تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     25-02-2019

2018ء کے انتخابات اور کرپشن کا پوسٹ ٹُرتھ

2018ء کے انتخابات، کرپشن کے عنوان سے تخلیق کردہ جس 'پوسٹ ٹُرتھ‘ کی بنیاد پر لڑے گئے، دو فیصلوں نے، اس کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے۔
صاف پانی، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز کے مقدمات میں، ہائی کورٹ نے بتایا کہ بادی النظر میں ایک پیسے کی کرپشن سامنے نہیں آئی۔ یہی نہیں، صاف پانی کے مقدمے میں تو شہباز شریف صاحب اور انتظامیہ نے قومی خزانے کے چالیس کروڑ روپے بچائے۔ یہ مقدمات اتنے کمزور تھے کہ ہائی کورٹ نے مقدمہ سازوں کی نیت تک کو مشتبہ قرار دے دیا۔ انتخابات میں مگر سچ (Truth) منہ دیکھتا رہ گیا اور تخلیق شدہ سچائی (Post truth) جیت گئی۔
اُنہی دنوں میں، میں نے تکرار کے ساتھ لکھا کہ کیسے دنیا بھر میں 'پوسٹ ٹُرتھ ‘ کا غلبہ ہے۔ کیسے غیر محسوس طریقے سے سماجی حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں بریگزٹ (Brexit) کے معاملے میں اور امریکہ میں ٹرمپ صاحب کی انتخابی مہم میں اس کا کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ میں نے بارہا یہ عرض کیا کہ کیسے پاکستان میں بھی شاندار ابلاغی مہم کی مدد سے عوام کی نظر بندی کی جا رہی ہے۔ نقار خانے میں مگر طوطی کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ تحریک انصاف نے کامیابی کے ساتھ ہیجان پیدا کیا اور یوں برطانیہ اور امریکہ کی طرح، یہاں بھی پوسٹ ٹُرتھ کامیاب ہو گیا۔ 
آج اگر سچ کے چہرے سے پردہ اٹھ رہا ہے تو یہ عملاً بے معنی ہے۔ جو نتائج حاصل کیے جانے تھے، وہ کیے جا چکے۔ معاشرتی سطح پر جو باور کرانا تھا، وہ کروا دیا گیا۔ جن کو جتوانا تھا، جتوایا جا چکا۔ ان انتخابات کی بنیاد پر حکومتیں قائم ہو گئیں۔ سانپ گزر چکا۔ اب اگر کوئی لکیر پیٹنا چاہے‘ تو اسے کون روک سکتا ہے؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ بر طانیہ یورپی یونین سے نکل چکا۔ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں۔ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔
صاف پانی کے مقدمے میں، انتخابی حلقہ این اے 59 سے نون لیگ کے امیدوار انجینئر قمرالاسلام کو گرفتارکیا گیا تھا۔ انہیں انتخابی مہم کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا۔ ان کے کم سن بچے ووٹ کے لیے پھرتے رہے۔ اب چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور خان کے مقابلے میں، ان لا چار بچوں کی کون سنتا؟ قمرالاسلام ہی کو نہیں، اس حلقے کے لوگوں کو بھی آزادانہ رائے دہی کے حق سے محروم رکھا گیا۔ اس خطے کے عوام اب کہاں اپنا مقدمہ درج کرائیں؟ غلام سرور خان وزیر بن چکے۔ تاریخ کا پہیہ اب پیچھے کی طرف نہیں چل سکتا۔
تاریخ اپنا فیصلہ سناتی ہے۔ عدالتِ عالیہ کا فیصلہ تاریخ سازی کے اس عمل میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ تاریخ کا المیہ مگر یہ ہے کہ وہ واقعے کو نہیں بدل سکتی۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کی شہادت مظلومانہ تھی۔ تاریخ کا یہ اعتراف مگر نہ ان کے جسم و روح کے ٹوٹے رشتے کو جوڑ سکا اور نہ یزید کے اقتدار ہی کو ختم کر سکا ہے۔ صدیوں سے تاریخ ظالموں کی مذمت کرتی چلی آ رہی ہے مگر جو حادثہ ہوا، وہ اس کی کوئی تلافی نہیں کر سکی۔
حادثہ ہو جاتا ہے تو زمانے کا چلن یہ ہے کہ اسے بطور واقعہ قبول کر لیا جاتا ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ قبول کرنے کے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ مارشل لا ایک حادثہ ہے مگر اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے ریاستی بندوبست کو بالقوہ (de facto) حکومت مان لیا جاتا ہے۔ اخلاقی بنیادوں سے محرومی، حقیقت نفس الامری کو تبدیل نہیں کرتی۔ ظالم بادشاہ کی اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی لیکن 'بادشاہت‘ بطور امرِ واقعہ مان لی جاتی ہے؛ تاہم ایک معاشرے میں ایسے لوگ، کم تعداد ہی میں سہی، ضرور ہونے چاہئیں جو مسلسل یہ آواز اٹھاتے رہیں کہ حکومتوں کے لیے اخلاقی بنیادوں کی کیا اہمیت ہے۔
کرپشن کا معاملہ جس مبالغہ آمیزی کے ساتھ پیش کیا گیا، اس سے جو فوری فائدہ مطلوب تھا، وہ اٹھایا جا چکا۔ یہ چونکہ ایک مصنوعی تنفس پر قائم ماحول تھا، اس لیے یہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگلے انتخابات کے لیے ایک نئے نعرے کی ضرورت ہو گی؛ تاہم اس سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوئے، انہیں سمجھنا لازم ہے۔ اس امید پہ کہ ہم مستقبل میں انہیں دھرانے سے گریز کریں گے۔
کرپشن کے معاملے میں مبالغہ آرائی، تین طرح سے ہوئی۔ ایک تو اس کا حجم جتنا تھا، اس سے کہیں زیادہ بتایا گیا۔ ہائی کورٹ نے اس حقیقت پر، اپنے دو فیصلوں میں مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ دوسرا یہ کہ اسے ام المسائل بنا کر پیش کیا گیا، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ضرور ہے مگر اپنی اصل میں نتیجہ ہے نہ کہ سبب۔ تیسرا یہ کہ ان باتوں کو بھی کرپشن بنا دیا گیا جو سیاسی نظام کا حصہ ہیں۔
مثال کے طور پر اسمبلی کے اراکین کو، ان کے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی سکیموں کے لیے، پیسے دیے جاتے ہیں۔ یہ نقد ادائیگی نہیں ہوتی۔ رکن اسمبلی منصوبے پیش کرتا ہے جن کی منظوری دی جاتی ہے۔ ان منصوبوں پر عمل مروجہ قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ اسے کرپشن نہیں کہا جا سکتا مگر تحریکِ انصاف کی انتخابی مہم میں اسے بھی کرپشن کی ایک صورت کے طور پر پیش کیا گیا۔
اس میں نا انصافی اگر ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ حکمران جماعت صرف اپنے اراکین کو یہ سہولت دے اور حزبِ اختلاف کو محروم رکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب اس معاملے میں بھی تحریکِ انصاف کی حکومت کا موقف تبدیل ہو چکا۔ چند روز پہلے راولپنڈی کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی کو پندرہ پندرہ کروڑ کی ترقیاتی گرانٹ کی منظوری دی گئی۔ کیا یہ لوگ اسے اب بھی کرپشن قرار دیں گے؟
واقعہ یہ ہے کہ کرپشن کے پوسٹ ٹرتھ کو بہت بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے سچ مان لیا۔ پنجاب کی وزیر صحت نے آتے ہی بتایا کہ ان کی وزارت میں اتنی کرپشن ہے کہ پہلی ہی بریفنگ میں تفصیلات جان کران کے ہوش اڑ گئے۔ اس بات کو سات ماہ گزر گئے۔ آج تک کوئی ایک ایسی بات سامنے نہ آسکی ‘ جو ہوش اڑانے کا باعث ہو۔
اسی طرح مواصلات کے وزیر نے احسن اقبال صاحب پر ستر ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگایا جس کا تعلق سی پیک کے ایک منصوبے سے ہے۔ اس کی تردید چینی کمپنی کو کرنا پڑی جو اس معاہدے کا حصہ تھی۔ وفاقی وزیر پوسٹ ٹرتھ کو آگے بڑھانے کے جوش میں اس بات سے بے نیاز تھے کہ اس کے کیا اثرات اس منصوبے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہیں شاید یہ یاد نہیں رہا کہ انتخابی عمل تمام ہو چکا اور وہ وزیر بھی بن چکے۔
جب میں کہتا ہوں کہ کرپشن کے باب میں مبالغہ آرائی کو روا رکھا گیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان میں کرپشن نہیں ہے یا سابقہ حکمران اللہ کے ولی تھے۔ حکمران کل بھی ہمارے اجتماعی کردار کا پرتو تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ معاشرے میں جزیرے نہیں بنتے۔ جتنی کرپشن معاشرے میں ہے، اتنی ہی حکومتوں میں بھی ہوتی ہے۔ فرق ہو سکتا مگر ایسا غیر معمولی نہیں کہ قوم کو سادھوئوں اور دنیا پرستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ زندگی سچائی (Truth) ہی کی بنیاد پر آگے بڑھ سکتی ہے، جھوٹ (Post trurth) کی بنیاد پر نہیں۔ ہم خود پر اور عوام پر ظلم کرتے ہیں‘ جب مصنوعی سچائیاں تراشتے اور پھر انہیں سماج میں رائج کر دیتے ہیں۔ تاریخ مگر بے رحم ہے۔ وہ سچائی کے چہرے پر تا دیر پردہ نہیں رہنے دیتی۔ کوئی نہ کوئی واقعہ نقاب الٹ دیتا ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے نے بھی ایسا ہی ایک پردہ اٹھا دیا۔ تاریخ کی کمزوری مگر یہ ہے کہ وہ ماضی کو حال نہیں بنا سکتی۔ 2018ء کے انتخابی نتائج اب تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ایک بات البتہ ہمارے بس میں ہے: اگلے انتخابات ٹرتھ کی بنیاد پر ہوں، کسی پوسٹ ٹرتھ کی بنیاد پر نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved