تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     22-02-2019

سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے؟

میرے دائیں ہاتھ عربی روزنامہ الشرق الاوسط کے ایڈیٹر ان چیف بٹھے تھے۔ ان کے ساتھ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین ہارون شریف‘ سامنے ایک شہزادہ براجمان تھا۔ بائیں طرف افتخار درانی پھر دوسرے۔ سابق وزیر اعظم ہائوس کے ڈائننگ ہال سے باہر جاتے ہوئے نوجوان ولی عہد مسکرایا۔ سر کے اشارے سے اظہار تشکر کرتے ہوئے گزر گیا۔ افتخار درانی کہنے لگے: محمد بن سلمان بہت سمارٹ آدمی ہے۔ 
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کے وزیر خارجہ نے بھارت پہنچ کر سمارٹنیس کی انتہا کر دی۔ 2 متحارب علاقائی ایٹمی طاقتوں کے درمیان۔ ایسی سمارٹنیس کہ بھارت کا متعصب میڈیا، حکمران اور تہلکہ کار، تڑپ کر رہ گئے۔ سعودی لیڈرشپ سے پرو چانکیہ، پتر کار نے پوچھا: پلوامہ دہشت گردی پر آپ پاکستان کی کھل کر مذمت کرتے ہیں؟ ذرا ٹھہریئے! اس سوال میں چھپے ہوئے اُس تیز دھار کانٹے کو دیکھ لیں‘ جو مچھلی کو حلق سے پکڑنے کے کام آتا ہے۔ سوال پوچھنے والے نے انگریزی زبان میں Presumption ڈرا کر دی۔ اور وہ یوں کہ سعودی لیڈرشپ پاکستان کی دل ہی دل میں تو مذمت کر ہی رہی ہے۔ لیکن اب سعودی لیڈرشپ کے سامنے پاکستان کی دہشت گردی کی کھلی مذمت کرنے کا آپشن رکھا گیا۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ''کس بات کی مذمت؟ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا ثبوت کہاں ہے؟‘‘۔ ایسے ہی موقعے کے لیے شاعر نے کہا تھا: 
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے 
سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے
میں سابق وزیرِ اعظم ہائوس کی بات کر رہا ہوں۔ اب عمران خان نہ یہاں رہتے ہیں‘ اور نہ آتے ہیں‘ بلکہ وزیرِ اعظم ہائوس کے کمپائونڈ میں اپنے ملٹری سیکرٹری کا جو گھر انہوں نے اپنے لیے چُنا تھا‘ وہ بھی واپس کر دیا ہے۔ وزیرِ اعظم ہائوس اب کوئی نہیں۔ عمران خان بنی گالا والے اپنے گھر میں ہی رہ رہے ہیں۔ جسے انہوں نے کیمپ ہائوس ڈیکلیئر کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ جس کی وجہ یہ بنی کہ رولز آف بزنس کے مطابق وزیرِ اعظم کا کیمپ ہائوس سرکاری خرچے پر چلتا ہے۔ عمران خان اپنے گھر میں اپنے ہی خرچ پر رہتے ہیں۔ آپ کو جاتی امرا والا وزیرِ اعظم کیمپ ہائوس تو یاد ہی ہو گا‘ جس پر صرف ستر‘ اسّی کروڑ میں حفاظتی کنکریٹ وال بنائی گئی۔ جمہوریت کی یہ دیوارِ گریہ آج بھی غریبوں کے بجٹ پہ آنسو بہا رہی ہے۔ بات ہو رہی تھی وزیر اعظم ہائوس میں کرائون پرنس کے اعزاز میں بینکویٹ کی۔ بہت کم دوست جانتے ہیں کہ سعودی عرب میں گرفتار پاکستانیوں کے خلاف الزامات کیا ہیں۔ لیکن جس جنون سے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ان کا مقدمہ شاہی عدالت کے سامنے رکھا‘ اس کی تاثیر نے محض چند گھنٹوں میں دو ہزار ایک صد، سات قیدیوں کے لیے شاہی زندان کے تالے کھلوا دیئے۔ 
پچھلے کئی مہینوں سے اصولی مؤقف کے نام پر وصولی کرنے والوں نے عمران خان کا نام بھکاری اور اناڑی رکھ لیا ہے۔ اگر قوم کو دلّدر سے نکالنا اور معیشت کو راہ پہ ڈالنا بھِک منگے کا کسب ہے تو پھر بلا شبہ ایسی بھیک انہوں نے پہلی دفعہ نہیں مانگی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال سے نمل انٹرنیشنل یونیورسٹی تک‘ بھیک مانگ کر بنائے گئے۔ وصولی برگیڈ قوم کو یہ اصولی راز بتانا پسند نہیں کرتا کہ جاتی اُمرا سے مے فیئر جیسے لینڈ مارک راج محل کتنے مزدوروں، کسانوں اور کلرکوں کے خون پسینے کی کمائی سے بنے۔ پس ثابت ہوا ذاتی جائیداد بنانے کے لیے کک بیکس اور کمیشن مانگنے سے قومی ترقی کے لیے بھیک مانگنا ہزار بار بہتر ہے۔ رہا وزیر اعظم عمران خان صاحب کے اناڑی ہونے کا سوال تو یہ بھی طے شدہ معاملہ ہے۔ اس لیے بحث کیسی؟ کھلاڑی اور اصلی جمہوریت والا وزیرِ اعظم تو اپنا چوری کا مال فالودے والے اکائونٹس میں ڈال کر حلال کرتا ہے۔ ایسے میں وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اگلے 70 برسوں کے لیے ایسے اناڑیوں کے حوالے کر دیا جائے‘ جو وزیرِ اعظم بن کر بھی اپنے خرچے پر گزارہ کر سکیں۔ کالے دھن والے کھلاڑیوں کے کھیل پر چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب سے اچھا تبصرہ کوئی نہ کر سکا۔ اس اعلیٰ جوڈیشل سکالر نے بے نامی اکائونٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ''فالودے والے کو درخواست دائر کرنی چاہیے تھی۔ اکائونٹس میں موجود پیسوں کے بارے میں اتنی تفتیش کیوں ہو رہی ہے۔ کیا سارا ملک خاموش ہو جائے؟ ایک ارب ڈالر اکائونٹ میں ہوں تو 337 سال تک روزانہ 14 لاکھ روپے خرچ کیے جا سکتے ہیں‘‘۔ 
دیکھنے والی آنکھیں بند ہوں تو تب بھی دیکھ سکتی ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے ۔ 'ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ والا قدیم مقولہ جدید دور میں سچ ثابت ہو چکا ہے ۔ آج کے وہ ظلمت فروش بھی‘ جو بھارت کی عظمت کے گن گاتے ہیں‘ اپنے بچوں سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ نئی نسل کو چیٹ نہیں کر سکتے۔ آج اگر کوئی غلط تاریخ، غلط اعداد و شمار اور غلط نمبرز بتائے تو بچے سچ گوگل کر کے اسے فوراً شرمندہ کر دیتے ہیں۔ اسی سچ کا سامنا آج بھارتی انتہا پسند لیڈروں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی سچ نے بھارت کے سیکولر چہرے پر کہیں کشمیر کی پیلٹ گنوں کی سیاہی، ناگا لینڈ پر بم باری کی تباہی‘ دربار صاحب امرت سر کے شعلوں کا دھواں اور گائے کے تحفظ کے لئے ہر روز مارے جانے والے بے بس انڈین محمڈنز کا بے گناہ خون مل دیا ہے اور بھارت کے عالمی چہرے کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اگر بھارت کے اندر انتہا پسند براہمن کے مظالم ایک طرف رکھ دیں‘ تب بھی یہ بات دیوار پر لکھی ہے کہ بھارت میں جمہوریت، سیکولر ازم اور آئین کا مطلب ہے‘ ہندوتوا۔ پہلا واٹر لو انڈیا کی اپنی سر زمین ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ مودی کے بھارتی ماڈل میں گائے اور بندر کو احترام دینے لیے ابن آدم اور حوا کے بیٹے، بیٹیاں مارنا جائز ہے۔ 
لہٰذا‘ مودی نے مہاتما گاندھی کی سیاست عملی طور پر دفنا دی۔ مودی ہندوتوا کی دوسری شکست ایشیا کے علاقائی میدان میں ہوئی‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت محمد بن سلمان کی بھارت یاترا میں سامنے آیا۔ جب کہ اس شکست کے تسلسل کا میدانِ ثالث چین، روس، امریکہ اور مشرق و مغرب کے دارالحکومتوں سے برآمد ہو چکا ہے۔ ہر جگہ سے بھارت کو یہی پیغام ملا: کشمیر اور دوسرے مسائل پر پاکستان سے مذاکرات کرو۔ باہمی گفت و شنید سے تمام مسائل کا حل تلاش کرو۔ مودی نے مشکوک پلوامہ واردات کے بارے میں بھارت کے اندر سے اُٹھنے والے سوال نظر انداز کر رکھے ہیں۔ عالمی برادری میں اُن سوالوں کو پذیرائی مِلی جو ہمارے اناڑی وزیرِ اعظم نے اُٹھائے۔ شاباش اناڑی! آپ نے کھل کر کہا: انڈیا نے جھک ماری تو پاکستان سوچے گا نہیں‘ سخت جواب دے گا۔ حیف ہے کھلاڑی پر جس کا ڈان انٹرویو، کلبھوشن کے وکیل Harish Salve نے عالمی عدالتِ انصاف میں پیش کیا۔ جی ہاں اس پاکستان کے خلاف کھلاڑی جس کو 3 مرتبہ وزیرِ اعظم بنایا گیا۔
چار پیسے کی کھنک ان کے لیے پائل کا راگ
چُھپ کے ٹھنڈی راکھ میں سوئے ہوئے ہیں ان کے بھاگ 
چند سکوں کے لیے ہے بنتِ صحرا کا وقار 
ان کے پہلو میں تصور اور خیالوں کے مزار
شام کے ڈھلتے ہوئے سائے جدھر جاتے ہیں دوست 
ان کی تقدیروں کے مالک اس طرف آتے ہیں دوست 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved