''کتاب دوست‘‘ نصیر سلیمی کتاب کو دوستوں کے لیے بہترین تحفہ سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ ''فیاضی‘‘ کراچی سے شائع ہونے والی کتابوں کے حوالے سے خاص ہے، مصنف (یا پبلشر) دوست بھی ہو تو وہ اس کی فہرست اعزازی کتب سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ ذاتی بجٹ کا ایک حصہ اس کے لیے وقف رکھتے ہیں۔ سلیم کوثر کی کلیات ''جنہیں راستے میں خبر ہوئی‘‘ اور ممتاز محقق و مؤرخ خواجہ رضی حیدر کی تصانیف بھی ہماری لائبریری کے لیے سلیمی صاحب کا عطیہ تھیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب''صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ کی دوسری جلد بھی اب سلیمی صاحب ہی نے بھجوائی۔ طاہر، صلاح الدین شہید کے دورِ ادارت میں ''جسارت‘‘ میں ہمارے کولیگ تھے۔ پھر کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کا رُخ کیا، اور اس کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی رہا۔ کالم نگاری میں تو اوائل عمری ہی میں شہرت حاصل کر لی تھی‘ پھر انٹرویو نگاری اور خاکہ نویسی میں بھی نام بنایا۔
طاہر کے بقول: ''لکھتے لکھتے پچیس تیس سال ہو گئے تو خیال آیا کہ اب تک کیا کچھ لکھ مارا ہے، ذرا دیکھوں تو سہی‘ تو پرانے رسائل اور اخبارات نیز کرم خوردہ کاغذات میں ڈھیروں ''خاکے‘‘ اور ''وفیات‘‘ دریافت ہوئے۔ انہیں پڑھا تو ویسی ہی خوشی میسر آئی جیسے کسی آثار قدیمہ کے ماہر کو کسی کھدائی سے، کسی قدیم تمدن کے، کسی نئے پہلو کے دریافت ہونے کی مسرت ہاتھ آتی ہے۔ ان تحریروں کو دوبارہ پڑھا تو سوچا کہ انہیں یکجا کر دوں۔ شاید قارئین بھی میری مسرت میں شریک ہو سکیں۔ ایک لکھنے والا اپنے پڑھنے والوں کو اس کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتا ہے؟‘‘ اور پھر اس خیال نے ''صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ ''کوئے دلبراں‘‘ اور ''اوراقِ ناخواندہ‘‘ جیسے خاکوں اور ملاقاتوں کے مجموعے دیئے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے 42 مشاہیر کے انٹرویوز پر مشتمل ''صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ کی جلد دوم اپنے قارئین کے لیے طاہر کی نئی ''دین‘‘ ہے‘ جس میں سیاست، مذہب، سماجی خدمت، تعلیم، ادب، صحافت، ڈرامہ، کھیل، دفاع اور اشتہارات جیسے موضوعات اور مسائل پر فکر انگیز خیالات و معلومات کا خزانہ اکٹھا ہو گیا ہے۔ آغاز سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انٹرویو سے ہوتا ہے، جن کے ساتھ طاہر کے ''تعلق‘‘ کی ابتدا بیزاری اور استہزا سے ہوئی۔ تب مولانا کی جو پہلی کتاب اس کے ہاتھ لگی وہ ''دینیات‘‘ تھی۔ طاہر کو اس اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ ''مولانا کا لٹریچر نہ پڑھا ہوتا تو کیا عجب کہ ماسکو یا پیکنگ کے انقلاب کو تاریخ عالم کا عظیم ترین انقلاب سمجھتا اور اس انقلاب سے واقف ہی نہ ہو پاتا‘ جو میرے دین نے نبیٔ آخرﷺ کی بے پایاں رحمت و شفقت کے ذریعے انسانی قلوب اور انسانی کردار میں پیدا کیا تھا‘‘۔
مولانا مودودیؒ (اور ان کی جماعت) پاکستان میں آمریت کے خلاف جمہوری تحریکوں کے ہراول دستے میں شامل رہے۔ اس کے لیے انہیں لبرل اور سیکولر عناصر سے اتحاد میں بھی تأمل نہ ہوتا۔ مولانا سے انٹرویو (1978) میں طاہر مسعود کا سوال تھا: کیا اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں سے ہی لانا چاہیے؟ مولانا کا مؤقف تھا: ہم نے کبھی نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب جمہوری راستوں ہی سے آسکتا ہے۔ جو بات ہم یقین سے سمجھتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ کسی مصنوعی ذریعے سے اگر کوئی ایسا انقلاب برپا کر دیا جائے‘ جس کے لیے معاشرہ ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے تیار نہ ہو، وہ انقلاب کبھی پائیدار نہیں ہو سکتا... اپنے وقت اور ملک کو نظر انداز کرکے کوئی سکیم نہیں بنائی جا سکتی اور اگر بنائی جائے تو یہ ناکامی پر منتج ہو گی‘‘۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی، ہندوستان کے ممتاز مسلم سکالرز میں شمار ہوتے تھے۔ علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی جیسے جید اساتذہ سے فیض یاب ہوئے۔ دہلی یونیورسٹی میں عربی، فارسی اور اردو ڈیپارٹمنٹس کے سربراہ رہے۔ تقسیم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ دینیات کے صدر اور فیکلٹی آف تھیالوجی کے ڈین بنے۔ قسمت میں پاکستان کی مٹی لکھی تھی، 24 مئی 1985ء کو کراچی میں انتقال ہوا اور تدفین دارالعلوم کورنگی میں مفتی محمد شفیع کے احاطۂ قبور میں ہوئی۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا خوب غلغلہ تھا۔ طاہر مسعود کا پہلا سوال اس تجربے کے سلسلے میں علما کرام کی ذمہ داریوں کے بارے میں تھا۔ مولانا نے کسی لاگ لپٹ کے بغیر کہا: 'پاکستان میں اسلام کے نام کو ایکسپلائٹ زیادہ کیا گیا۔ یہاں کتنی حکومتوں کو قرآن اور اسلام سے دلچسپی تھی؟ خود علما نے اس معاملے میں اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کیں؟ جنہوں نے اپنے عمل سے اسلام کو اس طرح پیش ہی نہیں کیا کہ عوام متاثر ہوں۔ آج بھی عوام علما کو نماز کی امامت اور قرآن خوانی و فاتحہ خوانی سے زیادہ کوئی ذمہ داری دینے کو تیار نہیں۔ خصوصاً زندگی کے معاشی معاملات میں انہیں علما کی اہلیت پر شبہ ہے جبکہ خود علما بھی اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے روادار نہیں... وہ بڑے بڑے چندے وصول کرتے ہیں اور اس میں حرام و حلال کی تمیز بھی نہیں کرتے۔ سمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے بھی مذہب کے نام پر بھاری رقم دینا چاہیں تو اسے بصد شوق قبول کر لیتے ہیں‘‘۔
مولانا شاہ احمد نورانی ایک دور میں جماعت اسلامی کا نام سننا بھی گوارا نہ کرتے‘ پھر قاضی صاحب کے دور میں یوں لگتا تھا، یک جان دو قالب ہوں۔ اس حوالے سے نورانی صاحب کا استدلال تھا: ''اب یہ وہ جماعت اسلامی نہیں جو میاں طفیل محمد کے زمانے میں تھی... میاں طفیل محمد نے مجھے بارہا منصورہ آنے کی دعوت دی، لیکن میں کبھی نہیں گیا، مولانا نیازی صاحب کو بھیج دیا... اختلاف کے باوجود بڑی محبت سے ملتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ پھیر لیا ہو۔ وہ بڑی محبت کرتے تھے۔ انتہائی بلند اخلاق تھے۔ کراچی آتے تو کبھی غریب خانے بھی تشریف لاتے۔ قاضی صاحب کے آنے کے بعد میں پہلی بار منصورہ گیا۔ اب ہماری اور ان کی ذاتی دوستی تو ہے ہی، پالیسی میں بھی اتفاق رائے ہے‘‘۔
''حریت‘‘ کا شمار، کراچی کے بڑے اخبارات میں ہوتا تھا۔ فرہاد زیدی اس کے ایڈیٹر رہے۔ طاہر مسعود کا ایک سوال، ان شخصیات سے متعلق تھا جن سے مل کر وہ بہت متاثر ہوئے۔ زیدی صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیا، دوسرے سیاستدانوں میں مفتی محمود اور پروفیسر غفور احمد تھے، جن کی شخصیت انہیں Impress کرتی تھی۔ ''مفتی صاحب بے لاگ آدمی ہیں، بغیر کسی مصلحت کے صاف اور کھرے‘‘ جبکہ مولانا نورانی نے سب سے زیادہ مایوس کیا (اس کی وجہ، آپ کو انٹرویو میں معلوم ہو گی)۔
سندھ اسمبلی میں فنکشنل مسلم لیگ کی رکن مہتاب راشدی، تب مہتاب چنّہ تھیں۔ ضیاء دور میں پی ٹی وی کے کراچی سینٹر سے پروگرام کیا کرتی تھیں۔ ایک انٹرویو پر زیرِ عتاب آ گئیں۔ پھر اس الزام میں نکال باہر کی گئیں کہ انہوں نے کیمرے کے سامنے دوپٹہ اوڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ مہتاب کے انٹرویو میں بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا وافر سامان موجود ہے۔ مثلاً بھٹو سے پہلی ملاقات، اس دن وہ بہت تھکے ہوئے تھے، ان کی آنکھیں گہری سوچ اور تشویش سے بوجھل تھیں۔ بے نظیر کے متعلق مہتاب کی رائے ہے کہ ذہین لڑکی ہے، جو فیصلہ نہیں کر پائی کہ کیا کرنا ہے۔ کس طرح اتنی بڑی پارٹی کو چلانا اور اتنے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے، اس کے باوجود ان کے بیانات میں شارپ نیس اور پولیٹیکل کانشئس نیس سے متاثر ہونا پڑتا ہے۔ مہتاب اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئیں، اس حوالے سے اس کا کہنا ہے: میں نے اپنی حدود مقرر کر لی تھیں کہ کس حد تک جانا ہے۔
سماجی کارکن انصار برنی کا پہلا (اور آخری) سیاسی عشق ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کے انٹرویو ان دنوں کی کہانی بھی ہے جب بھٹو ڈیتھ سیل میں تھے اور ایک طرف وڈیرے پارٹی کے اندر اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہے تھے اور دوسری طرف بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے، پارٹی فنڈکھانے کا مفاد پرستانہ کھیل بھی جاری تھا۔ بیگم نصرت بھٹو اور عملی سیاست میں نودارد بے نظیر کے ساتھ، خود غرض پارٹی لیڈر اور مفاد پرست سیاسی کارکن کیا کر رہے تھے؟ اس کی ہوش ربا تفصیلات بھی۔