میرے مطالعے میں سے کچھ دلچسپ نوٹس اور ان پر میرے تبصرے قارئین کی پیشِ خدمت !
1۔ Enrico Fermi ایک بڑا سائنسدان تھا‘ اس کے نام پر دوری جدول کا ایک عنصر بھی ہے ۔
2۔ انسان انتہائی حساس گریوی میٹر کی مدد سے زمین کے نیچے ذخائر کی موجودگی کا سراغ لگانے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ چالیس پچاس ہزار سال پہلے آغاز یہاں سے ہو اتھا کہ انسان مٹی کھود کر دیکھتا تھا کہ نیچے مفید عناصر دفن ہیں یا نہیں ۔کئی دفعہ نیچے سے مرا ہوا چوہا بھی برآمد نہ ہواکرتا۔
3۔ دنیا میں سب سے اہم چیز کششِ ثقل ہے ۔ کششِ ثقل نہ ہوتی تو کبھی ہائیڈروجن کے بادل اکھٹے نہ ہوتے۔ کبھی سورج نہ بنتے۔ سورجوں کے اندر عناصر نہ بنتے ۔ کبھی زندگی نہ بنتی ۔
4۔بی بی سی اردو پر دی گئی ایک تحقیق کے مطابق نشے کے عادی افراد اور سیکس کے عادی افراد کے دماغ میں ایک ہی طرح کی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں ۔ ان کے دماغوں کے ایک ہی حصے متحرک دیکھے گئے ہیں ۔ فحش مواد دیکھتے ہوئے 19افراد کے دماغ کے سکین کیے گئے ۔ ا ن کی حالت وہی تھی‘ جو کہ اپنی پسند کی منشیات دیکھ کر نشے کے عادی فرد کی ہوتی ہیں ۔ یہ بات قابلِ فہم لگتی ہے۔دونوں سرگرمیوں میں انسان لذت محسوس کرتاہے ۔ دماغ میں ایک ہی جیسے کیمیکلز کااخراج ہوتا ہوگا۔
5۔ پیدائش کے وقت انسانی بچے کا دماغ کل جسم کا ایک چوتھائی ہوتاہے جو کہ دوسرے جانوروں کی نسبت بہت بڑا ہے ۔ لیکن جب انسان جوان ہوتا ہے یعنی مکمل گروتھ تک پہنچ جاتاہے تو جسم اور دماغ کا پروپورشن ساڑھے سات اور ایک کا ہوتاہے ۔ دماغ پہلے دو سال میں انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے ۔ اور یہ ان دو سالوں میں اپنے کل سائز کا 75-80فیصد تک ہو جاتاہے ۔ پیدائش کے وقت انسانی بچے کے دماغ میں نیورونز بہت فاصلے پر ہوتے ہیں لیکن فوراً ہی یہ آپس میں کنکشن بنانے لگتے ہیں ۔
جسم کے باقی خلیات مرتے اور نئے پیدا ہوتے ہیں لیکن نرو سیلز یا نیورون مرتے تو ہیں‘ نئے پیدا نہیں ہوتے ۔ پیدائش کے وقت وہ کل سو ارب ہوتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ آپس میں کنکشن بنانے لگتے ہیں اور نئے نئے پیٹرن بناتے ہیں‘ جب انسان سیکھ رہا ہوتاہے۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ انسان کا دماغ مسلسل تبدیل ہو رہا ہوتا ہے ۔ اور جب انسان کچھ سیکھتا ہے تو جسم تو وہی رہتاہے ۔ دماغ میں تبدیلی آتی ہے ۔ مثلاً کسی نے مارشل آرٹ سیکھا تو جسم وہی رہا‘ دماغ نے ٹانگ یا مکا مارنے‘ خود کو بچائے رکھنے اور رسی پر توازن برقرار رکھنے کا ہنر سیکھا ۔
6۔ جسم کے باقی اعضا کی طرح‘ دماغ بھی ایک فرٹیلائزڈ انڈے سے ہی پیدا ہوتاہے۔ یہ ایک واحد خلیہ ہوتاہے ۔ا سے آلات کے بغیر آنکھ سے بمشکل دیکھا جا سکتاہے ۔ یہ بار آوری کے تیس گھنٹے کے بعد دو خلیات میں بدلتاہے ۔ اور یہ سلسلہ شروع ہو جاتاہے ۔ دو سے چار‘ چا ر سے آٹھ ۔ بار آوری کے آٹھویں دن‘ خلیات کا یہ ڈھیر خود کو بچہ دانی کی دیوار سے جوڑ لیتا ہے ۔ اب سیل differentiation شروع ہوتی ہے ۔ اب مختلف قسم کے خلیات بنیں گے ۔ کسی نے بازو بنانا ہے‘ کسی نے ناخن اور کسی نے دماغ۔ لیکن ہر خلیے کو نہ صرف یہ پتہ ہے کہ کس عضو میں ڈھلنا ہے بلکہ اس خاص عضو کی کس جگہ پر اسے فٹ ہونا ہے‘ یہ طے ہے ۔ سب سے پہلے ایک ننھا سا سینٹرل نروس سسٹم بنتاہے‘ جسے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں بدلنا ہوتاہے ۔ اور اس کے گرد پھر باقی جسم بنتاہے ۔
7۔نرو سیل یا نیورونز وہ ورکنگ یونٹ ہیں جنہیں نروس سسٹم سگنلز کو بھیجنے‘ وصول کرنے اور سٹور کرنے کے لیے استعمال کرتاہے ۔ اسی عمل میں زندہ چیزوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ یہی چیز زندہ چیزوں کو غیر جاندار چیزوں سے جدا کرتی ہے ۔دنیا میں اس عمل کا سب سے شاندار مظاہرہ انسانی دماغ میں ہوتاہے ۔
نیورونز کا بنیادی کا م کمیونیکیشن ہے ۔ یعنی کہ معلومات کا بھیجنا اور وصول کرنا ۔ ہر نیورون کے دوسرے نیورانز سے سینکڑوں سے ہزاروں تک کنکشن ہوتے ہیں ۔ سیری برم میں کچھ نیورانز اس سے بھی انتہائی زیادہ لنکس رکھتے ہیں ۔ دماغ کے سو بلین سے زیادہ خلیات اکھٹے کام کرتے ہیں‘ ان کے ریلیشن شپ مسلسل تبدیل ہورہے ہوتے ہیں ۔ اسی سے وہ مشین بنتی ہے‘ جس نے ہمیں اس سیارے پر اس قدر کامیاب بنا ڈالا ہے ۔
ہر چیز‘ دنیا کا ہر کام جو کہ ہم کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں‘ وہ سب کا سب منحصر ہے ایک نیورون سے دوسرے نیورون تک ٹرانسفر آف سگنل سے ۔ایک دماغی خلیہ دوسرے دماغی خلیے (بلکہ عصبی خلیے کی اصطلاح زیادہ مناسب ہوگی ) سے رابطے کے لیے نیوروٹرانسمیٹرز کا محتاج ہوتاہے ۔ یہ کچھ مائع کیمیکلز ہوتے ہیں‘ جن کے ذریعے نیورونز آپس میں کمیونیکیشن کرتے ہیں ۔ قریب ایک درجن اقسام ہیں نیورو ٹرانسمیٹرز کی۔ ان میں سے کسی کے کم یا زیادہ مقدار میں پیدا ہونے سے دماغی بیماریاں اور ڈس آرڈرز ہو سکتے ہیں ۔الزیمر، پارکنسن‘ شیزوفرینیا‘ ڈپریشن‘ بائی پولرموڈ ڈس آرڈر میں یہی نیورو ٹرانسمیٹرز کم یا زیادہ ہو جاتے ہیں ۔
بیس سال کی عمر سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں نیورونز مرنے لگتے ہیں، دوبارہ نہ پیدا ہونے کے لیے ۔ لیکن چونکہ ہم سو بلین سیلز کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور روزانہ اگر پانچ ہزار بھی مرتے رہیں تو 90برس کی عمر تک بمشکل 12,13کروڑ خلیات ہی مر پائیں گے ۔سالانہ ایک اونس کا تیسواں حصہ دماغ کم ہوتاہے یعنی تیس سال میں ایک اونس دماغ کم ہوجاتاہے۔
عورتوں کے دماغ کے دائیں اور بائیں حصوں کو آپس میں ملانے والا حصہ corpus callosumزیادہ thickہوتاہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ عورتوں کے دماغ کے دونوں حصوں کے درمیان ایکسٹرا کنکشنز ہیں ۔ اگر کسی عورت کا بایاں ہیمسفیر سٹروک سے ڈیمیج ہوا ہے تو بولنے میں شدید مشکلات کو وہ اسی انجری کے شکار مرد کی نسبت بہتر recoverکرے گی ۔
دماغ دو حصوں میں منقسم ہوتا۔ دماغ کے دونوں حصے ہماری سوچ اور ہمارے جسم کے کنٹرول کو شئیر کرتے ہیں ۔دماغ کا بایاں حصہ کنٹرول کرتاہے جسم کے دائیں حصے کو ۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ دماغ کے دو حصے اس لیے ہیں کہ اگر ایک ڈیمیج ہو جائے تو دوسرا بیک اپ فراہم کر سکتاہے ۔ دوسرا یہ کہ بہت سے اعضا دو ہیں مثلاً آنکھیں‘ گردے وغیرہ۔ اگر پیدائش کے وقت دماغ کے ایک حصے میں نقص ہو تو صحت مندحصہ بیمار حصے کا کام بھی سنبھالنا شروع کر دیتاہے ۔ چھ سات سال کے بچے کو سٹروک ہو تو اس کی زبان سیکھنے کی صلاحیت اکثر متاثر نہیں ہوتی جبکہ ایک جوان میں اکثر بولنے کی صلاحیت کا مستقل نقصان ہو جاتاہے ۔
8۔زحل کے چاند ٹائٹن کی atmosphereفضا میں تقریبا600کلومیٹر سے اوپر تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ کرّہ ٔارض سے بھی کافی اونچی ہے ۔
9۔سورۃ طہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے مخاطب ہے : بے شک تو بھوکا اور ننگا نہیں ہوگا(جنت میں ) اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے گی اور نہ دھوپ۔ تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا۔بولا اے آدم کیا میں تمہیں بتا دوں ہمیشہ جینے کا پیڑ اوروہ بادشاہی جس میں کمی نہ آئے۔
شیطان بہت پرانا ہمارے پیچھے لگا ہواہے۔ اس کی فیصلہ کن چھترول کا وقت بھی قریب ہے ۔