تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     22-02-2019

نیب کا گھیرا اور پی ٹی وی کا تنازع

قارئین! آج ہم ایک سے زیادہ موضوعات پر بات کریں گے‘ جیسے یوٹیلٹی بلوں کے جھٹکے، نیب کے تازہ ترین اور متوقع اسیران، فواد چودھری اور نعیم الحق کے مابین جھڑپیں۔ 
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان خوش آئند اور یادگار دورے کے بعد واپس جا چکے ہیں۔ ان کا یہ دورہ پاکستان کی معاشی بد حالی اور نازک اقتصادی صورتحال کے لیے یقینا آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ قوم خوش گمان ہے... خدا کرے کہ خوش گمانی سے شروع ہونے والے اس سفر کا اختتام خوشحالی کی منزل پر ہی ہو۔ خوشحالی کی منزل کب آئے گی؟ اس کا فیصلہ تو سفر کا دورانیہ ہی طے کرے گا۔ یہ دورانیہ مختصر ہو یا طویل‘ لیکن گیس اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے بلبلاتے ہوئے عوام کو‘ وزیر اعظم صاحب کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے باوجود کوئی ریلیف نہیں مل سکا ہے۔ بلوں میں اوور چارجنگ عام آدمی کے لیے جان کا عذاب بنی ہوئی ہے۔ روٹی کے جھنجھٹ میں مبتلا شہری بلوں کی درستی کے لیے دفاتر کے دھکے کھانے کے بعد اب حوصلہ ہار بیٹھے ہیں۔ خوشحالی کے اس سفر کی تکمیل تک عام آدمی کون کون سے عذاب سے گزرے گا؟ یہ وہی جانتا ہے۔ 
جس تن لاگے‘ وہ تن جانے 
بل کی درستی کے لیے دفاتر کے دھکے کھانے والے ایک دل جلے نے کہا کہ وزیراعظم صاحب نے بلوں میں اوور چارجنگ کا نوٹس تو لے لیا اور اس حوالے سے سخت بیان بھی جاری کر دیا‘ لیکن دفاتر میں بیٹھے ہوئے بابوؤں پر کسی بیان کا اثر نہیں ہوتا‘ اب کیا کریں؟ وزیر اعظم کے بیان کا تراشہ بل کے ساتھ لگا کر دے آئیں یا اس کا مرہم بنا کر لگا لیں؟ قرض لے کر اور مانگے تانگے پر بل جمع کروانے والے کہتے ہیں کہ اس مہینے تو بھگت لیا‘ آئندہ ماہ کیا کریں گے؟ بل کیسے ادا کریں گے؟ قرض کہاں سے واپس کریں گے؟ 
اب چلتے ہیں‘ احتسابی ادارے کے تازہ ترین مہمان آصف علی زرداری کے بچپن کے دوست اور سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی طرف۔ انہیں اسلام آباد سے ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا گیا‘ جبکہ کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر 8 گھنٹے کی کارروائی کے بعد مہنگی گاڑیوں، جائیدادوں اور دیگر اہم امور سے متعلق دستاویزات قبضے میں لے لی گئیں۔ اس کارروائی کے فوری بعد آصف علی زرداری ایک دن میں دو مرتبہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر چکے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے اَپوزیشن کا فوری طور پر متحد ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے... جبکہ آصف علی زرداری صاحب نے کہا ہے ''اَب حکومت کو مزید وقت نہیں دیا جائے گا... مقابلہ کیا جائے گا... ہم ڈرنے والے نہیں... جیل میرا دوسرا گھر ہے‘‘۔ 
آصف علی زرداری کا یہ بیان دور اندیشی پر مبنی ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر فوری ردِّ عمل اور احتجاج نہ کیا گیا تو شاید پھر انہیں احتجاج اور مزاحمت کا موقع ہی نہ ملے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ احتساب کا گھیرا آصف علی زرداری کے گرد مزید تنگ ہو رہا ہے... اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ احتساب کرنے والا ادارہ مارچ میں ''کوئیک مارچ‘‘ کرنے جا رہا ہے‘ جس کے نتیجے میں آصف علی زرداری سمیت ان کے دیگر قریبی بھی اس ادارے کے مہمان بننے والے ہیں۔ نیب کی اس کارروائی کے بعد سندھ حکومت‘ خصوصاً پیپلز پارٹی کی قابلِ ذکر شخصیات انتہائی تشویش اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ آغا سراج درانی کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی کی قیادت کے ''واویلا‘‘ پر نیب نے اعلامیہ جاری کیا ہے کہ ملک بھر میں بد عنوانی کے خلاف نیب کی کارروائیاں جاری ہیں‘ اور یہ کارروائی بھی اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 
قارئین! سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق کے درمیان ٹھن گئی ہے۔ دبے دبے اختلافات کے بعد وہ اب کھل کر ایک دوسرے کے مدِّ مقابل آ چکے ہیں۔ نعیم الحق کہتے ہیں: عمران کے فلسفے سے متصادم پالیسیاں چلانے والوں کا پارٹی میں کوئی مستقبل نہیں۔ انہوں نے فواد چودھری پر الزام لگایا کہ ان کی بد زبانی کی وجہ سے پی ٹی وی اپنا کاروباری ہدف پورا نہ کر سکا... جبکہ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ نا اہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے سرکاری ٹی وی پی ایس ایل کے حقوق حاصل نہ کر سکا‘ جو ایک بڑا نقصان ہے۔ وہ نعیم الحق کے بارے میں مزید کہتے ہیں؎
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا 
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے 
قارئینِ کرام! یہ صورتحال قطعی غیر متوقع نہیں... جلد یا بدیر یہ ہونا ہی تھا... یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ میں اپنے ایک حالیہ کالم بعنوان ''ریکارڈ توڑ حکمران‘‘ میں پی ٹی وی میں بے قاعدگیوں اور میرٹ کے برعکس فیصلوں کے حوالے سے چند چشم کشا انکشافات کر چکا ہوں۔یہی کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد بد قسمتی سے پاکستان ٹیلی ویژن ایک ایسے گروہ کے ہتھے چڑھ چکا ہے‘ جو اس ادارے کو اس طرز پر چلا رہے ہیں گویا پی ٹی وی کو خدانخواستہ آخری بار چلایا جا رہا ہو... بتدریج اس وہ حالت کی جا رہی ہے کہ حکومت خود سے اس جان چھڑائے اور اونے پونے کسی کو دے ڈالے۔ 
اس سارے تناظر میں فواد چودھری اور نعیم الحق کا ایک دوسرے کے مدِّ مقابل آ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں... یہ صورت حال توقع کے عین مطابق ہے۔ پہلے بھی کئی مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ وزارتِ اطلاعات میں نا جانے کیا ''جڑا‘‘ ہوا ہے کہ وزارت ایک ہے اور چلانے والے کئی... ان حالات میں نعیم الحق وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے بجائے معاونِ خصوصی برائے ''ہر محکمہ‘‘ معلوم ہوتے ہیں... جو ہر معاملے میں، ہر جگہ اور ہر وقت بولنے کو تیار رہتے ہیں۔ پی ٹی وی کا مین آفس اسلام آباد ہی میں واقع ہے اور وزیر اعظم ہائوس یا بنی گالہ سے بہت زیادہ دور نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ یہاں سے جو سرگوشیاں پچھلے کچھ عرصے سے اٹھ رہی ہیں‘ اس کی آواز حکومتی ایوانوں تک نہ پہنچی ہو یا یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں انہیں کچھ نہ بتایا گیا ہو۔ پھر ان سرگوشیوں نے لفظوں کا روپ دھار لیا اور ٹویٹ تک کئے جانے لگے۔ اب دو حکومتی عہدے داروں کے مابین اختلافات تو تکرار تک پہنچ چکی ہے اور ان اختلافات کا طنزیہ انداز میں کھل کر اظہار کیا جانے لگا ہے۔ یہ صورتحال بہرحال حکومتی ساکھ کے لئے اچھی قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس سے پہلے پنجاب میں بھی صوبائی حکومت کے عہدے داروں کے درمیان اختلافات ابھر کر سامنے آئے تھے‘ جو فی الوقت تو دور کر لئے گئے ہیں‘ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پھر ابھر کر سامنے نہیں آئیں گے۔ سربراہ حکومت کو ان معاملات پر توجہ دینا چاہئے تاکہ مسائل کو ابھر کر سامنے آنے اور شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی حل کرنے کی کوئی راہ نکالی جا سکے۔ پی ٹی وی ایک ادارہ ہی نہیں‘ ایک روایت‘ ایک ثقافت اور ایک اکیڈیمی بھی ہے۔ ہماری پوری ایک نسل اسی ٹی وی چینل کے ڈرامے اور دوسرے پروگرام دیکھ دیکھ کر جوان ہوئی۔ اس نسل کو پی ٹی وی سے الفت ہے۔ ضروری ہے کہ اس ادارے کے حوالے سے بھی مناسب فیصلے کئے جائیں اور فواد چودھری صاحب اور نعیم الحق صاحب کے مابین اختلافات دور کرنے کی بھی جامع کوشش کی جائے۔ 
بل کی درستی کے لیے دفاتر کے دھکے کھانے والے ایک دل جلے نے کہا کہ وزیراعظم صاحب نے بلوں میں اوور چارجنگ کا نوٹس تو لے لیا اور اس حوالے سے سخت بیان بھی جاری کر دیا‘ لیکن دفاتر میں بیٹھے ہوئے بابوؤں پر کسی بیان کا اثر نہیں ہوتا‘ اب کیا کریں؟ وزیر اعظم کے بیان کا تراشہ بل کے ساتھ لگا کر دے آئیں یا اس کا مرہم بنا کر لگا لیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved