نجیب ابوکیلہ‘ ایل سیلواڈور کے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی جیت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یاد رہے کہ ایل سیلواڈور ایک عیسائی ملک ہے‘ جس میں مسلمانوں کی آبادی برائے نام ہے۔ اتنی کم کہ اپنی آبادی کے بل بوتے پر اگر کوئی مسلمان کونسلر بننا چاہے تو کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ اس کے باوجود گرینڈ الائنس فار نیشنل یونٹی کے امیدوار کی حیثیت سے ابو کیلہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے حق میںقریباً 54فیصد عوام نے فیصلہ دیا۔ دوسرے نمبر پر نیشنلسٹ ری پبلکن الائنس کے امیدوار32فیصد ووٹ ہی حاصل کر سکے۔ زیادہ خراب صورتحال فارا بندو مارتی نیشنل لبریشن فرنٹ کے امیدوار کی رہی۔ انہیں صرف 14فیصد ووٹ ملے۔اگرنجیب ابو کیلہ کوپچاس فیصد سے کم ووٹ ملتے تو پھر مارچ میں دوسرے مرحلے کا صدارتی انتخاب منعقد کرنا پڑتا لیکن اس کی ضرورت نہیں رہی۔ نجیب ابو کیلہ یکم جون 2019ء کو ایل سیلواڈور کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔
فلسطینی نژاد نجیب کی جیت واقعی تاریخی ہے۔ ان کی جیت ایل سیلواڈور کے لئے اہمیت کی حامل ہے تو امریکہ کے لئے بھی۔ یہ بات باعثِ حیرت ہو گی کہ ایک عیسائی ملک میں ایک مسلمان اور وہ بھی فلسطین نژاد مسلمان صدر کیسے منتخب ہو سکتا ہے؟لیکن سیلواڈور کے اندرونی حالات اور خارجہ پالیسی کو سمجھنے والوں کے لئے نجیب ابو کیلہ کی جیت حیران کن نہیں‘ البتہ یہ جیت ان کے لئے ا ہم ہے۔نجیب نے اپنی صدارتی مہم کا غیر اعلانیہ مگر باضابطہ آغاز اسی وقت کر دیا تھا جب یکم مئی 2015ء کو انہیں سان سیلواڈور کا میئر منتخب کیا گیا۔ ابوکیلہ نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیاکہ وہ سیاست میںمال بنانے نہیں آئے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف ملک کو مضبوط بنانا ہے۔ ان کے فلسطینی والد‘ ارماندہ بو کیلہ قطان کو '' ایل سیلواڈور کا امام‘‘ کہا جاتا ہے اور ابو کیلہ نے سان سیلواڈور کے میئر کی حیثیت سے کردکھایا کہ ان سے کرپشن اور رشوت خوری کے نظام کو برداشت کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔عوام نے صدارتی انتخابات میں اپنی پسند کا امیدوار منتخب کر کے ثابت کر دیا کہ تعصب کے چشمے سے لیڈر کو نہیں دیکھا جاتا ‘ اسے وہ صلاحیت کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ ان کے لئے اہمیت کی یہ بات نہیں کہ نجیب فلسطین نژاد مسلمان ہیں‘ اہم بات یہ ہے کہ ابو کیلہ کے والد نے تجارت کی تو ایل سیلواڈور کو فائدہ پہنچایا۔ مساجد قائم کیں‘ مذہبی فرائض ادا کئے تو اپنے ملک کا فرض بھی نبھایا۔نجیب جیسا ایک اچھا لیڈر ایل سیلواڈور کو دیا؛ چنانچہ عوام کا امید باندھنا فطری ہے ۔
صدر منتخب ہونے کے بعد نجیب نے امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر سے گفتگو کی جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ایل سیلواڈور‘ امریکہ کے لئے ایک اہم اتحادی ثابت ہو گا۔امید کی جانی چاہئے کہ ان کے دورِ صدارت میں دونوں ممالک کے تعلقات مستحکم ہوں گے۔ یوں بھی ایل سیلواڈور کے عوام کو بھی امریکہ کی حمایت کی ضرورت ہے ۔ ابو کیلہ یہ بات نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ایل سیلواڈور1979ء سے1992ء تک خانہ جنگی میں مبتلا رہا ہے۔1979ء سے1981ء کے درمیان دائیں بازو کے حمایت یافتہ فوجیوں کے ہاتھوں تیس ہزار لوگ جان کی بازی ہارگئے۔2009ء میں فارا بندو مارتی نیشنل لبریشن فرنٹ پارلیمانی انتخابات میں سے سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ پھر سابق باغی موریسیو فونیس نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ دوسری طرف چین بھی ایل سیلواڈور میں خاصی دلچسپی رکھتا ہے ۔ چین نے ایل سیلواڈور کو مختلف پروجیکٹس کے لئے پندرہ کروڑ ڈالر اور خشک سالی سے متاثرہ عوام کے لئے تین ٹن چال کی پیش کش کی‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایل سیلواڈور سے چین کے اثرات کو ختم کرنا ایک چیلنج ہو گا ۔
وسطی امریکہ کے ملکوں میں ایل سیلواڈور بڑی آبادی والا ملک سمجھا جاتا ہے مگر آبادی صرف63لاکھ ہے۔کبھی اس کی معیشت کا90فیصد انحصار ایکسپورٹ پر تھا۔ گزشتہ چند سالوں سے اس نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے مگر اس کے باوجود ایک خوش حال ملک نہیں بن سکا۔اس کا شمار دنیا کے غریب ملکوں میں ہوتا ہے۔ مفلسی اور بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے۔ کرپشن ختم کرنے یا کم کرنے سے ایل سیلواڈور کے عوام کے حالات میں بہتر آئی گی مگر نجیب کو آمدنی بڑھانے کے لئے تجارت کی نئی منڈیوں پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ اپنے دورِ صدارت کی ابتدا میں ہی عوام کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ ایل سیلواڈور کے لئے ان کا انتخاب غلط نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ان کے لئے خود اپنے ملک میں سابق صدر جیرارڈوباریوس کی مثال موجود ہے۔ اپنی4 سالہ مدت صدارت میں انہوں نے ایل سیلواڈور کو متعارف کرا دیا۔ ایسا کوئی بڑا کارنامہ نجیب بھی کر سکتے ہیں اور جب تک وہ کوئی بڑا کام سر انجام نہیں دیں گے‘ عوام انہیں دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔سچ یہ ہے کہ نجیب مسلمان ہیں۔ ان کے صدر بننے سے ایل سیلواڈور کے دیگر عوام کی طرح مسلمانوں کو بھی فائدہ ہو گا۔ البتہ الگ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ نو منتخب صدر کو عوام کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہئے۔ سب کے لئے ایک جیسا کام کرنا چاہئے۔ا پنے کسی کام سے جانبداری کا اظہار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایل سیلواڈور کے عوام نے انہیں تعصب کی نظر سے نہیں دیکھا ‘ اگر دیکھا ہوتاتو وہ ایل سیلواڈور کے صدر منتخب نہ ہوتے۔رہی بات کہ نجیب ابو کیلہ کے ال سیلواڈور کا صدر منتخب ہونے سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہو گا؟ تو اس بارے میں زیادہ امیدیں نہیں باندھنی چاہئیں۔ نجیب فلسطین نژاد ضرور ہیں لیکن وہ ایل سیلواڈور کے شہری ہیں اور وہ اسی حیثیت سے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ ایل سیلواڈور کے شہری کی حیثیت سے ہی اپریل2018ء میں اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔اسرائیلی عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔مذہبی تقریبات میں شرکت بھی کی۔ اس پرفلسطینیوں نے کڑی تنقید کی مگر یہ کون جانتا ہے کہ یہ تنقید ہی ان کی طاقت بن گئی ہو؟