۔ آسمانی قوتوں کے زیر اثر اس اندرونی آواز کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے کاغذ قلم اٹھایا اور ہندوستان کے نئے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ سوامی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کن الفاظ کا چنائو کرے تاکہ وائسرائے پندرہ اگست کی بجائے سولہ اگست کی تاریخ کو ہندوستان کو آزاد کرے۔ بے چین سوامی نے چند مختصر لکیریں ایک کاغذ پر کھینچ دیں۔ ''تمہیں بھگوان کی قسم، ہندوستان کو پندرہ اگست کو آزادی مت دو۔ اگر تم نے دی اور آنے والے وقتوں میں اس خطے میں سیلاب ، قحط ، بھوک ، جنگیں، قتل عام اور خون خرابہ ہوتا رہا تو تم ہی اس کے ذمہ دار ہوگے کیونکہ ہندوستان کا جنم ایک سٹار کے بدترین اثرات کے زیر اثر ہورہا ہوگا ‘‘۔ 
لارڈ مائونٹ بیٹن بھلا آسام کے اس پجاری کو کیسے سمجھا سکتا تھا کہ وہ کچھ دن پہلے پشاور اور کہوٹہ میں کیا تباہی دیکھ کر دہلی لوٹا ہے اور اس کے خواب کیسے چکنا چور ہوگئے ہیںجو وہ لے کر ہندوستان آیا تھا ۔ مائونٹ بیٹن کو سرحد اور پنجاب کے دورے نے مجبور کر دیا تھا کہ وہ برطانوی وزیراعظم ایٹلی کی 1948ء تک دی گئی ڈیڈ لائن کا انتظار کیے بغیر فوری طور پرپاکستان ہندوستان کو آزاد کرے اور دہلی پہنچ کر پریس کانفرنس میں آزادی کی تاریخ کا اعلان کر دے۔جب مائونٹ بیٹن سے صحافی نے پوچھا کہ وہ کس تاریخ کو ہندوستان کو آزاد کرے گا، تو کوئی نہیںجانتا تھا کہ وہ کس ہیجانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ وہ برسوں برطانوی فوج کی طرف سے برما کے جنگلوں میں جنگ لڑتا رہا‘ لیکن جو کچھ اس نے راولپنڈی کے ایک گائوں میں دیکھااس نے مائونٹ بیٹن کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 
چند دن پہلے اپنی بیوی ایڈوینا کے ساتھ جب مائونٹ بیٹن پنجاب پہنچا تھا تو گورنر پنجاب اسے راولپنڈی کے ایک گائوں لے گیا، جہاں بدترین فسادات ہوئے تھے ۔ اس گائوں میں دو ہزار ہندو رہتے تھے، جبکہ سکھوں اور مسلمانوں کی آبادی پندرہ سو تھی۔ ان سب نے مل کر ایک دوسرے کے لہو سے ہولی کھیلی اور ہر طرف تباہی اور بربادی کے مناظر نے مائونٹ بیٹن کا استقبال کیا تھا۔ اس گائوں میں اگرکوئی چیز دور سے دیکھی جاسکتی تھی ‘جو اس دن بچ گئی تھی تو وہ ایک مسجد اور سکھوں کا گوردوارہ تھا ۔ باقی سب کچھ جل کر راکھ ہوچکا تھا ۔ صرف ایک رات پہلے گوروں کی ایک رجمنٹ اس گائوں سے گزری تو یہ تین چار ہزار لوگ بڑے آرام سے اچھے ہمسایوں کی طرح آرام اور بھروسے کے ساتھ سو رہے تھے‘ جیسے وہ برسوں سے کرتے آئے تھے۔ صبح تک پنڈی اطلاع پہنچی کہ اس گائوں میں اب کوئی نہیں بچا ۔ کہیں سے بھیڑیوں کے غول کی طرح کچھ لوگ اس گائوں پرحملہ آور ہوئے جن کے ہاتھوں میں پٹرول تھا‘ جس سے انہوں نے پہلے سکھوں اور ہندوئوں کے گھر جلانے شروع کیے اور پھر مسلمانوں کی باری آئی ۔ خوش قسمت بھاگ گئے باقی مارے گئے۔ چند لمحوں میں پورا گائوں آگ کے شعلوں میں جل رہا تھا ۔ ہر طرف چیخ و پکار ہورہی تھی۔جلی ہوئی لاشوں اور انسانی لہو کی بو کئی دن تک اس علاقے پر چھائی رہی۔ 
اس لیول کی تباہی دیکھنے کے بعد دہلی لوٹ کر لارڈ مائونٹ بیٹن نے لندن ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا: 'جب تک میں کہوٹہ نہیں گیا تھا مجھے اس خوفناک تباہی کا اندازہ نہ تھا ‘ پنڈی کے اس گائوں میں ہونے والے اس قتل عام نے مائونٹ بیٹن کی سوچ کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا ۔پنجاب کے اس گائوں آنے سے پہلے جب مائونٹ بیٹن پشاور پہنچا تو جہاز کے اترنے سے پہلے ہی وہ ہزاروں پٹھانوں کو شہر بھر میں دیکھ سکتا تھا جو اس کی آمد پر اکٹھے ہوئے تھے۔ شدید گرمی نے پٹھانوں کے مزاج کو مزید گرم کیا ہوا تھا ۔ اس مجمع میں پھیلے غصے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس صوبے کی 93 فیصد آبادی مسلمان تھی‘ لیکن وہاں حکومت ان پارٹیوں کی تھی جو مسلم لیگ کے اس نعرے پر یقین نہیں رکھتی تھی کہ ہندوستان کو تقسیم کیا جائے۔ عبدالغفار خان، جنہیں سرحدی گاندھی کا خطاب ملا ہوا تھا‘ جوپٹھانوں کے اس معاشرے میں، جہاں معمولی سے جھگڑے کا فیصلہ بھی بندوق اور گولی سے ہوتا تھا‘ گاندھی کی عدم تشدد کی پالیسی پر سیاست کررہے تھے۔ سڑکوں پر پٹھان اب بپھرے ہوئے تھے ۔ یہ سب ہزاروں بپھرے ہوئے لوگ اس لیے آج پشاور میں اکٹھے ہوئے تھے کہ وہ لارڈ مائونٹ بیٹن ، ان کی بیوی ایڈوینا اور سترہ سالہ بیٹی پامیلا کو یہ بتا سکیں کہ یہ صوبہ مسلم لیگ کا گڑھ ہے نہ کہ سرحدی گاندھی کا ۔ وہ سب اپنا یہ پیغام اچھی طرح نئے وائسرائے ہند کے ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی پہنچانے میں کامیاب ہوچکے تھے ‘جو جہاز کی کھڑکی سے نیچے پشاور کی سڑکوں پر ہر طرف پھیلی پگڑیاں دیکھ چکا تھا۔ 
جب انگریز گورنر سرحد نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ مائونٹ بیٹن کو سخت سکیورٹی میں ایئرپورٹ سے سیدھا اپنی رہائش گاہ لے گیا ۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ صورتحال کو خراب کررہا تھا۔ اب تک تو پولیس والوں نے اس ہجوم کو ایک جگہ قابو کر رکھا تھا‘ لیکن لگ رہا تھا زیادہ دیر تک وہ ہزاروں کے اس بپھرے مجمعے کو نہیں روک سکیں گے۔ وائسرائے کی آمد کی خبر سن کر وہ سب اور زیادہ پرجوش ہوگئے تھے۔ اب ہجوم یہ دھمکی دینے پر اتر آیا تھا کہ وہ لوگ پولیس کا حصار توڑ کر گورنر سرحد کی رہائش گاہ پر چڑھائی کریں گے جہاں مائونٹ بیٹن اپنی بیوی، اور بیٹی کے ساتھ موجود تھا ۔
وہ گورنر ہاؤس کی طرف مارچ شروع کرتے تو پولیس اور فوجی دستوں کے پاس ہجوم پر فائرنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچتا ۔ اگر صورتحال یہاں تک پہنچ جاتی تو یہ سوچ کر ہی بندہ کانپ اٹھتا ہے کہ کتنے لوگ اس میں مارے جاتے‘ جیسے جلیانوالہ باغ میں مارے گئے تھے۔ کیا مائونٹ بیٹن جنرل ڈائر کی طرح ہندوستان چھوڑنے سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں لاشیں چھوڑ جانا افورڈ کرسکتا تھا ؟جبکہ جلیانوالہ باغ کا لہو ابھی تازہ تھا۔ اگر ہجوم گورنر ہاوس کی طرف مارچ شروع کردیتا جہاں مائونٹ بیٹن ، اپنی بیوی اوربیٹی کے ساتھ موجود تھا ، اور ہجوم کو روکنے کے لیے فائرنگ شروع ہوجاتی تو مائونٹ بیٹن تباہ ہوکر رہ جاتا ، اس کا ہندوستان کو سکون اور آرام سے آزاد کرنے کا خواب بکھر جاتا۔ 
مائونٹ بیٹن کے چہرے پر پھیلی شدید پریشانی دیکھ کر انگریز گورنر نے ایک خوفناک تجویز پیش کی۔ وہ تجویر سن کر پولیس اور فوجی کمانڈر نے فوراً مخالفت کر دی۔ 
مائونٹ بیٹن کافی دیر تک اپنے گورنر کی طرف دیکھتا رہا جو اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا ۔ آخر لارڈ مائونٹ بیٹن کے اندر موجود ایک برطانونی جنگجو افسر نے ،جو برما کے محاذ پر جنگ عظیم لڑ چکا تھا‘ انگڑائی لی۔ اس نے وہ خطرناک قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا جس کا مشورہ اسے گورنر نے دیا تھا۔ ''ٹھیک ہے۔ میں تیار ہوں۔ میں یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہوں‘‘ مائونٹ بیٹن بولا۔ 
لیکن مائونٹ بیٹن کو پتہ نہیں تھا اس سے بڑا جوا اس کی بیوی ایڈوینا مائونٹ بیٹن کھیلنے جارہی تھی ‘جو اب تک خاموشی کے ساتھ کھڑی ساری گفتگو سن رہی تھی۔
اگلے چند لمحوں میں کیا ہونے والا تھا وہ کسی کو پتہ نہیں تھا ۔ پشاور کی سڑکوں پر بپھرے پگڑیاں پہنے پٹھان گورنر ہاؤس پر چڑھائی کی دھمکی دے رہے تھے ‘جبکہ گورنر کی رہائش گاہ میں محصور لارڈ مائونٹ بیٹن اپنی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیلنے کو تیار ہوچکا تھا۔ 
لیڈی مائونٹ بیٹن نے اپنے خاوند کو دیکھا اور بولی کہ وہ اسے یہ جوا اکیلے نہیں کھیلنے دے گی ۔ مائونٹ بیٹن امتحان میں پھنس گیا ۔ایک طرف انگریز گورنر کا خوفناک مشورہ تھا، جسے فوجی کمانڈر اور پولیس فورس کے سربراہ مسترد کر چکے تھے تو دوسری طرف ایڈوینا مائونٹ بیٹن اچانک ہی ضد پر اتر آئی تھی ۔ پشاور کی سڑکوں پر پگڑیاں پہنے ہزاروں بپھرے ہوئے پٹھان گورنر کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کی دھمکی دے رہے تھے تو اسی وقت گھر کے اندر ضد پر اتری مائونٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا ، لیڈی ایڈوینا بے چینی سے اپنے شوہر کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ اس کی ضد پر کیا فیصلہ کرتا ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved