تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     23-02-2019

اپنے دیس میں اجنبی لوگ

معروف سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا ''میں امن پسند نہیں، ایک جنگجو امن پسند ہوں۔ میں امن کی خاطر لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو گی، جب تک لوگ جنگ سے انکار نہیں کریں گے‘‘۔ امن کے باب میں ہی اس نابغہ روزگار سائنس دان نے کہا تھا: امن طاقت کے ذریعے قائم نہیں کیا جا سکتا، یہ صرف افہام و تفہیم سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ 
ہم عجیب لوگ ہیں۔ عجیب خواہشات رکھتے ہیں۔ ہم بیک وقت ترقی بھی چاہتے ہیں، اور جنگ کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تاریخ سے مراد صرف اپنی ہی نہیں، بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں اور قوموں کی تاریخ بھی ہے۔ بنی نوع انسان کی تاریخ ہے۔ تاریخ کا ایک سبق بڑا واضح اور ناقابل تردید ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے لیے امن ناگزیر ہے۔ 
ہماری اس دنیا میں ایسے ملک بھی موجود ہیں، جنہوں نے جنگوں کے باوجود ترقی کی ہے، خوشحالی حاصل کی ہے یا قائم رکھی ہے۔ مگر یہ استثنائیں ہیں۔ ان میں ایک استثنا ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی ہے؛ تاہم اگر امریکہ کی تاریخ اور جدید تاریخ دیکھی جائے، اور خاص طور پر جنگوں کی جدید تاریخ دیکھی جائے تو جنگوں کی ایک طویل فہرست ہے‘ مگر ان میں سے ہر جنگ ملک سے ہزاروں میل دور لڑی گئی۔ امریکہ نے ماضی بعید میں اپنے ہمسائے کینیڈا یا میکسیکو سے ضرور جنگیں لڑیں‘ مگر یہ ان ادوار کی بات تھی، جن میں جنگ لڑی ہی پڑوسیوں سے جاتی تھی۔ اس وقت دنیا میں کوئی ملک اس سے مستثنیٰ نہ تھا۔ امریکہ کی ان طویل اور خوفناک جنگوں میں سال اٹھارہ سو چھیالیس کی میکسیکو کی جنگ سے لے کر اٹھارہ سو اٹھانوے کی ہسپانوی جنگ تک بے شمار جنگیں شامل ہیں۔ مگر نئی صدی یعنی بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ نے جو جنگ بھی لڑی اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور جا کر لڑی۔ اپنی سرحدوں پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اس نے خوشگوار تعلقات اور تجارت کا راستہ اختیار کر کے ترقی کی نئی راہیں تلاش کیں۔ سرحدوں سے دور جنگوں میں امریکہ کی براہ راست یا بالواسطہ شمولیت میں پہلی و دوسری جنگ عظیم، کوریا، بے آف پگز، ویت نام، لبنان، گرینیڈا، پانامہ، خلیج، صومالیہ، بوسنیا، کوسووا، افغانستان اور عراق کی جنگیں شامل ہیں۔ مغرب میں تقریباً ہر ملک نے یا اپنے پڑوسی پر فوج کشی کی یا اپنے ہمسائے سے اپنے تحفظ کی لڑائی لڑی۔ بر اعظم امریکہ میں کینیڈا، امریکہ ، میکسیکو، برازیل اور ارجنٹینا کی تاریخ ایسی جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ بر اعظم یورپ میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جس نے اپنے کسی نہ کسی پڑوسی کے خلاف کسی جنگ میں حصہ نہ لیا ہو۔ مشرق میں صورت حال اور زیادہ گمبھیر رہی ہے۔ چین ، جاپان اور خود ان ممالک کے اندر جنگوں اور خانہ جنگیوں کی ایک بڑی تاریخ ہے۔ بر صغیر جنوبی ایشیا کی تاریخ تو ایک طریقے سے ہے ہی جنگوں کی تاریخ۔ اگر پانچ ہزار سال سے ہی ان جنگوں کا شمار کیا جائے تو یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔ بر صغیر میں بے شمار جنگیں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑی گئیں۔ پرانی لڑائیوں کو چھوڑ بھی دیں تو سکندر اعظم کے حملوں سے لے کر مغلیہ دور تک جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 
ماضی میں جو جنگیں ہوتی رہی ہیں، ان میں سے بیشتر جنگوں کو آج کے دور میں غیر منصفانہ جنگیں ہی سمجھا جائے گا۔ مگر پھر بھی کئی ملک اور قومیں‘ ان جنگوں کے گاہے ایسے جواز بھی ڈھونڈ لیتے تھے، جن کی بنیاد پر ان کو منصفانہ بھی کہا جا سکتا تھا۔ جیسے قدیم آدم خور قبائل کے خلاف، غلاموں کی رہائی یا پھر دوسری قوموں پر تسلط کے خلاف محکوم قوم کی حمایت میں لشکر کشی وغیرہ۔ مذہب کے پھیلائو یا تحفظ کے لیے بھی بے شمار جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں مسیحی صلیبی جنگیں اور تاریخ اسلام کی مشہور جنگیں بھی شامل ہیں۔ 
اگلے زمانوں میں ترقی اور خوشحالی کے معیار اور پیمانے مختلف تھے۔ اس لیے جنگیں ان کو اس طرح متاثر نہیں کرتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ریاستوں اور حکومتوں کا ایک بڑا ذریعہ آمدن خود جنگیں ہی ہوتی تھیں۔ اور بہت ساری قومیں اور ریاستیں جنگوں سے حاصل ہونے والے مال و دولت کو اپنی آمدن کا ایک اہم ذریعہ تصور کرتی تھیں۔
جدید دور میں یہ تصور بدل گیا ہے۔ ترقی اور خوشحالی امن کے ساتھ مشروط ہو گئی ہے۔ جو ملک خود اپنے اندر‘ اپنے عوام کے ساتھ یا اپنی سرحدوں پر اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ نہیں ہے، وہ ترقی نہیںکر سکتا۔ معدودے چند استثنائوں کے ساتھ دنیا کے بیشتر غریب ترین ممالک میں ایک چیز مشترک ہے، وہ ہے ملک کے اندر بد امنی اور ہمسائے سے کشیدگی۔ یہ وہ ممالک ہیں ، جو اندورنی سطح پر تشدد اور بے چینی کا شکار ہیں۔ ان ممالک کے اندر نسلی، قبائلی اور مذہبی تصادم چل رہے ہیں یا پھر وہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ ایک طرح کی سرحدی کشیدگی اور حالت جنگ میں ہیں۔ کئی افریقی ممالک اس کی زندہ مثالیں ہیں، جہاں سالہا سال کی بد امنی نے ان کو نا قابل بیان بھوک، ننگ میں مبتلا کر دیا ہے۔ افریقہ کے غریب ترین ممالک سے افغانستان تک غربت، تشدد اور جنگ کا گہرا تعلق نمایاں ہے۔
ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواہ یہ سرمایہ کاری حکومتی سطح پر ہو یا نجی ہو۔ نجی سطح کی سرمایہ کاری عالمی ہو یا مقامی‘ سرمایہ کار کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے پہلے ملک میں امن و امان کی صورت حال پر نظر ڈالے گا۔ کوئی ملک جس کے اندر امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے یا سر حدی تنازعات کی وجہ سے اس پر جنگ کے بادل چھائے رہتے ہیں، اس میں سرمایہ کاری کوئی آسان کام نہیں۔ ایسے حالات میں اگر حکومتی سطح پر بھی سرمایہ کاری ہو تو کوئی نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ نجی سرمایہ کار ظاہر ہے بد امنی‘ بے چینی اور خطرے کی فضا میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔ 
یہ درست ہے کہ پاکستان میں غربت کی ایک وجہ کرپشن رہی ہے۔ آمریتوں اور جمہوری حکومتوں‘ دونوں کا یہ ایک مشترکہ المیہ رہا ہے۔ ملکی وسائل بڑے پیمانے پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو تے رہے‘ مگر کرپشن کے ساتھ ساتھ غربت کی ایک وجہ سرحدی کشیدگی اور پڑوسیوں کے ساتھ خراب تعلقات رہے ہیں۔ ان خراب تعلقات کی وجہ سے پاکستان وہ معاشی فوائد نہ اٹھا سکا جو اپنے قریب ترین پڑوسیوں کے ساتھ تجارت سے آتے ہیں۔ امریکہ، یورپ‘ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک اس کی واضح مثال ہیں۔ افغانستان اور بھارت کی وسیع منڈی اور سستی مصنوعات پاکستان میں معاشی ترقی کی بنیاد بن سکتی تھیں‘ مگر بھارت سے تین جنگیں اور افغانستان کے ساتھ بیشتر ادوار میں خوشگوار تعلقات کی عدم موجودگی میں پاکستان کی اپنے ان دو پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز نہ ہو سکا۔ تیسرے پڑوسی ایران کے ساتھ تجارت کا وہ حجم نہیں ہے، جو اس کے ساتھ فطری طور پر ہونا چاہیے۔ 
نئے پاکستان کی نقیب نئی حکومت ترقی کے بارے میں بہت پر امید تھی۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت اور خوشگوار تعلقات کے نئے امکانات دیکھ رہی تھی، مگر بد قسمتی سے پلوامہ واقعہ نے یہ صورت حال یکسر بدل کر رکھ دی۔ اس ایک واقعے سے تعلقات یوں بگڑے کہ دونوں اطراف سے جنگ کی باتیں ہونے لگی۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس واقعے کا ذمہ دار کون ہے، اس پر ظاہر ہونے والا رد عمل بہت زیادہ ہے۔ ایسی فضا ہے‘ جیسے ابھی طبل جنگ بجنے والا ہے۔ یہ ایک اضافی اور معمول سے بالا رد عمل ہے۔ آج کے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اب گاندھی کے ہندوستان میں گاندھی کی باتوں پر کان دھرنے والا کوئی بچا نہیں۔ اب امن کی بات کرنے والا ہر شخص اس دیس میں اجنبی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved