تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     24-02-2019

نرمی

انجینئر فواد ایک باعمل سرکاری آفیسر ہیں ۔ہم نے کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی اکٹھے کی تھی۔ کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی گاہے بگاہے ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔ وہ کبھی کبھار مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر جمعہ پڑھنے کے لیے بھی تشریف لاتے ہیں۔ سرکاری جاب کرنے کے دوران وہ مختلف قسم کے کورسز اور ورکشاپس میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ ان کو جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کورسز کروائے جاتے ہیں۔ وہاں پر اسلامیات کے بعض اہم عناوین کے حوالے سے بھی وہ گروپ کے دیگر شرکاء کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے رہتے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور یہ بات کہی کہ آئندہ چند روز میں نرمی کے حوالے سے مذاکرہ ہو گا۔ اس بارے میں جب ان سے کچھ تبادلہ خیال ہوا تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ اس عنوان پر عوام الناس کی رہنمائی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت جس عدم برداشت کا شکار ہے‘ اس کا مظاہرہ سیاسیات سے لے کر خانگی معاملات تک ہر مقام پر کیا جاتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے سے جھگڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیںاور دوسرے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ نرم روی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس کا مظاہرہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہونا چاہیے۔ دعوت دین کا کام بھی نرم روی کا تقاضا کرتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی اقوام کو جب دعوت دی تو انتہائی نرم روی کا مظاہرہ کیا اور اپنی اپنی اقوام کی شدید مخالفت کے باوجود بھی ترش لہجے کو اختیار نہ کیا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کے پاس تبلیغ کے لیے بھیجا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کوجو تلقین کی وہ سورہ طہٰ کی آیت نمبر 43‘44میں یوں بیان ہوئی ہے: ''دونوں جاؤ فرعون کے پاس بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ پس تم دونوں کہو‘ اس سے نرم بات شاید کہ وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جائے۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں اپنے دین کی طرف بلانے کے لیے اچھے انداز کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر125 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(اے نبی!)بلائیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت (کے ساتھ)اور بحث کیجئے ان سے اس (طریقہ )سے جو (کہ )سب سے اچھا ہوبے شک آپ کا رب خوب جاننے والا ہے‘ اس کو جو گمراہ ہوا اس کے راستے سے اور وہ خوب جاننے والا ہے ہدایت پانے والوں کو۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر34 میں احسن انداز میں برائی سے روکنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ''اور نہیں برابر ہوتی نیکی نہ برائی ‘ آپ ہٹائیے (برائی کو) اس (طریقے) سے جو (کہ )بہت اچھا ہو تو اچانک (ایسا کرنے سے آپ دیکھیں گے کہ) وہ ہی جو آپ کے اور اس کے درمیان دشمنی تھی‘ گو یا وہ (آپ کا) گرم جوش دوست ہے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حلم اور نرمی سے نوازا تھا‘ جس کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ پر جانیں نچھاور کرنے پر تیار ہو جاتے تھے۔ اس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 159 میں یوں فرمایا ہے: ''پس اللہ کی رحمت سے آپ نرم واقع ہوئے ہیں ۔‘‘
احادیث مبارکہ میں بھی زندگی کے مختلف امور میں نرمی کرنے کے حوالے سے بہت ہی بیش قیمت باتیں ارشاد ہوئی ہیں‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں: 
1۔مسجد میں جہالت کا مظاہرہ کرنے والے پر نرمی: صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔ (یہ دیکھ کر ) رسول اکرمﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو‘ کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو‘ سختی کے لیے نہیں۔ 
2 ۔ کاروبار میں نرمی: صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے‘ جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے‘ اسی طرح صحیح بخاری ہی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہو گئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ ان صحابی نے عرض کیا: میں ہی ہوں یا رسول اللہ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے‘ وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔ 
3 ۔عبادات اور تلاوت میں نرمی: حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی یا اونٹ پر سوار ہو کر تلاوت کر رہے تھے‘ سواری چل رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے یا ( راوی نے یہ بیان کیا کہ ) سورۃ الفتح میں سے پڑھ رہے تھے ۔آپ نرمی اور آہستگی کے ساتھ قرآت کر رہے تھے اور آواز کو حلق میں دہراتے تھے۔ 
اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ‘ کہا : ایک سفر میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ لوگ بلند آواز کے ساتھ اللہ اکبر کہنے لگے ‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کرو ‘ تم نہ کسی بہرے کو پکار رہے ہو ‘ نہ غائب کو ‘ تم اس کو پکار رہے ہو‘ جو ہر وقت خوب سننے والا ہے ‘ قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے ۔ 
4۔بے ادبی کرنے والے کے ساتھ نرمی: صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کہ کچھ یہودی ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : السام علیکم( تمہیں موت آئے ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا کہ وعلیکم السام واللعنۃ( یعنی تمہیں موت آئے اور لعنت ہو ) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو! اے عائشہ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اور ملائمت کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کا جواب دے دیا تھا کہ وعلیکم( اور تمہیں بھی ) ۔
5۔قبیلے کے برے آدمی کے ساتھ نرمی: صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اجازت دے دو‘ فلاں قبیلہ کا یہ برا آدمی ہے جب وہ شخص اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے گفتگو کی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو اس کے متعلق جو کچھ کہنا تھا ‘وہ ارشاد فرمایا اور پھر اس کے ساتھ نرم گفتگو کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ عائشہ! وہ بدترین آدمی ہے‘ جسے اس کی بدکلامی کے ڈر سے لوگ ( اسے ) چھوڑ دیں۔ 
6۔خواتین کے ساتھ نرمی: صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک سفر کے موقع پر ) اپنی عورتوں کے پاس آئے‘ جو اونٹوں پر سوار جا رہی تھیں‘ ان کے ساتھ ام سلیم رضی اللہ عنہا انس کی والدہ بھی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس‘ انجشہ! شیشوں کو آہستگی سے لے چل‘یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ شیشوں کو نرمی سے لے چل۔
7۔جانوروں کے ساتھ نرمی: صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوئیں ‘جس میں ابھی سرکشی تھی ‘تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسے گھمانے لگیں ‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ! نرمی سے کام لو ۔ 
نرمی کے فوائد اور سختی کے نقصانات کے حوالے سے صحیح مسلم کی دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ! اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے ‘جو درشت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا ‘ وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا ۔ ‘‘
2۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے ‘اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال دی جاتی ہے ‘اسے بدصورت کر دیتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں نرمی کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved