ہندو'' نظریات ‘‘پر یقین رکھنے والے سیاست دانوں نے اکٹھے ہو کر جو امیدیں لگائی تھیں‘ وہ پوری نہ ہو سکیں۔ کیسے کیسے ''بزرگ‘‘ ہندو سیاست دان امیدیں باندھ کر انتخابی میدان میں اترنے کی تیاریاں کررہے تھے؟جن میں اکثر قریباً نصف صدی سے ہندو راج کے نفاذ کے لئے طرح طرح کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے‘لیکن ایک عجیب تماشا لگا۔ جتنے بڑے بڑے ہندو لیڈر انتخابی نتائج کو اپنے حق میں دیکھ رہے تھے ‘ وہ سب کیا دھراتنکوں کی طرح بکھر گیا۔کم ازکم پچاس ساٹھ '' بزرگ‘‘ ہندو لیڈر امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بھارت میں اقتدار کی لگام ان کے ہاتھوں میں ہو گی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لیڈروں کی باہمی اور طویل کشمکش کے بعد پتا چلا کہ ایک بھی لیڈر قیادت کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ لے سکا۔بہت سے امیدوار تھے۔ '' بزرگ‘‘ سیاست دان بھی تھے اور سب نے انتخابی معرکوں میں وزیراعظم کی گدی سنبھالنے کی امیدیں لگا رکھی تھیں۔میں اس پورے دھندے میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہندو انتہا پسند لیڈروں میں کون میدان مارسکے گا؟سارے'' بڑے بڑے لیڈر ‘‘دیکھتے رہ گئے اور ایک متعصب ہندو'' لیڈر‘‘ جو ٹی وی مباحثوں میں نمایاں ہونے کی کوشش کرتا ۔انہی ٹی وی مباحثوں میں آہستہ آہستہ نمایاں دکھائی دینے لگا۔ جوڑ توڑ کا درمیانہ سیاست دان تھا ‘مگر کاری گر ایسا تھا کہ نصف صدی سے بھی زیادہ سیاسی زندگی میں نمایاں حیثیت کے امیدوار‘ دھرے کے دھرے رہ گئے اور سب کو چت کر کے گجرات کا وزیراعلیٰ بن کر تمام بڑے بڑے ''بزرگوں‘‘ کو مات د ے کر‘ رام مندرکے نعرے لگاتا ہواسب کو پیچھے ہٹاتا ہوا ‘وزارت ِعظمیٰ کا امیدوار بن گیا۔کیسا کمال ہے کہ وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے والانچلے درجے کا چھوٹا لیڈر‘ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو گیا۔ بھارتی سیاست کہ بڑ ے بڑے ''بزرگ‘‘ لیڈر پیچھے رہ گئے ۔
آزادی کے بعد برصغیر کی سیاست میں جو بڑے بڑے لیڈر منظر عام پر آئے‘وہ اپنے خوابوں کی گردِ راہ بن کر رہ گئے۔ مودی طرح طرح کے سیاسی نظریات کے راستوں پر ادھر ادھر بھٹکتا ہوا ‘آخر کار بھارت پر راج کرنے لگا ‘لیکن آنے والے باقی ماندہ انتخابی مرحلے میں اب اس کے وزارت ِعظمیٰ کی گدی پر دوبارہ براجمان ہونے کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسی قدوقا مت کا متعصب لیڈر کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے قابل نہیں ہو تا۔ انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہونے والا ہے‘ مودی کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔
مودی صاحب کا سب سے بڑا ''کارنامہ‘‘ ریاست جموںو کشمیر میں برسوں سے دبائی ہوئی مقامی تحریک آ زادی نے وہ زور پکڑا کہ اب مودی صاحب کے پائوں جمتے نظر نہیں آرہے۔مودی صاحب کی اپنی انتظامیہ کی حالت یہ ہے کہ بھارت کی سب سے زیادہ فوجی طاقت‘ کشمیر ی تحریک آزادی کو دبانے میں لگائی ہوئی ہے‘ لیکن اب مکمل طور پر اس کے پائوں اکھڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ابھی تک یہ راز خبروں میں ظاہر نہیں ہوا۔ حالت یہ ہے کہ تحریک آزادی کے مجاہدین پر جہاں ریاستی طاقت کا استعمال کیاجارہا ہے‘ وہیں اچانک کوئی سکھ عہدیدارا فون کر کے پوچھتا ہے کہ میں فلاں سنگھ پولیس آفیسر بول رہا ہوں۔ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتا دیں۔ یہ ٹیلی فون اب دھڑلے اور تواترسے کئے جا رہے ہیں اور کسی کے بس میں نہیں کہ مجاہدین کو ملنے والی غائبانہ کمک کو روک سکے۔مودی کے آخری دنوں میں حالات روزبروز قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں ۔ کیسا عجیب منظر ہے؟کہ مودی صاحب جس فاتحانہ انداز میں سری نگر پہنچے تھے اور اب وہاں سے بوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔بھارت کے ایک کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے دھرم کو حرکت میں لا کر پورے برصغیر کا سیاسی نقشہ بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔کرتا پور راہداری جو کہ پاکستان میں واقع ہے‘ آج وہاں سکھوں کا ایک مقدس مقام متحرک ہے۔ مزید ایک واقعہ پیش خدمت کر رہا ہوں کہ تھوڑا عرصہ پہلے ہی ہندوئوں نے بے رحمی کے ساتھ دلی اور دیگر علاقوں میں سکھوں کا بے دردی سے خون بہایا تھا۔ میں ان دنوں دلی میں تھا۔ وہاں شاذورنادر ہ کوئی سکھ ٹیکسی میں سوار لے جاتے نظر آتا۔میں نے جس ٹیکسی میں بھی سفر کیا‘ وہاں شاید ہی کوئی سر کے بالوں کے ساتھ دکھائی دیتا اور جو بہادرسکھ ڈرائیونگ کرتا نظر آیا۔ ظاہر ہے‘ بطور ایک صحافی میرا پہلا سوال یہی ہوتا '' آپ لوگ کیسی زندگی گزار رہے ہیں؟‘‘ اس نے خالص ''خالصہ‘‘ کے انداز میں خوب تبّرے پیش کئے۔آج ہندوئوں کا راج ڈگمگاتا دکھائی دے رہا ہے۔ کانگرس ایک لبرل جماعت ہے اور ہندو انتہا پسندوں سے اقتدار نکلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ادھر پاکستان میں حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سب'' انتہا پسند‘‘ اقتدار سے باہر جاتے نظر آرہے ہیں اور ایک ''مجاہد‘‘ کامیاب ہو کر آزاد پاکستان کی بنیادیں مضبوط کر چکا ہے۔بھارت میں ہندو اور پاکستان میں ''انتہا پسند‘‘ اپنے دن گن رہے ہیں۔