تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     24-02-2019

دنیا بدل رہی ہے، ہم تیار نہیں

دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، خیرہ کن تیزی سے۔ کچھ معاشروں، خصوصاً مغرب میں اندرونی توڑ پھوڑ کا جاری عمل بھی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ سماج کی تعمیر ایک مسلسل عمل ہے۔ اس میں نہ جمود ہے‘ نہ دوام۔ یہ عمل نہ تھمتا ہے اور نہ ہی کبھی تھمے گا؛ تاہم اس کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جس کا تعلق عالمگیر اصولوں سے ہوتا ہے۔ سماج کی یہ جہت دائمی اور ازلی اصولوں کی عکاس ہوتی ہے۔
ہم صرف اس بات پر اکتفا نہیں کرتے کہ دنیا میں تبدیلیوں کا عمل جاری ہے اور جاری رہے گا۔ سماجی تبدیلیوں کے دوسری طرف فکری جمود ہے۔ ان کے درمیان وسیع تفاوت پریشانی اور تنائو کا باعث بنتی ہے۔ مقامِ فکر یہ ہے کہ تبدیلیوں کے عوامل اور اسباب دراصل کیا ہیں؟ وہ کونسی تدابیر اور پالیسیاں ہیں جو معاشرے کو جمود کا شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔ اس بحث کے پیشِ نظر ایک اہم سوال ہے کہ آخر تبدیلی کا مقصد یا مقاصد کیا ہیں؟ 
اقوام کے سامنے مقاصد تو کئی ایک ہوتے ہیں، لیکن اوّلین نصب العین امن و استحکام، خوشحالی، آسودگی، انفرادی اور اجتماعی ترقی کا حصول ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک، دانش گاہوں سے لے کر میڈیا تک، ان مقاصد کا پرچار ہوتا ہے۔ صرف یہی ہیں، اصلی یا نقلی راہبروں سے لے کر راہزنوں تک، سب انہی مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے اپنی اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں۔ 
اگر ریاستوںکے بیان کردہ مقاصد یہی ہیں تو پھر ان میں اتنا فرق کیوں؟ کچھ ریاستیں، جیسا کہ وطنِ عزیز، آگے بڑھنے میں کمزور، سست اور کسی حد تک جمود کا شکار ہیں، جبکہ کئی ریاستوں نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران غربت، افلاس، ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنے کے علاوہ صنعت، تجارت اور سائنسی شعبوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ 
پاکستان کی تاریخ میں بھی دو ادوار ایسے گزرے‘ جب ہم نے اقتصادی ترقی کی راہ پر قدم رکھا، بلکہ اُس دور میں ہماری معاشی ترقی کی شرح کئی ہم پلہ ترقی پذیر ممالک سے قابلِ رشک حد تک زیادہ تھی۔ یاد رہے، اُس وقت وطنِ عزیز فوجی آمریت رکھتا تھا۔ تو کیا اس سے یہ مطلب اخذ کرنا درست ہوگا کہ پاکستان صرف فوجی حکومت کے سائے میں ہی ترقی کرسکتا ہے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میرے نزدیک ترقی کا تعلق کچھ اصولوں سے ہے۔ جو بھی حکومت، چاہے وہ فوجی ہو یا جمہوری، وہ جو بھی ساخت اور جہت رکھتی ہو، جب کسی استثنا کے بغیر ان اصولوں کو اپناتی ہے تو وہ ترقی کر سکتی ہے۔ چین گزشتہ تین عشروں میں ایک پسماندہ قوم سے ایک عالمی طاقت بن چکا۔ اُس کی معیشت اب جاپان کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کو چیلنج کر رہی ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ جس تیزی سے چین ترقی کی منازل طے کررہا ہے، وہ اُسے ثانوی پوزیشن میں نہ دھکیل دے۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیںکہ وہ نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے مراحل اتنی جلدی طے نہ کرے اور دنیا پر غلبہ برقرار رکھنے کو چیلنج نہ کر سکے۔ 
ہمارے سیاسی رہنما چین کی مثال روزانہ دیتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں بھی کئی مسلمان ریاستوں نے ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کی ہیں، جیسا کہ ملائیشیا، انڈونیشیا، سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں۔ چنانچہ پسماندگی اور جمود پر ثقافت، روایات اور عقائد کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ایسا کرنا محض خود فریبی ہے۔ تاریخ کا سبق، اور کسی حد تک جبر، یہ ہے کہ جب ہم قومی سمت متعین کرنے کے بعد مادی وسائل بروئے کار لاتے ہیں تو اس سے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ سماجی تبدیلی کے اصول بھی بہت حد تک سائنسی ہیں۔ نتائج میں فرق سماج کی حیثیت، قیادت کی سوچ اور علمیت پسندی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمارے قومی مکالمے میں خود ترسی اور معصومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اور دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔ ہم سے وہ ممالک بھی ترقی کی دوڑ آگے نکل گئے ہیں‘ جنہیں ہم خود سے بہت پیچھے دیکھتے تھے۔ 
یہاں یہ سوال اہم ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں دنیا کی ترقی کے ہم قدم ہونے سے روکتے ہیں؟ جب ہم اپنے تئیں اس بات پر غورکرتے ہیں تو اس کا جواب بھی سیاسی جانبداری کے رنگ میں رنگا نظر آتا ہے؛ چنانچہ مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔ تحریکِ انصاف اور اس کے حامی تجزیہ کار صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دوسری طرف ان دونوں جماعتوں کا بیانیہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی صفوں میں موجود کئی بار چلے ہوئے کارتوس، اور مبینہ بدعنوان عناصر ملکی معیشت کا کباڑا کررہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے ابھرنے سے پہلے یہ دونوں روایتی بڑی جماعتیں عشروں تک ایک دوسرے سے متحارب رہیں۔ ان عشروں میں ہم نے اُنہیں کبھی قومی ترقی اور خوشحالی کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا۔ 
اس ضمن میں چند معروضات عالمی تاریخ کے تناظر میں اپنے قارئین اور سیاسی قیادت کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ تبدیلی اور ترقی کا دارومدار قانون کی حکمرانی پر ہوتا ہے۔ صرف وہی معاشرہ ترقی کرسکتا، اور مہذب کہلا سکتا ہے جس میں قانون سب کے لیے ایک ہو۔ جس قوم نے یہ راز پا لیا، وہ ترقی کر گئی اور سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی اُس کا مقدر ٹھہری؛ تاہم یہ بات کہنا آسان اور اس پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل ہے۔ ہمارے ہاں رکاوٹ یہ ہے کہ یہاں اُن افراد کو سیاسی غلبہ حاصل ہے جو اس قانونی مساوات کو نہیں مانتے اور عملی طور پر اس کے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ یاد رہے کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کچھ نہیں کرسکتی‘ جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی‘ اس کے اثرات رائیگاں جائیں گے۔ آنے والے مہینوں اور سالوں میں تحریک انصاف کی حکومت اور کپتان کو اسی معیار پر پرکھا جائے گا۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ انصاف کا حصول بروقت، سستا اور مقامی طور پر میسر ہو۔ اس حوالے سے اعلیٰ انتظامیہ سے لے کر ایک خوانچہ فروش تک، سب یک زبان ہیں۔ سب کئی دہائیوں سے جاری ناقص نظام عدل کے ناقد ہیں۔ لیکن اسے تبدیل کیوں نہیں کیا جارہا؟ اس لیے کہ اس میں کئی طبقات کے مفادات حائل ہیں۔ ایک مضبوط قیادت، مربوط ادارے اور سیاسی اتفاق رائے ہی اصلاحات کا عمل کامیابی سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ملک سیاسی جنگ کا نقشہ پیش کررہا ہو، اداروں میں کشیدگی ہو اور سیاسی رہنما باہم دست وگریباں ہوں تو پھر کہاں کی اصلاحات، کہاں کی تبدیلی؟ خدشہ ہے کہ ابھی ہمارے برے دن نہیں پھرنے جارہے۔ ہم ابھی مزید اسی چکی میں پستے رہیں گے۔ ہر سیاسی سمت میں آگے بڑھنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا اہم ہوتا ہے۔ اس کے لیے کھلے اور بڑے دل کی ضرورت ہوتی ہے۔ محدود سوچ اور تنگ نظری سے باہر نکل کر ریاست کے لیے سوچنا پڑتا ہے۔ 
آخری بات، ناکام لوگ اور ناکام ریاستیں ہی بڑے بڑے خواب دکھاتی ہیں کیونکہ اُن کے لیے زمینی حقائق بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ یقینا خواب ضروری ہیں، لیکن حقیقت کی زمین سے قدم نہیں اٹھنے چاہئیں۔ درست سمت میں قدم اٹھانے کے لیے حقائق کا ادراک ضروری ہے۔ یہ قدم ذات اور کردار سے شروع ہوتا، اور دوسروں کے لیے مثال بنتا ہے۔ اس سے رہنما کی اخلاقی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس اخلاقی طاقت کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی اور احتساب کا عمل بھی جاری رہے۔ اس حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ یہاں کسی طور غفلت یا کوتاہی اب خطرناک ہوگی۔ دم بھر کی مہلت نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تبدیلی کا بیانیہ ایک مذاق بن کر رہ جائے۔ اب کچھ کر دکھانا ضروری ہوچکا۔ لیکن اس کے لیے ہمیں نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے سامنے دیگر اقوام کی مثالیں موجود ہیں۔ بس قبلہ درست، اور نیت واضح کرنا ہوگی۔ 
اپوزیشن کے ساتھ موجودہ رویہ تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اپوزیشن کسی ایک رہنما کا نام نہیں، یہ سیاسی عمل کا ایک اہم عنصر ہوتی ہے۔ معاشی ترقی اور تبدیلی کے لیے اس کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ سرکاری محکموں کی بے حسی، افسر شاہی کی رعونت کا سدباب کرنا، اور اُنہیں عوام کی خدمت کا احساس دلانا ہو گا۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کے لیے سرمایہ نہیں، سیاسی ارادہ درکار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved