تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-02-2019

سرخیاں ان کی‘ متن ہمارے

نواز شریف کو خاموشی کے بدلے این آر او 
دینے کی کوشش ہو رہی ہے: مشاہد اللہ خان
نواز لیگ کے مرکزی رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو خاموشی کے بدلے این آر او دینے کی کوشش ہو رہی ہے‘‘ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ این آر او کے بدلے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ‘لیکن حکومت اس کے باوجود کچھ نہیں کر رہی‘ بلکہ کہتی ہے کہ آپ اپنی خاموشی توڑ کر جو بھی گل فشانیاں کرنا چاہیں‘ ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنی صحت کا خاص خیال رکھ رہی ہے اور جہاں تک نواز شریف کی صحت کا تعلق ہے تو وہ ماشاء اللہ ہٹے کٹے ہیں‘ صرف باہر جانے کے لیے صحت اور بیماری کا نغمہ چھیڑا ہوا تھا‘ کیونکہ وہ وہاں جا کر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آخر لندن میں کونسا ایسا طلسم ہے ‘جو ہر کوئی وہاں جانا چاہتا ہے اور جو وہاں جاتا ہے واپس آنے کا نام تک نہیں لیتا‘ پہلے اسحاق ڈار وہاں گئے اور وہیں نتھی ہو کر رہ گئے اور اب حمزہ شہباز بھی آنے کا نام نہیں لے رہے؛ حتیٰ کہ شہباز شریف بھی اُڑنے کے لیے پر تول رہے تھے کہ ان پر ای سی ایل لگانا پڑا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک لیگی رہنما سے گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستان ضرور جائوں گا‘ لیکن بیوقوفوں کی 
طرح چھلانگ نہیں لگائوں گا: پرویزمشرف
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ''پاکستان ضرور جائوں گا‘ لیکن بیوقوفوں کی طرح چھلانگ نہیں لگائوں گا‘‘ بلکہ آرام سے کسی نئے نظام کا انتظار کروں گا‘ تا کہ میرا وہاں شایانِ شان استقبال ہو سکے‘ کیونکہ اس عمر میں آدمی پھانسی کے پھندے پر جھولنا پسند نہیں کرتا ؛اگرچہ جھولا جھولنے کے اپنے ہی مزے ہیں‘ لیکن پھندے پر مزا آنے سے پہلے ہی جان ہوا ہو جاتی ہے‘ جبکہ وہاں سیاسی صورتِ حال خاصی خراب ہے اور انقلاب کے لیے نہایت سازگار بھی‘ لیکن کچھ صاحب کچھ ایسے دلیر نظر نہیں آتے کہ یہ کام کر گزریں؛ حالانکہ میرے پاس ان سیاست دان حضرات کی پوری فہرست موجود ہے‘ جو ان کے گلے میں ہار ڈالنے کے لیے بیتاب بیٹھے ہوں گے‘ بلکہ کچھ شرفاء تو ان کی کابینہ میں شامل ہونا بھی فخر سمجھیں گے‘ کیونکہ یہ زیادہ تر وہی ہیں ‘جو میری کابینہ میں بھی رہ چکے ہیں۔ آپ اگلے روز دبئی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کشمیریوں کی گرفتاریاں بند کی جائیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کشمیریوں کی گرفتاریاں بند کی جائیں‘‘ اور اب تو میں نے بھی کہہ دیا ہے‘ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ یہ گرفتاریاں بند نہ کی جائیں ‘اس لیے جو کشمیری اب تک گرفتار ہونے سے رہ گئے ہیں اطمینان رکھیں اور خوشی کے شادیانے بجاتے رہیں‘ اگر ہم موسیقی اور ڈھول ڈھمّکوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے‘ تاہم بھارت میں ایسا کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے‘ تاہم ؛اگر وہ جشن مناتے ہوئے مزید گرفتار ہونے لگیں تو صبر کریں‘ کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جیسا کہ اب تک اقتدار کی پری کا انتظار کر کے بالآخر ہم نے صبر کر لیا ہے؛ البتہ اس کا پھل میٹھا ہونے کا اب تک انتظار کر رہے ہیں‘ کیونکہ انتظار صبر کو بھی توڑ تاڑ کر رکھ دیتا ہے؛ چنانچہ ہم اس ٹوٹے پھوٹے صبر کے ساتھ ہی گزر اوقات کر رہے ہیں ‘جبکہ اس کے پھل کا میٹھا ہونے سے بھی مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں‘ پتا نہیں یہ غلط قسم کا محاورہ کس نے ایجاد کیا ہے۔ آپ اگلے روز کشمیریوںکی گرفتاریوں کی مذمت کر رہے تھے۔
بھارتی جارحیت اور مہم جوئی کیخلاف پوری قوم متحد ہے: شہباز شریف
سابق خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بھارتی جارحیت اور مہم جوئی کے خلاف پوری قوم متحد ہے‘‘ ماسوائے بھائی صاحب کے جو مودی صاحب کے ساتھ اپنی دوستی کے ہاتھوں مجبور ہیں‘ لیکن یہ محض دوستی نہیں‘ بلکہ مودی صاحب وہاں موصوف کے کاروبار کا تحفظ بھی کرتے ہیں‘ جبکہ اگلے روز بھارت کی جانب سے عالمی عدالت میں وہ بیان بھی داخل کیا گیا ہے‘ جس میں بھائی جان نے محض قومی مفاد میں بھارت میں ایک دہشت گردانہ حملے کا ذمہ دار بعض پاکستانیوں کو قرار دیا تھا‘ جو محض ان کی فراخدلی کا نمونہ تھا‘ جبکہ وہ بھارت کے معاملے میں ہمیشہ فراخدلی سے کام لیتے ہیں ‘جبکہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فراخدلی بجائے خود ایک قابلِ تعریف چیز ہے اور جس کا بھارت نے بھی کھل کر اعتراف کیا تھا‘ جبکہ کسی کی فراخدلی کا اعتراف کرنا اپنے طور پر ایک قابل تعریف جذبہ ہے‘ تاہم بھائی صاحب ؛اگر کوئی غلطی بھی کرتے ہیں ‘تو صرف اس وقت جب وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا چکتے ہیں‘ کیونکہ اس کے بعد انہیں دنیا و مافیا کی کچھ خبر نہیں رہتی۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نیب اچھا کام کرے گا تو سراہیں گے‘ غلطی پر تنبیہ کریں گے: علی محمد
وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''نیب اچھا کام کرے گا تو اسے سراہیں گے‘ غلطی پر تنبیہ کریں گے‘‘ اور اب تک وہ بہت اچھا کام کر رہا ہے اور مستقبل قریب میں اور بھی اچھے کاموں کی امید ہے ‘جن کا تعلق کراچی سے ہوگا‘ اس لیے اسے بھی جی بھر کے سراہیں گے‘ جبکہ اس کی غلطی یہ ہے کہ اس کے پراسیکیوٹر بہت نالائق واقع ہوئے ہیں اور مقدمہ صحیح طور پر عدالت میں پیش ہی نہیں کر سکتے‘ کم از کم وہ ہمارے وکلاء ہی سے مشورہ کر لیا کریں ‘کیونکہ عدم ثبوت کی بنا پر کسی ملزم کا بری ہونا ہمارے لیے بھی باعثِ تشویش اور مایوسی ہے‘ اس لیے اس بیان کو وہ تنبیہ ہی سمجھیں اور اپنے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں ایک بار پھر ایسی ہی تنبیہ جاری کرنی پڑے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے‘ وہ پکڑ دھکڑ کا کام جلدی جلدی مکمل کر لیں‘ کیونکہ ان کے فالتو اختیارات کم کرنے کے لیے ایک قانون سازی بھی ہونے جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
احساں نہیں کرتا جو گزارے کے علاوہ
وہ بھی اسی مبہم سے اشارے کے علاوہ

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved