تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     25-02-2019

پاک بھارت مذاکرات کے امکانات

ایک اطلاع کے مطابق قومی اسمبلی کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما ڈاکٹر رمیش کمار نے نئی دہلی میں بھارت کی اعلیٰ سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان میں منسٹر آف سٹیٹ برائے امور خارجہ اور بھارتی بری فوج کے سابق چیف آف سٹاف جنرل (ریٹائرڈ) وی پی سنگھ‘ وزیر خارجہ سشماسوراج اور وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم مودی سے ڈاکٹر رمیش کمار کی ملاقات آدھے گھنٹے تک جاری رہی اور بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق‘ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھارتی قیادت کے لیے پیغام لائے ہیں کہ خطے میں مستقل قیام امن کیلئے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں اور پاکستان اس کے لیے تیار ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار پاکستانی ہندو برادری کے ایک سرکردہ رہنما ہیں اور ایک بھارتی صحافی کے مطابق : انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے خود یہ بیان دیا ہے کہ وہ اپنے ملک سے بھارتی رہنمائوں کے نام امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور ان کا مقصد پاک بھارت مذاکرات کیلئے راہ ہموار کرنا ہے۔
مگر کیا 14 فروری کو ہونے والے حملے کے بعد‘ جس میں بھارتی سنٹرل ریزو پولیس فورس کے 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ممکن ہے؟بظاہر اس کے امکانات کم نظر آتے ہیںکیونکہ بھارتی حکومت نے اس واقعے کے بعد پاکستان کو مورد ِالزام ٹھہراتے ہوئے چند ایسے اقدامات کا اعلان کیا جن سے دونوں ملکوں ایک دوسرے سے مزید دور ہو گئے مثلاً بھارتی حکومت نے پاکستان کودیا گیا ''موسٹ فیورڈ نیشن سٹیٹس‘‘ واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے‘ پاکستان سے بھارت کو بھیجی جانے والے اشیا پر ڈیوٹی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اگرچہ پاک بھارت دو طرفہ تجارت کا حجم اتنا زیادہ نہیں اور اس کے تجارت کا توازن بھی بھارت کے حق میں تھا مگر گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی کے دوران بتدریج فروغ پانے والی پاک بھارت تجارت دونوں ملکوں کے لیے سود مند تھی۔ 2004ء میں جس امن عمل کا آغاز کیا گیا تھا‘ یہ تجارت اس کا ایک اہم ثمر تھی۔ اسی سے Inspireہو کر دیگر اہم سی بی ایم مثلاً مظفر آباد‘ سری نگر بس سروس (2005ئ) اور لائن آف کنٹرول کے آر پار کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت (2008ئ) کا آغاز بھی کیا گیا۔ ان سی بی ایمز سے پاکستان اور بھارت کے عوام کے علاوہ کشمیری بھی مستفید ہو رہے تھے۔ اس لیے بھارتی حکومت نے پاکستان سے تجارت پر پابندیاں عائد کر کے اپنا بھی نقصان کیا ہے۔ راجستھان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ پلوامہ حملے کا بدلہ لینے کیلئے پاکستان کے خلاف سفارت کاری پر زیادہ انحصار کریں گے اور اسے دنیا میں الگ تھلگ اور تنہا کر دیں گے‘ حالانکہ دنیا میں پا کستان کے دوست ممالک کی کمی نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ تلخی کی جگہ اب مفاہمت نے لے لی ہے اور اس کا اعتراف خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت اور اس کے کلیدی کردار کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر مودی سرکار کو معلوم ہے کہ پاکستان کو دنیا میں الگ تھلگ نہیں کیا جا سکتا‘اس لیے بھارتی حکومت کی توجہ کا مرکز یہ نہیں بلکہ کشمیر ہے جہاں جدوجہد آزادی کو بزور طاقت دبانے کیلئے بھارت ہر طریقہ استعمال کر رہا ہے۔ پلوامہ کے واقعے کے بعد کشمیر کی حریت پسند قیادت کو نظر بند کر دیا گیا ہے‘ لوگوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے اور صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز کے مزید دس ہزار اہلکار وادی ٔکشمیر بھیجے جا رہے ہیں۔ ان اقدامات سے ریاست جموں و کشمیر میں تشدد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس صورتحال پر پاکستان خاموش نہیں بیٹھا رہے گا۔ دونوں طرف سے الزامات اور الزامات پر مبنی لفظی جنگ شدت اختیار کرے گی۔ ایسے حالات میں پاک بھارت مذاکرات کا انعقاد کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
میری رائے یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے امکانات موجود ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ وزیراعظم عمران خان کی تقریر ہے‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل جن میں دہشت گردی بھی شامل ہے‘ پر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ محض اس لیے معطل چلا آ رہا تھا کیونکہ بھارت کی طرف سے اس کے ساتھ ''دہشت گردی‘‘ کی شرط وابستہ کی جا رہی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی پر بات چیت پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف بھارت کی ایک دیرینہ شرط پوری کر دی ہے‘ بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی سنجیدگی کا ثبوت بھی دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ اقدام اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی کی اعلیٰ بھارتی قیادت سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کے علاوہ جن دیگر عوامل کی وجہ سے موجودہ کشیدگی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان جلد بات چیت کے امکانات ہیںوہ بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ‘ روس‘ چین اور سعودی عرب کا کردار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بڑے تصادم کی صورت میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ نقصان ان دونوں ملکوں کے عوام اور اس خطے کو ہوگا‘ مگر جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی سے اب خطے سے باہر کے ممالک کے بھی مفادات وابستہ ہیں ؛چنانچہ وہ پوری طرح کوشش کریں گے کہ اس تصادم کی نوبت نہ آئے۔ اس کو یقینی بنانے کیلئے مذکورہ ممالک کی جانب سے خاص سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ امریکہ بھی نہیں چاہے گا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے‘ وہ ڈی ریل ہو جائے۔ 
گزشتہ چند برسوں میں روس نے جنوبی اور مغربی ایشیائی ملکوں کے ساتھ تجارت‘ سکیورٹی اور معاشی تعاون میں جو تعلقات قائم کئے ہیں‘پاکستان اور بھارت میں جنگ کی صورت میں ان تعلقات کو بہت نقصان پہنچے گا۔ اس لئے روس بھی ان ممالک میں شامل ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی تصادم کو نہ صرف اس پورے خطے بلکہ اپنے قومی مفادات کے منافی سمجھتے ہیں۔ پاکستان‘ چائنہ اکنامک کوریڈور (سی پیک) کی تعمیر شروع ہونے کے بعد‘ جنوبی ایشیا کے امن اور سلامتی میں چین ایک بہت اہم سٹیک ہولڈر بن کر ابھرا ہے۔ اگر کسی ملک کو پاک بھارت جنگ بلکہ کشیدگی پر سب سے زیادہ تشویش ہے تو وہ چین ہے۔ اس لئے چین نے ان دونوں ملکوں میں مصالحت کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کی تھیں۔ ان ممالک کی صف میں اب سعودی عرب بھی شامل ہو چکا ہے۔ اگرچہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ ٔبھارت کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن اس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی رہنما کی طرف سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کے حل کی خواہش کا لازماً اظہار کیا گیا ہوگا اور اس کی وجہ صاف نظر آتی ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں 20 اور بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
یہ بات بعید از امکان نہیں کہ ان چاروں ممالک نے مشترکہ طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کو روکنے کیلئے فوروی اور مؤثر سفارتی کوششیں کی ہوں۔ ان کا اگلا قدم پاک‘ بھارت مذاکرات کا انعقاد ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور اس خطرناک صورتحال کو ڈیفیوز کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا آغاز اشد ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ ممالک اس میں کامیاب ہو جائیں‘ کیونکہ 2004ء کے امن مذاکرات بھی ان ہی میں سے چند ممالک کی درپردہ کوششوں کا نتیجہ تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved