امریکہ کا سالانہ بجٹ خسارہ تقریباً 1 کھرب ڈالرتک پہنچ سکتا ہے۔مسلسل جاری ہونے والے کل قومی قرضے‘ امریکی حکومت کی طرف سے عائد شدہ شرح سود اور اوسط سطح سے جی ڈی پی کا ہردور‘امریکی عوام دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سب سے فرق پڑتا ہے؟ بعض معیشت دانوںاور پالیسی سازوں کے مطابق‘ اقتصادی ترقی کاکم ہونا اور ممکنہ طور پرطویل عرصہ سے لیا گیاقرض ‘ہمیشہ بحران کا باعث بناہے۔اس خسارہ کی بنیادی وجہ ''سمپسن بولڈ‘‘( 2010ء میںتیزی سے کٹ خسارے کی ایک تجویز)کی منصوبہ بندی کو ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہاہے‘ جواس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ پالیسی سازوں کو قومی قرض سے نمٹنے کے لئے ترجیح دی جائے گی۔دوسری طرف‘ خسارہ برطرف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکہ مالی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے مکمل طور پر کم سود کی شرح (جو سستے قرضے ادا کرتا ہے) کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ عالمی سطح پر مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کی افواج میں کمی اور غیر موجودگی اعلیٰ افراط زرکو متاثر کرسکتی ہے۔
امریکی مبصرین کے مطابق ‘سود کی شرح میں طویل مدتی خودساختہ کمی ‘اشارہ کر رہی ہے کہ پالیسی سازوں کو روایتی مالیاتی نظام پر نظر ثانی کرنی چاہئے‘ جس میں تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ڈھانچو ںجیسے‘ اکثر علاقوں میں غلط طور پر سرمایہ کاری کی گئی ہے‘ کودیکھنا چاہیے۔یہ درست ہے کہ سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کو سماجی مسائل پر توجہ دینی چاہئے‘ مگرمالی پابندیوں کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کسی حد تک محدود اصولوں یا ہدایات کے بغیر بجٹ کی پالیسی مقرر نہیں کرسکتی ۔پالیسی سازوں کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ عوامی خدمات کو برقرار رکھنے ‘نئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقت کے ساتھ زیادہ آمدن کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکہ کو اس کے بنیادی چیلنجوں کے حل میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے‘جن میں لاکھوں امریکیوں کے ملازمتوں کو تلاش کرنے کی امید‘ کروڑوں افراد کے لئے صحت کی انشورنس فراہم کرنا اور بچوں کے لیے اعلیٰ نظام تعلیم شامل ہیں۔
امریکی میڈیاواقتصادی ماہرین چیخ رہے ہیں کہ حکومت کے خسارے نے سود کی شرح بڑھانے‘ نجی سرمایہ کاری کو روکنے اور ہر غریب کو تنہاچھوڑ دیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ خسارہ کاٹنا‘ سود کی شرح کم کر دیتا ہے‘ تاہم سارے عوامل‘ شاید 1980ء کے دہائی کے آخر اور 1990ء کے آغاز کی دہائیوں میں اہم ہوسکتے تھے‘ جب طویل مدتی اصلی سود کی شرح ‘ سٹاک مارکیٹ کی قیمتوں کا تعین ‘آج کے مقابلے میں بہت کم تھا۔صدر جارج ڈبلیو بش اور بل کلنٹن کی خسارہ میں کمی کی کوششوں نے 1990ء کے دہائیوں میں سرمایہ کاری کو تقویت دی‘ اب حالات بہت مختلف ہیں؛ جی ڈی پی کے ایک حصہ کے طور پر حکومت کا قرض بہت زیادہ ہے‘ سرکاری قرضوں پر طویل مدتی اصلی سود کی شرح بہت کم ہے۔ 2000ء میں کانگریس کے بجٹ کے دفتر نے پیش گوئی کی تھی کہ 2010ء میں امریکی قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 6 فیصدرہے گا۔ 2018ء میں اسی دس سالہ پیش گوئی کو مدنظررکھتے ہوئے شرح 2028ء تک 105 فیصد ہوناتھی‘ تاہم دس سالہ سرکاری بانڈز پر اصل سود کی شرح 4.3 فیصد رہی ۔ کم شرح فیڈرل ریزرو کی طرف سے تیار نہیں ‘ نہ ہی وہ صرف مالی بحران کا نتیجہ ہے۔انہوں نے بحران سے قبل گہری فورسز میں جڑنا ظاہر کیا‘ بشمول کم سرمایہ کاری کی طلب‘ اعلیٰ بچت کی شرح اور عدم مساوات کو بڑھانے سمیت اگلے کئی برسوں میں دلچسپی کی شرح تھوڑی دیر بڑھ سکتی ہے‘ لیکن مالیاتی مارکیٹوں کی توقع ہے کہ وہ ختم ہوجائے ‘جہاں وہ 1980ء اور 1990ء کے دہائیوں میں کھڑا ہوگئے تھے ۔فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جے پائول کا کہنا ہے کہ موجودہ 2.375 فی صد سود کی شرح غیر جانبدار شرح کے قریب ہے‘ جس میں معیشت ایک پائیدار رفتار میں بڑھ رہی ہے اور مالی مارکیٹوں کی توقع ہے کہ وفاقی فنڈز کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا۔کم سود کی شرح سے حکومت قرضوں کی اعلیٰ سطح کو برقرار رکھ سکتی ہے‘ کیونکہ ان کی مالیاتی اخراجات کم ہیں‘قومی قرض حالیہ دہائیوں کے مقابلے میں جی ڈی پی کی ایک بہت بڑی تعداد کی نمائندگی کرتا ہے۔اس معیار کے ذریعے وسائل کو امریکہ‘ سود کی ادائیگی کے لئے وقف کرے‘کیونکہ ان کی تاریخی اوسط کے ارد گرد بھی معیشت کا ایک حصہ ہے۔ آنے والی دہائیوں میں دونوں حقیقی و نجی دلچسپی کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ قرض پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ لگایا جارہا ہے‘ تاہم 1980ء سے 1990 ء تک پہنچنے والے حصص میں نیچے رہنے کے لئے‘ اقتصادی خسارے میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔
ایسا لگ رہاہے کہ حکومتی خسارے‘ معیشت کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اقتصادی اصول ہے کہ حکومت اعلیٰ درجے کی کمپنیوں کو قرض دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ شرح سود طے کرے‘لیکن ان دنوں‘ سود کی شرح کم ہے‘ سٹاک مارکیٹ کی قیمتیں کمپنی کی آمدنی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور بڑی کمپنیاں ان کی بیلنس کی چادروں پر بہت زیادہ نقد رقم رکھتی ہیں۔بہت سے اقتصادی ماہرین اور پالیسی ساز‘ جن میں سابق خزانہ کے سابق سیکرٹری رابرٹ روبین اور معیشت پسند مارٹن فیلڈسٹین شامل ہیں‘ پریشان ہیں کہ سود کی شرح پہلے ہی بہت کم ہے۔انہوں نے کچھ خیر مقدم کے ساتھ تنقید کا نشانہ بھی بنایا‘ سست قرضے‘ سرمایہ کاروں نے غیر منافعانہ منصوبوں میں اپنے پیسہ ڈالنے کے لئے‘ مالی بلبلوں کو پیدا کیا اور اگلے مشن کے جواب میں شرح کم کرنے کے لئے کم لیوی کے ساتھ مرکزی بینک کو چھوڑ دیاہے ؛اگر امریکہ نے اپنے خسارے کو تین فیصد جی ڈی پی کی طرف سے کاٹ دیا ‘تو قومی قرض کو مستحکم کرنے کے لئے‘ سود کی شرح بھی زیادہ ہو جائے گی۔
کچھ مبصرین پریشان ہیں کہ تحقیقات انتباہ کر رہی ہیںکہ بڑھتے ہوئے خسارے اقتصادی ترقی کو آہستہ آہستہ کھا رہے ہیں۔ یہ ایک نئے مالی بحران کی قیادت کرسکتے ہیں‘ جس میں امریکہ نے کریڈٹ مارکیٹوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ امریکی مستقبل کی نسلوں کو آج کے قرض پر دلچسپی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ ماہرین کا نقطہ نظر مختلف ہے۔‘سینیٹری برنی سینڈرز کے صدارتی مہم کے ماہرین اور سابق مشیر سٹیفنی کیلیٹن کے ایڈوکیٹ نے تشویش کا اظہارکیا کہ حکومت کو ان کی اپنی کرنسیوں میں قرضے دینے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔بجٹ کی رکاوٹوں کے ساتھ ٹیکس کو لاگت کی سطح پر مبنی نہیں ہونا چاہئے‘ لیکن اقتصادی معاشی شرائط اور خسارہ فنانسنگ سود کی شرح پر کوئی اثر نہیں رکھتی ہے۔کچھ سیاستدانوں نے ان پوزیشنوں پر واضح موقف دیا ہے کہ حکومت قرض کے بارے میں فکر نہ کرے۔(کیلیٹن اور دیگر ایم ٹی ٹی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کے نظریہ کی غلط تشریح کی گئی‘ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے حقیقی دلائل کیا ہیں اور ایم ایم ٹی کے زیادہ سے زیادہ سیاسی حامیوں نے اسے سرکاری قرضوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کے لیے ایک جائزہ کے طور پر استعمال کیا ہے)
کوئی بھی مختلف قرضوں کے فوائد اور اخراجات نہیں جانتا۔ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ 75 فیصد جی ڈی پی‘ جی ڈی پی 100 فی صدیا جی ڈی پی کے150 فیصد‘بہترین پروجیکشنز کے مطابق‘ امریکہ کے اگلے 30 سال میں ان کااعداد و شمار زیادہ ہوگا؛اگرچہ امریکی حکومت حتمی مستقبل کیلئے منصوبہ جات بناتی رہتی ہے‘ یہ غیر یقینی دنیا میں ‘قرض سے جی ڈی پی کے تناسب کو ہمیشہ کے لئے بڑھنے کی اجازت دینے کے لئے پریشانی ہوگی۔اس سلسلے میںمالیاتی پالیسی کو ایڈجسٹ کرنے یا سود کی شرح کو بڑھانا ‘جیسا کہ جدید مالی نظریہ کے کچھ مدافعوں کی طرف سے سفارش کی گئی ہے‘ غور کرے گی اور عمل پیرا ہوگی۔